چین کی تعلیم میں ترقی

چین کی تعلیم میں ترقی
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی نظام رکھتا ہے اور تعلیم کے شعبے میں اپنی عالمی مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے مستقل اور عمدہ اقدامات کر رہا ہے۔

مارچ 2021 میں، چین نے قومی اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے چودہویں پانچ سالہ منصوبے (2021-2025) کا خاکہ جاری کیا، جس میں ملک کی ایک" جدید سوشلسٹ ملک" کی تعمیر کی کوششوں کے اس اہم دور میں تعلیمی شعبے کے لیے سلسلہ وار اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔

ان اہداف میں بنیادی تعلیم تک عوام کی مساوی رسائی کو یقینی بنانے، پیشہ ورانہ اور تکنیکی تعلیم کو بہتر بنانے، اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے اور تعلیمی اصلاحات کو گہرا کرنے جیسے امور شامل ہیں۔

اس پانچ سالہ منصوبے کے چار سال سے زائد عرصے بعد، حاصل کردہ نتائج اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نہ صرف ان اہداف کو پورا کر چکا ہے بلکہ تعلیم کے متعدد شعبوں میں اہم کامیابیاں بھی حاصل کی گئی ہیں۔

آج ،عالمی پیمانے پر چین کا تعلیمی نظام سب سے بڑا اور اعلیٰ معیار کا حامل ہے، جو نوجوان نسل کی تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کی مضبوط ضمانت ہے۔

ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ چین کی بنیادی تعلیم بلند آمدنی والے ممالک کے اوسط معیار تک پہنچ چکی ہے۔ ملک نے معیاری لازمی تعلیم تک رسائی میں مسلسل بہتری لائی ہے، جہاں اس شعبے میں 2,895 کاؤنٹی سطحی علاقوں نے متوازن ترقی حاصل کی ہے۔ اس دوران مستحق طلباء کے لیے امداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جہاں 2021 سے 2024 کے درمیان 630 ملین اہل افراد کو 1.2 ٹریلین یوآن (تقریباً 169 ارب ڈالر) سے زیادہ کی گرانٹ دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ، پری اسکول تعلیم کے لیے داخلے کی شرح 92 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو 2021تا 2025 کی مدت کے لیے مقرر کردہ 90 فیصد کے ہدف سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلے کی شرح بڑھ کر 60.8 فیصد ہو گئی ہے، جو 60 فیصد کے ہدف سے قدرے زیادہ ہے۔

گزشتہ چار سال سے زائد عرصے کے دوران، چین کے اعلیٰ تعلیمی اداروں نے افرادی قوت میں 55 ملین سے زیادہ گریجویٹس پیدا کیے ہیں اور انہوں نے نیچرل سائنس اور تکنیکی ایجادات کے شعبوں میں ملک کے قومی ایوارڈز کے 75 فیصد سے زیادہ حاصل کیے ہیں۔

چینی جامعات نے لائف سائنسز، کوانٹم ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، میٹریل سائنس، اور خلائی سائنس جیسے شعبوں میں حقیقی نوعیت کی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جبکہ فلسفہ، سماجی علوم، ثقافت اور فنون میں بھی ترقی کی ہے۔"

چین نے دنیا کا سب سے بڑا پیشہ ورانہ تعلیمی نظام بھی قائم کیا ہے۔ چین میں اس وقت 87 پیشہ ورانہ انڈرگریجویٹ یونیورسٹیاں، 9,302 ثانوی پیشہ ورانہ اسکول، اور 1,562 پیشہ ورانہ کالج ہیں، جن میں کل 34 ملین طلباء زیرتعلیم ہیں۔

اس کے علاوہ، چین نے علاقائی اقتصادی و صنعتی ترقی کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے افرادی تربیت کو بہتر بنانے کی خاطر صنعت اور تعلیم کے انضمام کو بھی فروغ دیا ہے۔

اس دوران، چین نے تعلیم میں جامع اصلاحات کو آگے بڑھایا ہے۔ ان میں بنیادی تعلیم میں وسائل کی تقسیم کو بہتر بنانا، کالج داخلہ امتحان کے نظام کو بہتر بنانا، اور اعلیٰ تعلیم میں طلباء کے لیے ترقی کے راستوں میں تنوع لانا شامل ہیں۔

تعلیمی شعبے میں عالمی تعاون کو فروغ دینے کی بات کی جائے تو چین کا تعلیمی شعبہ دنیا کے لیے مزید کھل رہا ہے۔ ملک نے دنیا کا سب سے بڑا اسمارٹ ایجوکیشن پلیٹ فارم بنایا ہے، جو 200 سے زائد ممالک و خطوں کے 170 ملین سے زیادہ صارفین کو معیاری خدمات فراہم کر رہا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق، چین نے 183 ممالک و خطوں کے ساتھ تعلیمی تعاون اور تبادلے کیے ہیں، 61 ممالک و خطوں کے ساتھ تعلیمی قابلیت اور ڈگریوں کی توثیق کے باہمی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، اور 42 ممالک و خطوں کے ساتھ مشترکہ تعلیمی اداروں اور پروگراموں کے لیے تعاون کیا ہے۔

چینی حکام کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ "مقدار" کے تقاضوں کو پورا کرنے سے لے کر "معیار" کو بہتر بنانے تک ، جامع تعلیمی اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لئے یہ ایک اہم سمت ہے۔ ان کوششوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے ہیں کہ "سنٹر فار ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز"کی جاری کردہ تازہ ترین گلوبل 2000 یونیورسٹی رینکنگ 2025 میں چین نے پہلی بار امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس فہرست میں چینی اداروں کی تعداد گذشتہ سال کے 324 کے مقابلے میں بڑھ کر 346 ہو چکی ہے جو مجموعی تعداد کا 17 فیصد ہے۔

چینی جامعات کی عالمی درجہ بندی میں مسلسل بہتری طویل المدتی تناظر میں چینی جامعات کو بھرپور فائدہ دے گی ، کیونکہ جو طلبہ بیرون ملک جانے کا ارادہ رکھتے تھے، وہ اب ملک کی اعلیٰ جامعات میں داخلہ لے رہے ہیں، جس سے چین کے علمی اور تحقیقی ماحول کو مزید تقویت ملے گی۔ 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1641 Articles with 945054 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More