سفر حج چیپٹر ١٨

طواف زیارت

سو ہمیں حاجی کا لقب مل گیا۔
مبارک مبارک مبارک

کل رات میں قربانی کا پیغام بھیا کے موبائل پر آچکا تھا۔سو اب سب
essentials
قربانی کے پورے کر کے ہم حاجی بن گئے تھے۔
ہر طرف ٹینڈیں اور خوش ہوتے لوگ نظر آرہے تھے۔
اب آج ہمارا طواف زیارت تھا۔

سو پہلے تو چلتے چلتے اپنے عزیزیہ گھر تک جانا تھا۔راستے میں چھوٹے چھوٹے بچے ٹھنڈے
پانی کی بوتلیں بانٹ رہے تھےا ور وہ یخ ٹھنڈی بوتلیں اچھی بہت لگ
رہی تھیں۔ چار پانچ سال کی دو پونیوں والی بچیاں "ایک ریال میں ٹھنڈے پانی کی بوتل" کا اعلان
کررہی تھیں۔ انکی آواز بے حد خوشگوار محسوس ہو رہی تھی۔
پھر بہت سے لوگ راستے میں ایسے بھی تھے جوکہ
بسبوستہ کیک بانٹ رہے تھے۔بہت سی مختلف اقسام کی کھجوریں بھی ملیں تھیں۔
انار کا جوس بھی ملا تھا۔

اب ہم لوگ عزیزیہ جانے کے لئے کمرشل اطراف سے گزر رہے تھے سو راستے میں
بنے بقالے بھی خوبصورت تھے۔
بینکس اور بڑے ہوٹل بھی نظر آرہے تھے۔
ہاں حسب دستور
پولیس والے تیز نظروں کے ساتھ موجود ہی موجود تھے۔
عزیزیہ پہنچے ایک دوسرے کو مبارک دی اور دوسروں سے مبارک لی بھی تھی۔

فریش اپ کھانے پینے کے بعد ہم پہنچ چکے تھے طواف زیارت کو نکلنے کے لئے
تیار کھڑے تھے۔ پھر کیب پکڑی اور حرم پہنچے۔ خوشی ہی خوشی۔

بعض کیفیات الٖفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتیں۔

پھرجب اللہ کا گھر دوبارہ نظر آیا محسوس ہو رہا تھا کہ آنسو دوبارہ چھلک جائیں گے۔
شاید کچھ چھلک بھی گئے تھے۔ مگر اس وقت پر کیفیت ایسی ہوتی ہے جو کہ
آپکو اپنا آپ بھی بھلا دیتی ہے۔
جس گھر کو ہر کوئی دیکھنا چاہتا ہے۔
جس کو ہر کوئی چھو کر محسوس کرنا چاہتا ہے۔

اتنے لوگوں میں اللہ
آپ کو بلاتا ہے۔

اللہ اللہ شکریہ
(جو جو آنے کی دعا کرتا ہے اللہ سب کو بلائے)

ہر طرف منظر وہی ہے لوگ حمدو ثنا کرتے عبادت کے شوق و ذوق سے لبریز طواف
و سعی کرتے۔کچھ گروپس نظر آتے تھے جو کہ اپنی نشانی کے لئے سر پر سبھی
گلابی پھول لگائے ہوں تھے، یا نیلا ربن ، یا پیلا چغہ یا سرخ رومال سر پر تھا
یا سبز رنگ کی پٹی بازو پر تھی یا جامنی رنگ کا پوم پوم سر پر تھا غرض
بہت کچھ تھا جو کہ اپنی نشانی بتانے کے لئے اس طرح کے چھوٹے چھوٹےگروپس نے کیا
ہوا تھا۔ انکا لیڈر انکو دعائیں پڑھا رہا تھا۔

بہت ساری دھکم پیل میں ہر شخص کی کوشش کہ میں کعبہ کے قریب طواف کر سکوں۔
میں نوافل ذیادہ سے
ذیادہ پڑھ سکوں۔ مینجمنٹ لوگوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر نکالتی اور سعی کے لئے دوسروں کو
موقع دیتی ہوئی نظر آرہی تھی۔

بنگالی کام کرتے پانی کے کولرز لاتے لے جاتے نظر آرہے تھے۔ وہی شرطوں کی
یلا حاجی کی آوازیں۔ وہی سر پر سورج۔ اے سی کی ٹھنڈک اور ہر طرف آنکھوں کو
خیرہ کر دینے والی مسجد کا حسن۔کہیں خواتین کے محتص حصوں میں
خواتین تلاو ت نوافل میں مشغول نظر آرہی تھیں۔

سب آپکو احساس دلاتا تھا آپ ابھی ہی آئے ہو اور ہمیشہ رہنا چاہتے ہو۔


طواف سعی اور زم زم پینے کے بعد ڈھیر ساری دعائیں مانگ کر باہر آئے تھے۔
سب گھر والوں کو بھوک لگی تھی۔ ابا جی کا کہنا تھا اپنا سوکھا راشن کھاو اور رمی
کے لئے نکلو۔ ابا جی کی منت و سماجت کی اور
پھر شوارما کھایا۔ کیب پکڑ چل پڑے۔کیب صرف ایک پوائنٹ تک اتار سکی تھی۔

کیونکہ وہی ہوا کہ راستے بند تھے کافی سارا راستہ پیدل ہی طے کرنا تھا ۔ سو رونا آتے آتے رہ گیاتھا ۔
کیونکہ واپسی کا راستہ بھی پیدل ہی ہونا تھا۔

سو ون ٹو تھری چلتے جاو چلتے جاو۔

(جاری ہے)

sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 250 Articles with 331588 views A writer who likes to share routine life experiences and observations which may be interesting for few and boring for some but sprinkled with humor .. View More