باہمی روابط اور رنجشیں: ایک نفسیاتی،سماجی اور ادبی مطالعہ

باہمی روابط اور رنجشیں: ایک نفسیاتی، سماجی و ادبی مطالعہ
----------------------------------------
انسان کی فطرت سماجی ہے۔ وہ تنہائی کو مستقل طور پر برداشت نہیں کر سکتا، اس لیے اس کی زندگی کے بنیادی ڈھانچے میں باہمی روابط مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ روابط فرد کو تحفظ، اعتماد، محبت ، بقا اور سلامتی فراہم کرتے ہیں۔ مگر انہی روابط کے اندر کشمکش، تضاد، نفرت اور رنجشیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ یہ انسانی تعلقات کا وہ پہلو ہے جس پر غور کیے بغیر نہ تو فرد کی نفسیات کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے کی ساخت کو۔
باہمی روابط کے حوالے سے یہ تو ظاہر ہے کہ بچپن سے بڑھاپے تک انسان کی شخصیت باہمی روابط کی پرچھائی میں ڈھلتی رہتی ہے۔ خاندان کے اندر محبت، اعتماد اور قربانی فرد کو راحت میسر کرتی ہے۔ مگر یہی خاندان کبھی وراثتی تنازعات، ترجیحات کے اختلاف یا معمولی بدگمانی کی وجہ سے رنجش کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ یہی کیفیت دوستیوں ، سماجی تعلقات اور مختلف اداروں میں بھی نظر آتی ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق انسان کا ذہن باہمی روابط میں سکون تلاش کرتا ہے، لیکن جب یہی تعلق بے اعتمادی اور مخالفت میں بدل جائے تو ذہن اضطراب اور کشیدگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ رنجشوں کی بنیاد مختلف سطحوں پر موجود رہی ہے۔ سب سے پہلی وجہ غلط فہمی ہے۔ الفاظ کے پس منظر و پیش منظر اور رویوں کی تاویل جب مختلف زاویوں سے کی جاتی ہے تو دل میں فاصلے بڑھنے لگتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ سماج میں جب وسائل محدود ہوں اور لوگ اپنی ضروریات کو دوسروں پر مقدم رکھنے لگیں تو تعلقات کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر انانیت اور خود پسندی رنجش کی ایک اور جڑ ہے۔ فرد اپنی انا کے خول میں مقید رہ کر دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ یہی رویہ روابط کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اگر نفسیاتی حوالے سے دیکھا جائے تو رنجش محض وقتی غصہ یا ناخوشی نہیں بلکہ ایک نفسیاتی عمل (Psychological Process) ہے جو فرد کے اندرونی محرکات اور لاشعوری دباؤ سے جڑا ہوتا ہے۔ فرائڈ کے نزدیک انسانی شخصیت تین حصوں پر مشتمل ہے: Id، Ego اور Superego۔ "Id" خواہشات اور جبلتوں کی نمائندگی کرتا ہے، "Superego" سماجی و اخلاقی اقدار کا مظہر ہے، جبکہ "Ego" ان دونوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب فرد کی خواہشات دبائی جائیں یا انہیں اظہار کا موقع نہ ملے تو وہ لاشعور میں جمع ہو کر "رنجش" کی صورت تعلقات میں ظاہر ہوتی ہے۔
ایڈلر نے اس مسئلے کو ایک مختلف زاویے سے دیکھا ہے۔ اس کے مطابق ہر انسان کے اندر برتری (Superiority) حاصل کرنے کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ اگر یہ خواہش مثبت مسابقت میں ڈھل جائے تو یہ ترقی اور کامیابی کا باعث بنتی ہے، لیکن اگر یہ انا پرستی یا حسد کی شکل اختیار کر لے تو تعلقات کو زہر آلود کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں ، جیسے کسی کی تعریف نہ کرنا، توجہ نہ دینا، یا دوسروں کے سامنے اپنی برتری جتانا بڑی رنجشوں اور قطع تعلق تک جا پہنچتی ہیں۔ یہ دراصل ایڈلر کے نظریے کی عملی توجیہ ہے کہ انا پرستی تعلقات کی اصل دشمن ہے۔
