دفاعی معاہدے، اقوام متحدہ اور پاکستان کا تشخص
(Waseem Akaash, Islamabad)
پاکستان کے ساتھ اسلامی و یورپی ممالک کے حالیہ معاہدے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اقوام عالم پاکستانی دفاعی صلاھیتوں کی معترف ہیں۔ |
|
ارض پاکستان ، جس کا حصول آزادی، خودمختاری ، امن و سلامتی اور تعمیر و ترقی کی بنیادوں پر ممکن بنایا گیا۔ گزشتہ اسی برسوں میں ہزار دقتوں کے باوجود اپنے وقار اور تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن رہی۔ پاکستان کےغیور عوام ، عسکری و سیاسی قیادت اور اداروں کی منظم پالیسیوں سے آج پاکستان برصغیر میں ایک خاص اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے۔مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ اب دفاعی اور سفارتی میدانوں میں بھی اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ افواج پاکستان نے بھارتی سازشوں کا سامنا کرتے ہوئے متعدد جنگی حملوں کا جواب دیا اور عرصہ دراز سے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کا قلعہ قمع کرنے کی مساعی کررہی ہیں۔ تاہم بھارت کا مئی 2025 ء میں پاکستانی سرحدوں پر حملہ خود اسے بہت مہنگا پڑ گیا اور اس تاریخی شکست نے نریندر مودی کو نہ صرف اقوام عالم کے سامنے شرمندہ کر دیا بلکہ بھارتی سیاست اور دفاعی صلاحیت بھی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کو پوری دنیا میں دفاعی میدان میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، چائنہ ، سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا ا ور خراج تحسین بھی پیش کیا۔ مئی 2025ء کے بعد پاکستان کی تاریخ بدلی، پوری دنیا میں پاکستان نے سفارتی بنیادوں پر اپنا مقام امر کیا ۔ وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے حالیہ دورہء سعودی عرب میں ہونے والے دفاعی معاہدے نے ملک کومسلم دنیا اور مغربی ممالک کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔اس دفاعی معاہدے کے پس منظر میں اہل داننش کافی قلم فرسائی کر چکے ہیں لہذا یہاں چند چیدہ چیدہ پہلوؤں کی عکاسی کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دیرینہ تعلقات ہمیشہ اعتماد اور باہمی تعاون پر محیط رہے ہیں۔ نیا دفاعی معاہدہ اس رشتے کو مزید مضبوط کرنے کی علامت ہے۔ اس دفاعی معاہدے کے مقاصد میں فوجی تربیت اور ٹیکنالوجی کے تبادلے ، انسداد دہشتگردی میں تعاون، دفاعی سازوسامان اور انٹیلی جینس شئیرنگ اور خطے میں استحکام کے لئے مشترکہ اقدامات شامل ہیں۔یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کی عسکری صلاحیت کو بڑھائے گا بلکہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں توازن قوت پر بھی اثر ڈالے گا۔پاکستان کے لئے یہ معاہدہ معاشی و سفارتی دونوں محاذوں پر فائدہ مند ثابت ہوگا۔ دوسری جانب رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی غیر حاضری اور پاکستانی وزیر اعظم کا پرتپاک استقبال اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر رسمی گفتگو پاکستان کی خطے میں حالیہ اہمیت کی عکاسی کررہی ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کا فعال رکن ہے اور قیام امن، امن مشنز ، اور عالمی مسائل پر ہمیشہ نمایاں کردار ادا کرتا آیا ہے۔پاکستان کی موجودگی جنرل اسمبلی میں عالمی طاقتوں کے سامنے اپنے قومی اور مسلم امہ کے مسائل کو اجاگر کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔ تاہم وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اپنے خطاب میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ غزہ کی جنگ کو فوری طورپر بند کروائے اور انسانی بحران کو روکنے کے لئے عملی اقدامات کرے۔انہوں نے اس بات پہ بھی زور دیا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں لوگوں کو خود ارادیت کا حق ملنا چاہیے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ا س مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اجاگر کرتا رہے گ گا اور کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلواکر دم لے گا۔شہباز شریف نے عالمی سطح پر امن، تعاون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کی اہمیت پر زوردیا جبکہ دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی اور کلائمیٹ ایکشن کےحوالے سے بھی بات کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران پاکستانی وزیر اعظم کی مختلف عالمی رہنما ؤں سے ملاقاتیں دور رس اثرات مرتب کریں گی۔ پاکستان کو آج ترقی یافتہ اقوام ایک مفید سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے گروپ اجلاس ، عرب و مسلم رہنماؤں سے مشاورتی اجلاس پاکستان کے موجودہ تشخص کو واضح کرتے ہیں۔ پاکستان نے عرب مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد اور مشترکہ مؤقف کی تشکیل کی کوشش بھی کی ہے۔تاہم پاکستان نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ غربت کےخاتمے، پائیدار ترقی کے اہداف، اور عالمی اقتصادی تعاون کو تقویت دے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان خود کو ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔تاہم افغانستان کی موجودہ صورتحال اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نے پاکستانی تشخص کو کسی حد تک متاثر بھی کیا ہے۔ بھارت ، افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی دراندازی اور سہولت کاری کے ذریعے ملکی امن واستحکام کو متاثر کر رہاہے۔پاکستان کے صوبہ کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گرد تنطیموں کے روز افزوں حملے ، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور سہولت کاروں کی بیرونی امداد نے پاکستان کو سیاسی، معاشرتی اور سفارتی بنیادوں پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائیوں نے خطے میں امن وامان کی صورتحال کو قدرے سنبھال رکھا ہے۔افغانستان کے معاملے پر پاکستان خود کو ایک ثالث ہمسایہ ، خیر خواہ ملک کے طور پر پیش کرتاہے مگر افغان عبوری حکومت کا دہشت گرد عناصر کی پاکستانی سرحدوں پر حملوں پر خاموشی ومعاونت سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود کشمیرکے مسئلے پر پاکستان کی سخت مگر اصولی پوزیشن اس کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے۔اندرونی ملک معاشی بحران، حالیہ سیلابی صورتحال ،، سیاسی تقسیم اور معاشرتی مسائل بحران پاکستان کو کمزور اور غیر یقینی بنا سکتےہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کی قوت مدافعت اور عوام کی قربانیوں کو دنیا ایک خاص پہچان کے طور پردیکھ رہی ہے۔ کھیلوں ، ثقافت و ادب اور نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں پاکستانی تشخص کو ایک متنوع اور زندہ معاشرہ ظاہر کرتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاک فوج کا کردار دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک مضبوط دفاعی قوت کے طور پر پیش کر چکاہے۔سعودی عرب ، چین اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ دفاعی و تذویراتی تعلقات، پاکستانی تشخص کو مزید مستحکم بنا رہے ہیں۔نوجوان آبادی ، سی پیک جیسے منصوبے اور ٹیکنالوجی میں ابھرتی ہوئی دلچسپی پاکستان کو ایک مستقبل دوست اور ابھرتا ہوا ملک دکھا رہی ہے۔الغرض موجودہ حالات میں گو پاکستان بیک وقت چیلنجز اور مواقع سے گھرا ہوا ہےتاہم عالمی فورمز پر اصولی مؤقف، اسلامی دنیا میں قیادت کا دعویٰ ، دفاعی صلاحیت اور نوجوان نسل کی توانائی پاکستان کو ایک زندہ، باعزم اور امکانات سے بھرپور ریاست کے طور پر دنیاکے سامنے پیش کر رہی ہے۔ |
|