سفر حج چیپٹر ١٩

دوسری رمی

آج شیطان کو دوسری دفعہ مارنے کا موقع مل رہا تھا۔آخر کو کیوں نہ خوش ہوا جائے
مجسم حالت میں شیطان کو دیکھ کر انسان آگ بگولہ بھی ذیادہ ہو جاتا ہے۔

آج کا دن خاصا مصروف تھا کیونکہ پہلے صبح منٰی سے اپنے ہوٹل گئےتھے۔ پھر ہوٹل سے حرم گئے تھے۔
پھر طواف زیارت کے بعد واپس رمی کے لئے نکل کھڑے تھے۔
راستہ خاصا خاصا طویل تھا۔ آنے کا بھی اور جانے کا بھی۔



اب جی لوگوں کا جم غفیر چلا جارہا تھا آپ بھی اسکا حصہ بننے جاتے جارہے تھے۔
کبھی دائیں بائیں سے گزرتے لوگ آپ کو اپنے گھر والوں کو لائیو کوریج دے
کر اپنے آس پاس کا ماحول دکھاتے نظر آئیں گے۔
سکاوٹس یا مقامی لوگ پانی کی بوتلیں بانٹتے نظر آئیں گے۔

کبھی کبھی کسی کا چھوٹا سا عمل بھی دل خوش کر دیتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک صاحب
سٹال لگا کر ٹینگ مفت بانٹ رہے تھے۔ خواتین کو ترجیحی بنیادوں
پر دے رہے تھے۔
وہ لیمنڈ اتنا میٹھا اور ٹھنڈا تھا کہ مزا آگیا تھا کہ ان حالات میں حوصلہ بڑھ گیا تھا۔
پھر چلنا کافی آسان لگنے لگ گیا تھا۔ آگے تین چار دفعہ کھجوریں بھی ملی تھیں۔ جو کہ
ہر دفعہ مختلف اقسام کی تھیں۔ ڈرائی فروٹس بھی کہیں کہیں ملتے تھے۔
ٹافیز اور کینڈیز بھی ملی تھیں۔

سر پر ہیلی کاپٹرز کے چلنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ سڑک پر سکاوٹس کی یلا کی آوازیں تھیں۔
دائیں بائیں سے گزرتے لوگوں کی آوازیں تھیں جو کہ تلبیہ چھوٹی چھوٹی دعائیں پڑھ رہے تھے۔

کچھ اونچی آواز میں پڑھ رہے تھے۔ کچھ لوگ دھیمی آواز میں پڑھ رہے تھے۔
کچھ لوگ گروپس بنا کر چل رہے تھے اور لیڈر انکودعائیں پڑھا رہا تھا۔
کچھ بیرئیرز کے اس پار کھڑے شرطوں کی منت کر رہے تھے کہ یہ شارٹ کٹ مارنے
دو مگر شرطوں کا یہی کہنا تھا کہ مختص اور لمبےراستے سے آٰیا جائے۔

سب کچھ تھکاوٹ کے باوجود اچھا لگ رہا تھا۔
پھر کنکریاں مارنے کے پوائنٹ تک پہنچ ہی گئے تھے۔ کنکریاں نکال باری باری تینوں شیطانوں
کو ماریں۔ اس جگہ پر کولرز اور پنکھے لگے ہوئے تھے۔ جنکا شور بہت بہت ذیادہ تھا۔

پھر جب آپ مارنے سے پہلے ساری کنکریاں ہاتھ میں تھامنے کے لئے اپنی تھیلی یا جیب سے
نکالنے کے لئےایک طرف کھڑا ہونا چاہتے ہو تو پولیس والا آپکو بھگانا چاہ رہا تھا۔
آپ کو محسوس ہوتا کہ رش کے مقام پر تو آپ کنکریوں کے ساتھ خود بھی گر سکتے تھے۔
مگر پولیس فورس کو یہ بات کون سمجھا سکتا تھا۔

خیر ایک کونے پر پہنچ کر باری باری کنکریاں نکالیں۔ پھر شیطان کو ماریں۔ سائیڈ پر پھر کھڑے ہو
کر دعا مانگی اور جی چل دئے۔
آج ہم نے چودہ سے پندرہ گھنٹے سڑکوں پرآتے جاتے اور جاتے آتے گزارے۔

شام ڈھل چکی تھی۔ آہستہ آہستہ اندھیرا ہونے لگا تھا۔ اب ہم منیٰ کے خیموں کے جھنڈ کے بیچ سے گزر
رہے تھے۔ دائیں بائیں مظبوط خیمے ہی خیمے تھے۔ایک ملک کے لئے جو مختص
خیمے تھے انکو اکٹھا کر کے حد بندی کے لئے باہر گیٹ لگا دیا گیا تھا۔
جس پر مقامی سکاوٹ پہلے دن سے کھڑا تھا۔
آپ پر کڑی نظر رکھنے کے واسطے کہ آپ کہاں آ جارہے ہیں۔

اب خیموں کے باہر پیلے رنگ کی جگنو بتیاں لگی ہوئی تھیں۔سڑک صاف ستھری تھی۔
آسمان کا موسم بھی بالکل صاف تھا۔ فضا میں حبس اور گرمی کم ہوگئی تھی۔
آگے پیچھے لوگ ہی لوگ تھے۔
ایک صاحب نے سات کلو والے سوٹ کیس جتنا بڑا سپیکر
پہیوں والی ریڑھی پر لاد کر سڑک پر گھسیٹ رہے تھے۔
اس سپیکر سے دل پر اثر کرنے والی آواز میں جو کہ کانوں کو بہت بھلی محسوس ہو رہی تھی
اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد

اس آواز نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ ہر شخص ہی جیسے اس آواز کی دلپذیری میں کھویا ہوا تھا۔
نہ کوئی دھکم پیل نہ کہیں پہنچنے کی جلدی تھی۔سبھی آگے پیچھے چلتے جا رہے تھے۔
اطراف میں اپنے خیموں کے گیٹ سے باہر کھڑے لوگ
چیزیں بانٹتے نظر آرہے تھے۔
چاول اور چکن کا کمبینیشن تھا۔ انار کا جوس تھا۔ میٹھے میں چوروس تھے۔
میں نے اپنی ہم جولی کے ساتھ یہ سب کچھ جمع کیا اور ہم پہنچے اپنے خیمے کی سیٹ
پر اور کھانا کھانے کی کوشش کی مگر تھکاوٹ کی وجہ سے کھانا بہت مشکل لگ رہا تھا۔

اگرچہ گھر سے دور رہنا مشکل لگتا ہے مگر ایک خیال کہ آج منیٰ میں آخری رات ہے
دل اداس ہے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 251 Articles with 331702 views A writer who likes to share routine life experiences and observations which may be interesting for few and boring for some but sprinkled with humor .. View More