ماہرینِ نفسیات نے یہ بھی کہا ہے کہ رنجش کا تعلق اکثر Self-esteem (خود اعتمادی) کے ساتھ ہوتا ہے۔ جن افراد میں خود اعتمادی کی کمی ہو، وہ دوسروں کے معمولی رویوں کو بھی اپنی اہانت سمجھ لیتے ہیں۔ یوں ایک نظرانداز کی گئی بات ان کے لیے ذاتی شکست کا استعارہ بن جاتی ہے اور تعلقات میں کشیدگی کو جنم دیتی ہے۔ تحقیقی اور تجزیاتی سطح پر دیکھا جائے تو رنجش کو ایک طرح کا Defensive Mechanism بھی کہا جا سکتا ہے۔ فرد اپنی محرومی یا کمزوری کو براہِ راست تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں پر الزام تراشی یا رنجش کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ یوں یہ عمل ایک طرح کی نفسیاتی ڈھال (shield) بن جاتا ہے، لیکن یہ ڈھال تعلقات کو توڑ دیتی ہے۔
اردو ادب میں رنجش ایک ایسا موضوع ہے جو ہر دور میں مختلف جہتوں اور رنگوں کے ساتھ دانشوروں کا موضوع بحث رہا ہے ۔ کلاسیکی شاعری میں میر نے محبوب کی بے وفائی اور بے اعتنائی کو رنجش کے شکوے میں ڈھالا، جبکہ غالب نے اسے غموں ،الجھنوں ،دشواریوں، طنز اور فلسفیانہ انداز میں پیش کیا۔ حالی کے ہاں رنجش ذاتی نہیں بلکہ قومی زوال اور سماجی اصلاح سے جڑی ہوئی ہے۔ اقبال نے رنجش کو غلامی، جمود اور خودی سے محرومی پر احتجاج کی صورت دی اور اسے ایک فکری و تعمیری قوت تشکیل دینے پر زور دیا ہے۔ ترقی پسند تحریک نے رنجش کو طبقاتی کشمکش اور معاشرتی ناانصافی کے خلاف آواز بنایا، خصوصاً فیض نے محبوب سے شکوہ کو ظالم نظام کے خلاف احتجاج کا استعارہ بنایا ہے۔ جدید شعرا جیسے ناصر کاظمی، جون ایلیا، احمد ندیم قاسمی، پروین شاکر، احمد فراز ، نوشی گیلانی اور فرحت عباس شاہ نے رنجش کو داخلی کرب، سماجی ناہمواری، وجودی اضطراب اور نسائی حساسیت کے ساتھ جوڑنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ نثر کے میدان میں بھی رنجش ایک نمایاں موضوع رہا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے شہرہ آفاق ناول آگ کا دریا میں تہذیبی اور تاریخی پس منظر میں تعلقات کی کشمکش اور رنجشوں کو پیش کیا۔ بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں انا، نفسیاتی کشمکش اور حرام و حلال کے تصورات کے ساتھ جڑی رنجش کو فلسفیانہ رنگ دیا۔ اشفاق احمد کے ڈراموں اور افسانوں میں تعلقات میں چھپی کیفیات نمایاں نظر آتی ہیں۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کھول دو میں رنجش کو ذاتی و سماجی سانحات اور تقسیم ہند کے المیے کے ساتھ جوڑنے کی سعی کی ہے۔ انتظار حسین نے افسانوی مجموعوں جیسے گلی کوچے اور ناول بستی میں رنجش کو تہذیبی یادداشت، کرداروں کے درمیان روابط اور اجتماعی محرومی کے استعارے کے طور پر برتنے کی کوشش کی ہے۔
