درست عقیدے کے بغیر عمل بےکار ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل بے شمار فرقے جنم لے رہے ہیں۔ طرح طرح کے عقیدے بنا کر لوگوں کو گمراہ کرنے اور اصل دین سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ آپ کو اپنے اردگرد ایسے بھی ملیں گے جو بظاہر نمازی اور روزہ دار ہوں گے، مگر جب ان کے عقائد پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہیں اپنے اصل عقیدے کی پہچان ہی نہیں۔ وہ ہر کسی کو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ فرقے وغیرہ کچھ نہیں، یہ تو بس مولویوں کے آپس کے جھگڑے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہتے ہیں کہ نماز پڑھو، چاہے کسی کے پیچھے بھی ہو، کیونکہ نماز، قرآن اور کلمہ تو سب کے لیے ایک ہی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ جب ہم قرآن پاک کو پڑھتے ہیں تو ہمیں اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ عمل کرنا تو ٹھیک ہے، لیکن عمل سے پہلے ایک ایسی چیز ہے جس پر اس عمل کی قبولیت موقوف ہے، اور اس ستون کو عقیدہ کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے. ترجمہ: اور جو ایمان کا انکار کرے، اُس کے سارے اعمال ضائع ہو گئے۔ (سورہ مائدہ: 5) عقیدے کی اہمیت پر احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔" (صحیح بخاری، صحیح مسلم) اس حدیث سے واضح ہے کہ عمل کی اصل بنیاد دل کا عقیدہ و نیت ہے۔
اب میں آپ کو عقیدے کی تعریف بتاتا ہوں، جس سے آپ کو مزید اندازہ ہوگا کہ عقیدہ کسی بھی عمل سے پہلے کتنا ضروری ہے۔ عقیدہ کی تعریف یہ ہے عقیدہ عربی لفظ "عقد" سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں باندھنا، مضبوطی سے پکڑنا۔ یعنی انسان کے دل میں کسی بات پر ایسا یقین قائم ہو جائے جو اٹل اور غیر متزلزل ہو، تو اسے عقیدہ کہا جاتا ہے
عقیدہ کی تعریف کچھ ائمہ کرام کے الفاظ میں
امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ ترجمہ: ہم اللہ کی توحید میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور کوئی اس جیسا نہیں۔
امام نسفی رحمہ اللہ ترجمہ: عقیدہ وہ ہے جو دل میں جم جائے اور عمل اس کی تصدیق کرے امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ ترجمہ: عقیدہ ایسا حکم ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
امام غزالی رحمہ اللہ ترجمہ: عقائد وہ ہیں جن پر دل یقین کرے، جیسے اللہ، فرشتے، کتابیں، رسول، آخرت اور تقدیر پر ایمان۔
اہلِ سنت کے نزدیک عقیدہ اور عمل دونوں ضروری ہیں، لیکن سب سے پہلے عقیدہ کی درستی لازم ہے کیونکہ عمل کی قبولیت کا دار و مدار عقیدہ پر ہے۔ دلیل • اگر عقیدہ درست نہ ہو اور کوئی شخص کفر یا شرک میں مبتلا ہو تو اُس کے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ ائمہ کرام کی نظر میں عمل سے پہلے عقیدہ ضروری ہے۔ 1. امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ "اعمال کی اصل ایمان ہے، اگر ایمان نہ ہو تو اعمال قبول نہیں۔" یعنی عقیدہ درست نہ ہو تو کوئی بھی نیک عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں ہوتا۔
2. امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ "ایمان دل کا یقین ہے، اور عمل اس کی تصدیق ہے۔ اگر یقین نہ ہو تو عمل بے فائدہ ہے۔" . شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ "سب سے پہلے درستیِ عقیدہ لازم ہے، پھر اعمال کی اصلاح۔ بے ایمان کے اعمال بے وزن ہیں۔"
