اچی عمارتیں کراچی دی
بحیرہ عرب کے ساحلوں سے لیکر بحریہ ٹاؤن کے ریگ زاروں تک۔
جس طرح لاہور اپنےاچے برجوں کے وجہ سے مشہور ہے اسی طرح کراچی اپنی اونچی عمارتوں کیلئے بھی مشہور ہے، لیکن یہاں موازنہ دونوں شہروں کا نہیں ہے۔ لاہور کی ثقافت اور شان ہمیں قدیم مغل دور کی یاد دلاتے ہیں تو کراچی انگریز دور کی۔ ماضی کا کراچی اب صرف بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح) روڈ اور اس کے اطراف تک محدود ہے بلکہ گم شدہ بھی ہو رہا ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے ذاتی طور پر کراچی کی پرانی جگہوں سے ایک خاص قسم کا لگاؤ ہے، کیونکہ جب میں ان پرانی عمارتوں یا سڑکوں کے درمیان سے گزرتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ شاید میں اس دور میں آگیا ہوں جب انگریز بابو اس مچھیروں کی بستی کے حکمراں تھے اور اس کو ترقی یافتہ شہر میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف عمل تھے۔ آج کا کراچی بہت تبدیل ہو گیا ہے، معاشرتی انقلاب سے لیکر ثقافتی انقلاب کی جو تبدیلی اس شہر نے دیکھی ہے وہ شائد پاکستان کے کسی اور شہر نے نہیں دیکھی ہوگی اور اسی لئے اس روشنی کے شہر کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے جو کسی اور دوسرے شہر کا اعزاز نہیں ہے۔ بات کراچی کی عمارتوں کی ہو رہی ہے تو عمارتوں کے اس جنگل میں دو ایسی عمارتیں بھی ہیں جو ماضی میں کراچی کی شان اور پہچان بھی تھیں ان میں ایک لکشمی بلڈنگ (بندر روڈ) اور دوسری حبیب بنک پلازہ (آئ آئ چندریگر روڈ) پر ہیں۔ آج جس طرح کراچی عمارتوں کا جنگل محسوس ہو رہا ہےاس کا اندازہ فضائی سفر کے دوران قومی ایئرلائن میں بیٹھ کر آسانی سے ہوتا ہے جب ہم ہچکولے کھاتے جہاز میں بیٹھ کر کراچی کی سڑکوں پر بھی ہچکولے محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ عمارتوں کے جنگل میں رہنا کتنا آسان یا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ صرف محسوس کیا جاسکتا ہے اور احساس ہی وہ چیز ہے کہ جس کو بیان کرنے کیلئے قلم یا آواز کی ضرورت پڑتی ہےاور اس طرح کی آوازیں ہم ان رہائشی عمارتوں کے درمیان سنتے رہتے ہیں۔ کچھ محبتیں بھی ان عمارتوں کے جھروکوں سے شروع ہو کر اپنے اختتام کو پہنچتیی ہیں جب کسی فلیٹ سے خوشیوں کے شادیانوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہمارے ایک عزیز جو بیرون ملک میں رہائش پزیر ہیں ان کو فلیٹوں کی زندگی کی دو آوازیں بہت یاد آتی ہیں، ایک سبزی فروش کی اور دوسری ٹین ڈبے والوں کی۔ انہی رہائشی عمارتوں کے درمیان زندگی اپنی بھرپور توانائی کے ساتھ جاگتی نظر آتی ہے۔ کراچی کی علیاشان عمارتوں نے اس شہر کے رہنے والوں کے درمیان ایک خوبصورت معاشرتی اور ثقافتی رشتہ پیدا کر دیا ہے جہاں دوسرے شہر سے آکر بسنے والے لوگ بھی اس شہر کی معاشرتی اور ثقافتی ورثہ کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس غریب پرور شہر کا ایک المیہ اس کی زبوں حالی بھی ہے جو اس خوبصورت شہر کو جنگل میں تبدیل کر رہا ہے۔ رفتہ رفتہ انسان کی ہوس اور ترقی نے سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ شہر جو کبھی زندگی کی علامت تھا آج ایک جنگل بن گیا ہے۔ مگر یہ قدرت کا جنگل نہیں بلکہ کانکریٹ کا جنگل ہے۔اس میں عمارتیں درختوں کی طرح کھڑی ہیں، مگر سایہ نہیں دیتی۔ ہم نے سہولتوں کا سامان تو جمع کر کیا ہے مگر سکون کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ دلوں کی بستی ویران ہو گئی ہے، فطرت کی خوشبو مٹی میں کہیں دفن ہو گئ ہے اور اب یہ سوال ہر حساس دل کو کچکولےلگاتا ہے کہ یہ ترقی ہے یا تباہی؟ کیا یہ بستی ہے یا کانکریٹ کا ایک جنگل؟ پرندے کوچ کر گئے، درخت کٹ گئے اور پانی پتھریلی نالیوں میں قید ہوکر اپنی روانی کھو بیٹھا ہے اور یہی پانی زمین کے اندر جذب ہو کر اپنا راستہ بناتے ہوئے کانکریٹ کے اس جنگل کو کمزور کر رہا ہے۔ ابھی تک ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ کراچی کی ابادی کو دیکھ کر عمارتیں بنائی جا رہی ہیں یا عمارتوں کو دیکھ کر ابادی بڑھائی جا رہے ہے۔ ایک گذارش ہے کہ اپنے فلیٹ کے ٹیرس اور زینوں میں کم از کم پودے کا ایک گملہ ضرور رکھیں اور اپنے اطراف میں قدرت کی اس نشانی کو محسوس کریں۔
فیاض حفیظ - 25 ستمبر 2025 |