ڈراما نگاری میں بھی رنجش کا موضوع گہرائی سے برتا گیا ہے۔ امجد اسلام امجد کے ڈرامائی ادب میں جاگیردارانہ نظام میں رنجشیں اور طاقت کی کشمکش دکھائی دیتی ہیں۔ عصمت چغتائی کی تخلیقات میں نسائی حساسیت اور رنجشوں کے نفسیاتی پہلو اجاگر ہوئے ہیں۔عصر حاضر میں خلیل الرحمن قمر کے ڈراموں" میرے پاس تم ہو" اور "لنڈا بازار " میں رنجش کو محبت، بے وفائی اور معاشرتی اقدار کے پس منظر میں دکھایا گیا، جبکہ اشفاق احمد کے ڈراما من چلے کا سودا میں روحانی جستجو اور دنیاوی رنجشوں کی کشمکش کو پیش کیا گیاہےـ رنجشوں کے اثرات فرد اور معاشرہ دونوں کے لیے تباہ کن ہیں۔ فرد کی سطح پر یہ تنہائی، عدم اعتماد اور ذہنی دباؤ کو بڑھاتی ہے۔ وہ اپنی توانائی مثبت انداز میں استعمال کرنے کی بجائے شکایت، حسد اور کینہ پر صرف کرتا ہے۔ نفسیات میں یہ کیفیت "فرسٹریشن" کہلاتی ہے جو بعد ازاں جارحیت میں بھی بدل سکتی ہے۔ معاشرتی سطح پر رنجشیں گروہوں اور طبقات کو ایک دوسرے سے دور کر دیتی ہیں۔ جب چھوٹے اختلافات بڑے تنازعات کی شکل اختیار کرتے ہیں تو معاشرہ انتہا پسندی اور عدم برداشت کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جو قوموں کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اس سیاق و تناظر میں حل کی صورت تلاش کرنا بھی تحقیقی سطح پر اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس کے اسباب کو سمجھناہے ۔ سب سے اہم پہلو مکالمہ ہے۔ انسان جب اپنے دل کی بات کھلے انداز میں بیان کرتا ہے تو رنجش کا زہر کم ہو جاتا ہے۔ نفسیاتی معالجین بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جذبات کو دبا کر رکھنے کی بجائے کھلے انداز میں ظاہر کرنا ضروری ہے۔ دوسرا پہلو برداشت اور ایثار ہے۔ قربانی کے بغیر کوئی تعلق دیرپا نہیں رہ سکتا۔ اگر فرد اپنی انا کو پیچھے ہٹا کر دوسرے کے لیے جگہ بنائے تو رنجشیں ختم ہو سکتیں ہیں۔ سماجی انصاف بھی اس ضمن میں نہایت اہم ہے۔ جب وسائل منصفانہ طور پر تقسیم ہوں تو مفادات کا ٹکراؤ کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تعلیم اور شعور کی فراہمی سے بھی تعلقات میں اعتماد و اعتدال پیدا ہوتا ہے۔ ایک باشعور فرد اختلاف کو تعمیری طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اگر مستقبل کے امکانات پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ باہمی روابط اور
رنجشیں کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتیں، کیونکہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ لیکن ان کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے اور انہیں تعمیری قوت یا مثبت سوچ میں بدلا جا سکتا ہے۔ ادب، نفسیات اور سماجی علوم اس بات پر متفق ہیں کہ انسان اگر اپنی انا اور خود غرضی کو محدود کرے، مکالمے کو فروغ دے اور انصاف پر مبنی مسلم معاشرت قائم کرے تو رنجشیں تعلقات کے حسن کو بگاڑنے کی بجائے انہیں مزید مضبوط کر سکتی ہیں۔ یہی رویہ فرد کو راحت اور معاشرے کو ہم آہنگی عطا کرتا ہے۔
باہمی روابط اور رنجشیں انسانی زندگی کی جڑواں حقیقتیں ہیں۔ روابط کے بغیر زندگی کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں اور رنجشوں کے بغیر تعلقات کا تسلسل غیر حقیقی ہے۔ اصل دانش یہ ہے کہ رنجش کو مستقل دیوار نہ بنایا جائے بلکہ اسے سمجھ بوجھ، تحقیق، مکالمے اور برداشت کے ذریعے ختم کیا جائے۔ یہی رویہ ایک متوازن معاشرے کی بنیاد بن سکتا ہے جہاں محبت، تعاون اور انصاف غالب ہوں۔

 

Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 11 Articles with 3775 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.