یاد رہے کہ عمل کرنے کی اہمیت اپنی جگہ ہے، مگر ہر عمل اسی وقت اپنے کمال کو پہنچے گا جب اس میں نیت خالص اور صاف ہو۔ "اگر میں اس کی مثال دوں تو شاید آپ زیادہ آسانی سے سمجھ جائیں۔ ایک شخص کا درست عقیدہ کے بغیر عمل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مزدور پورا مہینہ بغیر تنخواہ کے کام کرتا رہے۔ کیونکہ جب کسی شخص کا عقیدہ درست نہ ہو اور وہ مسلسل نماز، روزہ، قرآن اور دوسرے نیک اعمال کرتا رہے تو اس کا ثواب اس کے نامۂ اعمال میں درج نہیں کیا جاتا۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے ایک مزدور پورا مہینہ محنت کرے لیکن اسے اجرت نہ ملے تو اس محنت کا کیا فائدہ؟" "اور وہ لوگ جو سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، انہیں اپنے نظریے کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے، کیونکہ حق اور باطل کبھی ایک نہیں ہوسکتے، اسی طرح باطل کبھی صحیح نہیں ہوسکتا۔ اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم حق اور باطل کو سمجھیں، اور اس کے لیے ہمیں قرآن، احادیث اور ائمہ دین کی کتب کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ ورنہ جب ایک بار آنکھیں بند ہوگئیں تو کل کے دن کوئی عذر کام نہیں آئے گا۔ یاد رکھیں! سب کلمہ پڑھنے والے، نمازی اور قرآن پڑھنے والے لازمی طور پر جنتی نہیں ہیں۔ اس کی مثال شیطان مردود ہے، جو اللہ کو مانتا تھا، اس نے بھی بہت عبادتیں کیں، نمازیں پڑھیں اور ایک وقت میں اللہ کے نزدیک مقبول بھی رہا۔ لیکن اس کے اعمال اسے نہ بچا سکے، وجہ یہی تھی کہ اس کا عقیدہ درست نہیں تھا، اگرچہ عمل میں وہ مضبوط تھا۔ اگر اس وقت وہ اللہ کے نبی کی تعظیم کرتا اور سجدہ کر لیتا تو آج وہ ابلیسِ لعین نہ بنتا اور ذلیل و رسوا ہو کر نہ نکالا جاتا۔" .بلکل اسی طرح اگر کوئی فرقہ بظاہر آپ کو نمازی، پرہیزگار اور عبادت گزار نظر آئے اور اسی بات کی ترغیب بھی دے رہا ہو تو ہرگز آپ ان کے اعمال کو دیکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ وہ حق پر ہیں۔ اب یہاں ایک سوال آپ کے ذہن میں آسکتا ہے کہ جب ایک جماعت نماز پڑھتی ہے، پرہیزگاری اختیار کرتی ہے، روزے رکھتی ہے اور نیک کاموں کی تبلیغ کرتی ہے تو وہ کس طرح غلط ہوسکتی ہے؟ بات اب اصل موضوع کی طرف آ گئی ہے، جو میں اپنی اس تحریر میں سمجھانا چاہتا تھا کہ عقیدے کا اعمال پر کیا اثر پڑتا ہے؟
تو میرے دوستو! سب سے پہلے کسی کو حق یا باطل پرکھنے کا معیار اس کا عقیدہ ہونا چاہیے، نہ کہ اس کا عمل۔ جیسا کہ میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں کہ اعمال میں آج کا کوئی بھی انسان شیطانِ مردود کے اُس عبادت کے مقام کا مقابلہ نہیں کرسکتا جو اس کے مردود ہونے سے پہلے تھی، لیکن پھر بھی وہ ابلیسِ لعین ہوا۔ اسی لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے عقائد درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا تھوڑا سا عمل بھی بَرَکت اور قبولیت کا ذریعہ بن جائے۔"
اپنے دوستوں کی آسانی کے لیے میں کچھ مخصوص عقائد کی وضاحت کر دیتا ہوں تاکہ کم از کم آپ کو یہ اندازہ ہو جائے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اور ہماری مسجد کے امام صاحب — جن کے پیچھے ہم نے اپنی زندگی بھر کی فرض نمازیں ادا کی ہیں اور جو ہمارے اعمال کے ثواب کا ذریعہ بنتے ہیں — وہ کس فہرست میں شامل ہیں۔ اللہ عزّ و جل کے متعلق کیا عقیدہ ہونا چاہیے؟ سب سے پہلے، اگر ہم اللہ تعالیٰ کے بارے میں عقیدے کی بات کریں تو ہمارا اللہ کے متعلق کیا عقیدہ ہونا چاہیے اللہ ایک ہے؛ اللہ جسمانیت سے پاک ہے؛ نہ اس کا کوئی باپ ہے اور نہ کوئی بیٹا۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ کو کسی مخصوص جگہ تک محدود سمجھنا—چاہے وہ آسمان ہو یا زمین—سختی سے غلط ہے۔ اب اگر ہم نبی پاک ﷺ کے حوالے سے بات کریں تو اس میں بہت طویل فہرست ہے، لیکن بات زیادہ لمبی ہونے کے باعث میں مختصراً چند نمایاں عقائد پر روشنی ڈالوں گا جن پر ہمیں خاص توجہ رکھنی چاہیے۔ ہمیں آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے؟ سب سے پہلے، ہمارے نبی پاک ﷺ کو (معاذ اللہ) اَن پڑھ سمجھنا۔ ذرا سوچیے! جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ ہمارے نبی اُمّی یعنی اَن پڑھ تھے، تو وہ کیسے امتی ہوں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی کو (نعوذ باللہ) اَن پڑھ سمجھا جائے اور پھر بھی اس کے کلمہ گو خود کو عالم و فاضل اور مسلمان کہلائیں؟ یہ تضاد عقل کو کیسے قبول ہوگا؟ آپ سمجھدار ہیں، مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ دوسرا عقیدہ جو کچھ لوگ امتِ مسلمہ میں پھیلا رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ (معاذ اللہ) ہمارے آخری نبی ﷺ وفات پا گئے۔ حیرت کی بات ہے کہ قرآن کریم صاف الفاظ میں کہتا ہے: " شہید کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں " اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے: جو امتی اپنے نبی کا کلمہ پڑھ کر مسلمان کہلاتا ہے، انہی کی شریعت پر عمل کر کے جان دیتا ہے، قرآن کے مطابق وہ زندہ ہے، لیکن اس کا نبی (نعوذ باللہ) مردہ ہو گیا؟ کیا یہ بات دل و دماغ کو سمجھ آتی ہے؟ آج کا کلمہ گو مسلمان جو نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے اور دوسرے نیک اعمال کرتا ہے، لیکن دل میں اپنے نبی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ (معاذ اللہ) وفات پا گئے ہیں، تو کیا اس کی نماز اور روزہ اس کے لیے نجات کا ذریعہ بنیں گے یا وبالِ جان؟ اور افسوس! ہم ایسے لوگوں کو حق پر سمجھ کر ان کے پیچھے نمازیں بھی پڑھتے رہتے ہیں، صرف اس بنیاد پر کہ وہ نمازی اور پرہیزگار نظر آتے ہیں۔ اب ایک اور وضاحت ضروری ہے: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ " ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کا ہر فرمان برحق ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر نبی نے، سوائے چند (چار) انبیاء کے، موت کا ذائقہ ضرور چکھا۔ تمام انبیاء پر موت طاری ہوئی، لیکن وہ محض لمحاتی تھی تاکہ فرمانِ الٰہی پورا ہو۔ اس کے بعد اللہ نے ان کی جانیں واپس لوٹا دیں اور پہلے سے بھی زیادہ طاقت و تصرف عطا فرمایا۔ جب ایک عام انسان نیک عمل اس نیت سے کرتا ہے کہ رب راضی ہو جائے اور مرنے کے بعد جنت ملے، تو سوچئے کہ نبیوں کا کیا مقام ہوگا جن کے مرتبے اور شان کو ہم الفاظ میں بھی بیان نہیں کرسکتے۔ نبی پاک ﷺ کے بارے میں ایک اور غلط عقیدہ جو آج کل کچھ لوگ پھیلا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ (نعوذ باللہ) نبی کریم ﷺ کو دیوار کے پیچھے کا علم نہ تھا اور وہ غیب کی خبریں کیسے دے سکتے تھے! استغفراللہ۔ یہاں سب سے پہلے ایک بات واضح کر دوں: اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی غیب دان ہیں، لیکن ان کا غیب "عطائی" ہے، "ذاتی" نہیں۔ ذاتی علمِ غیب صرف اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے، مگر قرآن میں صاف بیان ہے کہ اللہ جسے چاہے جب چاہے غیب کا علم عطا کر سکتا ہے۔ اس لیے ہمارا ایمان ہے کہ ہر نبی کو غیب کا علم اللہ کی عطا سے حاصل ہے۔ ہمارے ائمہ کرام اور بزرگانِ دین یہ بات صدیوں سے سمجھا رہے ہیں، مگر کچھ لوگ اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اگر وہ مان لیں تو ان کی دکانیں بند ہو جائیں گی جو وہ جھوٹ اور بہتان کے سہارے چلا رہے ہیں۔ ہمیں صحابۂ کرام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے؟ سب سے پہلے تو ہمارا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابہ کرام جنتی ہیں۔ حتیٰ کہ وہ صحابی بھی جنہوں نے اپنی زندگی میں نماز، روزہ یا کوئی اور نیک عمل کرنے کا موقع نہ پایا، مگر صرف نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر فوراً انتقال کر گئے — وہ بھی جنتی ہیں۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہییں۔ دوسرا اور سب سے اہم مسئلہ، جو آج کل بہت سے لوگوں کے زیرِ بحث رہتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے درمیان بعض اختلافات کے نتیجے میں جنگیں ہوئیں۔ لیکن یہ سب ان صحابہ کے اپنے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر تھا۔ شریعت کے مطابق اجتہاد کرنے والے کو بہرحال اجر ملتا ہے، اس لیے ہمیں ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ ہم ان جلیل القدر صحابہ پر زبان درازی کریں۔ مثلاً حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان، یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے درمیان جو معرکے ہوئے، وہ ان کے اجتہاد کا نتیجہ تھے۔ لیکن ہمارے نزدیک وہ سب کے سب یقینی طور پر جنتی ہیں۔ اسی طرح ایک اور مسئلہ جو آج کل مختلف فرقوں کے درمیان زیرِ بحث بنا ہوا ہے، اور لوگ ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات اور فتویٰ لگا رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ بعض معتبر صحابہ کرام کو بھی محفوظ سمجھا نہیں جا رہا۔ یہ مسئلہ خلافتِ راشدہ کا ہے — جس پر صدیوں سے امتِ مسلمہ میں مسلمہ اتفاق رہا ہے — کہ خلافتِ راشدہ میں سب سے پہلے نمبر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے، دوسرا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا، تیسرا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اور چوتھا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا۔ یہ ترتیب اللہ، اس کے رسول اور پھر تمام صحابہ کرام کی رضا و اتفاق سے ثابت مانی گئی ہے۔ اب جب کچھ لوگ اپنی نا قص عقل سے نمبر اوپر نیچے کرنے کی کوشش کریں، یا صحابہ پر طرح طرح کے الزامات لگا کر اپنی آخرت تباہ کر رہے ہیں — مثلاً بعض صحابہ کو کم تر یا مشکوک قراردینا — تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان کا ایسا عمل قابلِ قبول ہو سکتا ہے؟ یہ معاملہ محض نظریاتی بحث نہیں بلکہ ایمان و عقیدے کا سنجیدہ موضوع ہے؛ اس لیے انصاف، احتیاط اور ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ فیصلہ آپ کا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اہم مسئلہ، جو دو عظیم المرتبت شخصیات کے حوالے سے زیرِ بحث رہتا ہے — اور یہ دونوں پوری امت کے لیے مشعلِ راہ اور نمونۂ عمل ہیں — وہ ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی افضلیت کا معاملہ۔ کیونکہ جب کوئی خلافت کے نمبرپر گفتگو کرتا ہے تو وہ صرف خلافت ہی کی بات نہیں کرتا بلکہ افضلیت کے پہلو کو بھی موضوع بناتا ہے۔ ایسے لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں۔ حالانکہ احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کے بعد اگر بشر میں کوئی سب سے افضل ہے تو وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، نہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ مگر نہ جانے یہ لوگ ان احادیث کو کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو رد کر کے اپنی بات کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔ یقیناً یہ بھی برحق ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان و مرتبہ نہایت بلند و بالا ہے، لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا درجہ اس سے بھی ارفع و اعلیٰ ہے۔ اور اگر حضرت ابو بکر صدیق کی افضلیت کا ذکر کسی عام بزرگ نے کیا ہوتا تو شاید اس پر بحث کی جا سکتی تھی، مگر جب ایک مسلمان کے نزدیک قرآن کے بعد سب سے اعلیٰ اور فیصلہ کن حجت ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے، تو اس فرمان کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت تمام بشر پر بعد از انبیاء بالیقین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پیدائش سے لے کر آج تک ہر جمعہ کو سنتے آ رہے ہیں: "اَفْضَلُ الْبَشَر بَعْدَ الْأَنْبِیَاءِ بِالتَّحْقِیْق، سَیِّدُنَا أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیْق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ" آخر میں اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ ایسے بہت سے مذہبی اختلافات ہیں جن کی بنیاد ہمارے ایمان اور عقائد پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر ہم اکثر انہیں محض باہمی اختلاف سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں اور نادانی میں دوسروں کے ہاتھوں اپنا ایمان بیچ ڈالتے ہیں۔ اب جو مسئلہ آخر میں زیرِ تحریر آیا ہے، وہ ہمارے عشق، ایمان، عقیدہ اور سب سے اہم — حق و باطل کی پہچان اور اس پر ثابت قدم رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اور وہ مسئلہ ہے: حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید پلید کے بارے میں عقیدہ۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے بھی افسوس ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان ہو کر کیسے یہ مان سکتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ (معاذ اللہ) غلط تھے اور یزید پلید حق پر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی شخص ایسا گمان کر سکتا ہے جس کے دل پر رب تعالیٰ نے نفاق کی مہر لگا دی ہو۔ کیونکہ جس شہزادے کی تربیت خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی ہو، جن کے بارے میں صحیح احادیث مبارکہ موجود ہوں کہ وہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں، ان کو چھوڑ کر ایک ایسے شخص کو ترجیح دینا جس کے نیک ہونے پر کسی صحابی کا ایک بھی معتبر قول نہ مل سکے — یہ صرف گمراہ کن لوگوں کا شیوہ ہے، قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے کبھی ایسا نہیں کر سکتے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے: جن نبی کے شہزادوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہر ہو کہ وہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں، ان کا تقابل ایک پلید، بدکار، شرابی شخص سے کر کے اگر کوئی یہ سمجھے کہ صرف نماز، روزہ اور حج کر لینے سے وہ نیک شمار ہو جائے گا — تو آپ خود سوچ لیں، آپ کے نزدیک ایسے شخص کی حقیقت کیا ہونی چاہیے؟ |