جارجن فرائڈنیس اورمہرنگ بلوچ تعلقات ۔نوبل امن انعام خطرے میں

نوبل انعام کی نامزدگی میں ان افراد کو شامل کرنا جو معاشرے کے امن و استحکام کے لئے سوالیہ نشان بن چکے ہوں، اقوام عالم کے لئے لمحہء فکریہ ہے
سر زمین پاکستان کوقدرت نے بےشمار نعمتوں اور قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ معتدل آب و ہوا، دریاؤں، وادیوں ، پہاڑوں ، گلیشیئرز اور سمندر جیسے خزانے رکھنے والا ملک پاکستان جوایٹمی طاقت اور بہترین دفاعی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان جیسی قدرتی وسائل سے بھرپور زمین بھی رکھتا ہے۔ بلوچستان پاکستان کا دل ہے ،معدنی ذخائر ہوں ، گوادر بندگاہ ہو یا سی پیک جیسے عظیم منصوبے ، یہ نہ صرف ملکی ترقی بلکہ خطے کی خوشحالی کی ضمانت ہیں۔ بلکہ اقوام عالم کے لئے باعث رشک بھی ہیں ۔ بلوچستان کا علاقہ اپنے آپ میں کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے دشمن طاقتوں نے اس علاقے کو سازشوں کا مرکز بنا رکھا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بعض بیرونی قوتیں اور ان کے اندرونی سہولت کار بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اسی تناظر میں جارجن فرائیڈنیس اور مہرنگ بلوچ کے تعلقات ایک سنگین سوالیہ نشان ہیں۔
جارجن فرائیڈنیس کا نام ایک عرصے سے بلوچستان کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے سامنے آرہا ہے۔مختلف رپورٹس اور شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کے لبادے میں پاکستان مخالف عناصر کی پشت پناہی کر تارہا ہے۔ فرائیدنیس کا بنیادی ایجنڈا پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور علیحدگی پسند عناصر کو سپورٹ فراہم کرنا ہے۔حالیہ عرصے میں یہ تعلق واضح ہو کر سامنے آیا ہے کہ جارجن فرائیڈنیس کے روابط مہرنگ بلوچ جیسے عناصر سے ہیں۔ مہرنگ بلوچ خود کو ایک "سماجی کارکن"کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن ان کی تقاریر، بیانات اور سرگرمیاں بارہا BLA(بی ایل اے)اور دیگر ریاست دشمن گروپوں کے بیانیے کی عکاسی کرتی ہیں۔مہرنگ بلوچ کا بیانیہ ہمیشہ پاکستا ن کی سالمیت اور فوج مخالف ہوتاہے۔جبکہ دہشت گرد تنظیموں کے جرائم پر وہ خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ اس تضاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اصل مقصد انسانی حقوق نہیں بلکہ بیرونی ایجنڈے کی تکمیل ہے۔
بی ایل اے ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس کے ہاتھ سیکڑوں معصوم شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔اس کے باوجود مہرنگ بلوچ اور ان جیسے دیگر عناصر اس تنظیم کی سرگرمیوں کو "مزاحمت" کے نام پر جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جارجن فرائڈنیس ایسے بیانیے کو عالمی سطح پر اجاگر کر کے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مشینری کو مزید تقویت دیتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں ریاستی ترقیاتی منصوبے عوامی فلاح کے لیے ہیں، نہ کہ کسی بیرونی قوت کی خواہش اور بیرونی ایجنڈے کے تحت۔دہشت گردی نے سب سے زیادہ نقصان بلوچ عوام کو پہنچایا ہے۔ جنہیں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع سے محروم کیا گیا۔فوج اور ریاستی ادارے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے عملی اقدامات کر رہے ہیں، جبکہ علیحدگی پسند گروہ بیرونی فنڈنگ پر چلتے ہیں۔مہرنگ بلوچ اور ان جیسے افراد بلوچستان کے عام عوام کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ریاست مخالف بیانیہ پھیلا رہے ہیں۔جارجن فرائیڈنیس اور مہرنگ بلوچ کے روابط اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے بعض عناصر انہیں ہوا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام حقیقت اور پراپیگنڈے میں فرق پہچانیں اور ریاست دشمن بیانیے کو رد کریں ۔
مہرنگ بلوچ، جو کہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی ہمدرد سمجھی جاتی ہیں، کو عالمی سطح پر امن کی علمبردار اور نوبل انعام کی امیدوار کے طور پر پیش کرنے کی مہم ایک نہایت تشویشناک پیش رفت ہے۔ یہ ایک سوچے سمجھے لابنگ نیٹ ورک کا نتیجہ ہے، جس میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ افراد اور حلقے شامل ہیں۔ شواہد مہرنگ بلوچ، کیہ بلوچ، یورگن واٹنے اور فریڈنس کے درمیان ایک خطرناک تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ گٹھ جوڑ دنیا کے سب سے معتبر امن انعام کو سیاسی بنانے اور انتہا پسند ہمدردوں کو ’’مظلومیت کی آواز‘‘ کے بہانے جواز فراہم کرنے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ انہیں ’’حقوق کی کارکن‘‘ کے طور پر عالمی سطح پر برانڈ کیا گیا ہے، لیکن مہرنگ بلوچ کالعدم بی ایل اے کے دہشت گرد غفار لانگو کی بیٹی ہیں، جن کی قبر پر آج بھی بی ایل اے کا جھنڈا لہراتا ہے۔ اپنی سرگرمیوں کے دوران انہوں نے کبھی بھی بی ایل اے کے ان منظم حملوں اور معصوم شہریوں کے قتل کی مذمت نہیں کی جو دیگر قومیتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ حالیہ بیانات میں انہوں نے بظاہر نرم الفاظ میں ’’سب کے حقوق‘‘ کی بات کی ہے مگر کبھی بھی بی ایل اے یا اس کی خودکش بریگیڈ کے نسلی قتل عام پر براہِ راست تنقید نہیں کی۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ جس تنظیم کی قیادت مہرنگ کرتی ہیں، محض ایک ’’سول سوسائٹی‘‘ تنظیم نہیں بلکہ BYC)) بلوچ یکجہتی کمیٹی ہے جو دہشت گردوں کے بیانیے کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور ان کی کارروائیوں کو جواز بخشتی ہے۔ ان کے سابق باڈی گارڈ، سہیب لانگو، کو بعد میں بی ایل اے نے ایک کمانڈر کے طور پر ظاہر کیا جو شہریوں پر حملوں میں ملوث تھا۔ یہی نہیں بی وائی سی کی رکن گلزادی نے اپنے بھائی ودود ستکزئی کے ’’لاپتہ‘‘ ہونے کا ڈرامہ رچایا، حالانکہ بی ایل اے نے بعد میں اسے 2024 مچھ حملے میں خودکش بمبار کے طور پر ظاہر کیا۔ یہ واقعات بی وائی سی کو نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف راغب کرنے اور دہشت گردی کے لیے بیانیہ فراہم کرنے والے پلیٹ فارم کے طور پر بے نقاب کرتے ہیں۔ مہرنگ کے پیچھے لابنگ مہم کو وسیع تر جیو پولیٹیکل ڈیزائن سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بی ایل اے، جسے ہربیار مری نے قائم کیا، طویل عرصے سے بھارت کی را اور اسرائیل کی موساد کے ساتھ ہم آہنگ رہی ہے اور اپنے پروپیگنڈے کے لیےMEMRI اور بھارتی میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ادارے استعمال کرتی رہی ہے۔
پین ناروے اور فریڈنس کے ذریعے مہرنگ کی پذیرائی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ انہیں ایک عالمی ’’ہیومن رائٹس فگر‘‘ کے طور پر پیش کر کے دراصل دہشت گردی سے جڑے عناصر کو پاکیزہ بنا کر پاکستان کو سفارتی طور پر کمزور کرنا مقصود ہے۔ اہم سوال یہ ہے: کیا یورگن واٹنے فریڈنس شعوری یا غیر شعوری طور پر را اور موساد کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں، جب وہ مہرنگ بلوچ جیسے متنازعہ فرد کو نوبل کے لیے آگے بڑھا رہے ہیں؟یہ معاملہ اتنا اہم کیوں ہے ؟ بی ایل اے اور اس کی مجید بریگیڈ بین الاقوامی طور پر دہشت گرد تنظیمیں مانی جاتی ہیں جو خودکش دھماکوں، نسلی قتل اور پاکستان میں عدم استحکام کی ذمہ دار ہیں۔ کسی بھی لابنگ کے ذریعے بی ایل اے سے جڑے افراد کو جائز قرار دینا عالمی انسداد دہشت گردی عزم کو کمزور کرتا ہے۔ نوبل امن انعام کا سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال اسے انہی انتہا پسندوں کے ہاتھ میں دے سکتا ہے جن کے خلاف یہ انعام امن اور انصاف کی علامت کے طور پر وجود میں آیا تھا۔
ان ملک دشمن کارروائیو ں کا اعتراف خود بی ایل ایف کی 10 جولائی کی ایک اعترافی رپورٹ میں کیا گیا ، جس میں بلوچستان کے مختلف علاقوں پنجگور،سوراب، کیچ اور خاران میں 17مربوط حملے اور دھماکے کئے گئے اور اس کی ذمہ داری بی ایل ایف نے قبول کرتے ہوئے اسے آپریشن بام کا نام دیا گیا۔جبکہ 11 اگست 2025ء کو امریکی محکمہء خارجہ نے بلوچ لبریشن آرمی اور اس کے خودکش دھماکوں کے لئے معروف یونٹ مجید بریگیڈ کو " غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ان گروہوں کے اثاثے منجمد کئے جائیں بلکہ ان سے تعلق رکھنے یا ان کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف عالمی سطح پر بھی کارروائی ممکن ہوگی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مہرنگ بلوچ کی نوبل انعام کی مہم امن یا انصاف پر مبنی نہیں بلکہ ایک منظم لابنگ نیٹ ورک کا نتیجہ ہے جسے بی ایل اے کے ہمدردوں اور غیر ملکی سرپرستوں نے ترتیب دیا ہے۔ انہیں اوپر لانے کا عمل نوبل کمیٹی کو اس خطرے میں ڈال رہا ہے کہ دہشت گردی سے جڑی شخصیات کو عالمی پلیٹ فارم مل جائے اور اصل متاثرین کی آواز دب جائے۔ نوبل کمیٹی کو اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے اس نامزدگی کے پیچھے موجود لابنگ نیٹ ورکس، پین ناروے اور فریڈنس کے مفادات کے ٹکراؤ اور بی وائی سی و بی ایل اے کے تعلقات کی سختی سے تحقیقات کرنی چاہئیں۔ ورنہ یہ نہ صرف عالمی انسداد دہشت گردی عزم کو نقصان پہنچائے گا بلکہ انتہا پسند ہمدردوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم دے گا جو نوبل انعام کے اصل مقصد—امن اور انسانیت—کے خلاف ہے۔بلوچستان پاکستان کا دل ہے اور افواج پاکستان اس دل کی دھڑکن، چنانچہ ملک دشمن عناصر کو کسی بھی صورت میں اس خطے کے امن وامان اور استحکام سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 
Waseem Akaash
About the Author: Waseem Akaash Read More Articles by Waseem Akaash: 16 Articles with 6570 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.