سی پیک فیز ٹواور امریکہ کی قربتیں
(Haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
حسیب اعجاز عاشرؔ چین سے رشتہ ایک ایسے وقت میں پروان چڑھا جب پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک سچے دوست کی ضرورت تھی۔ چین اور پاکستان کے تعلقات کی بنیاد باہمی اعتماد، قربانی اور مشترکہ مفادات پر رکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو یہ تعلق کھٹک رہتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک پر مشکل وقت آیا، چین ہمیشہ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہا۔ چاہے وہ دفاعی میدان ہو، ٹیکنالوجی کی ترقی کا مرحلہ ہو یا معاشی چیلنجز، بیجنگ نے ہمیشہ اسلام آباد کا ساتھ دیا۔ حالیہ معاشی بحرانوں کے دوران بھی چین پاکستان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہا۔ سی پیک بھی پاک چین دوستی کی ایک روشن مثال ہے ،جب 2015 میں پاک۔چین اقتصادی راہداری (CPEC) کا باقاعدہ آغاز ہوا تو یہ ایک خواب سے کم نہیں تھا۔ 60 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا یہ منصوبہ محض سڑکوں اور ریلوے لائنوں کا جال نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان کے لیے ترقی اور خوشحالی کی ایک نئی صبح تھی۔ گوادر پورٹ سے کاشغر تک یہ راہداری نہ صرف خطے میں معاشی سرگرمیوں کو نئی جان دینے کا ذریعہ بنی بلکہ دشمن قوتوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بھی۔بھارت نے کھل کر سی پیک کی مخالفت کی کیونکہ یہ منصوبہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے، جسے بھارت اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے ابتدا میں اسے "چین کا توسیع پسندانہ منصوبہ" کہا اور اسے "قرضوں کا جال" قرار دے کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ مغربی میڈیا میں مسلسل ایسے بیانیے پھیلائے گئے جن سے یہ تاثر پیدا ہو کہ پاکستان سی پیک کے ذریعے اپنی خودمختاری کھو دے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام پروپیگنڈا پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں تھیں۔ دشمنوں نے سرمایہ کاری کے ذریعے مقامی آبادیوں میں بداعتمادی پیدا کرنے کی سازش کی، بعض علیحدگی پسند گروہوں کو سہارا دیا، اور بلوچستان میں شورش کو ہوا دی۔ اس سب کا مقصد ایک ہی تھا: سی پیک کو ناکام بنایا جائے اور پاک۔چین دوستی کو نقصان پہنچایا جائے۔ دشمن کی سازشیں زمین بوس ہوچکیں اوراب پاک چین دوستی ایک نئے دور کا آغاز کرنے جا رہی ہے ۔گزشتہ دنوں بیجنگ میں سی پیک کی چودویں جے سی سی میٹنگ ہوئی جس میں فیز ٹو کا باضابطہ آغاز کیا گیا۔ یہ وہ مرحلہ ہے جسے پاکستان کی معیشت کا "گیم چینجر" کہا جا سکتا ہے۔ اس نئے مرحلے میں صرف انفراسٹرکچر نہیں بلکہ صنعتی تعاون، خصوصی اقتصادی زونز، زراعت کی جدید کاری، ٹیکنالوجی کی منتقلی، سبز ترقی، اور روزگار کے وسیع مواقع شامل ہیں۔ایم ایل ون ریلوے منصوبہ، قراقرم ہائی وے کی بحالی اور گوادر پورٹ کی مزید توسیع وہ منصوبے ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے درست کہا کہ سی پیک فیز ٹو پاکستان اور چین کو "مشترکہ مستقبل کی حامل برادری" میں بدل دے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی امریکہ جو کل تک سی پیک کو "قرضوں کا جال" کہہ رہا تھا، آج خود پاکستان میں سرمایہ کاروں کو آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ واشنگٹن میں اس وقت یہ سمجھ بیدار ہو رہی ہے کہ پاکستان کو مکمل طور پر چین کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا خود امریکہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ اسی لیے اب امریکی کمپنیاں بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہیں۔امریکہ کے تھنک ٹینکس میں یہ بحث شدت اختیار کر چکی ہے کہ اگر پاکستان مکمل طور پر چین کے دائرے میں آ گیا تو خطے میں امریکہ کا اثر و رسوخ مزید کم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب امریکہ پاکستان کی تعریفیں کر رہا ہے، اپنے سرمایہ کاروں کو یہاں مواقع تلاش کرنے پر آمادہ کر رہا ہے، اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی دکھانے لگا ہے۔یہ منظرنامہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سی پیک نے پاکستان کو ایک اسٹریٹجک پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اب واشنگٹن بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔ پاکستان اور چین کی مزید قربتوں کے اثرات محض معاشی نہیں بلکہ دفاعی اور اسٹریٹجک بھی ہیں۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو پہلے ہی دنیا کے کئی خطوں میں معاشی انقلاب لا رہا ہے۔ پاکستان اس منصوبے کا "فلیگ شپ" ہے۔ اس لیے بیجنگ کبھی بھی چاہے گا کہ اسلام آباد کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ پاک۔چین قربت کا سب سے بڑا اثر بھارت پر پڑ رہا ہے، جو خود کو الگ تھلگ محسوس کر رہا ہے۔ دوسری طرف خلیجی ممالک بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان اور چین کے اتحاد سے خطے میں ایک نیا معاشی بلاک جنم لے رہا ہے۔ اگر سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک اس بلاک کا حصہ بنتے ہیں تو یہ مغربی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔اسی طرح روس بھی اس اتحاد میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ اسے وسطی ایشیا اور بحیرہ عرب تک رسائی کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان، چین، روس اور خلیجی ممالک ایک پلیٹ فارم پر آ گئے تو یہ بلاک مغربی دنیا کے لیے ناقابلِ نظرانداز حقیقت بن جائے گا۔ اب ضرورت اِ س امر کی ہے کہ پاکستان کو اس موقع پر انتہائی دانشمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فیصلے کرنا ہونگے۔ ایک طرف امریکہ سرمایہ کاری کے مواقع دے رہا ہے اور دوسری طرف چین پہلے ہی ایک مضبوط پارٹنر کے طور پر کھڑا ہے۔ پاکستان کو اس وقت "بیلنسنگ ایکٹ" کھیلنا ہوگا تاکہ وہ دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات رکھ سکے لیکن اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔پاکستان کی معیشت کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے میں سی پیک فیز ٹو کے منصوبے امید کی کرن ہیں۔ لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ حکومت بیوروکریٹک رکاوٹوں کو ختم کرے، شفافیت کو یقینی بنائے، اور منصوبوں کو وقت پر مکمل کرے۔اگر سی پیک کے منصوبے وقت پر مکمل ہو گئے تو پاکستان کی معیشت ایک نئے دور میں داخل ہوگی۔ لاکھوں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، برآمدات میں اضافہ ہوگا، اور پاکستان خطے کا ٹرانزٹ حب بن جائے گا۔ راقم الحروف بابنگ دہل اِن الفاظ کو سپرد قرطاس کر رہا ہے کہ سی پیک فیز ٹو کا آغاز صرف ایک معاشی منصوبے کا آغاز نہیں بلکہ ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ یہ دور پاکستان کو ترقی، خوشحالی اور عالمی سیاست میں ایک نئے مقام پر لے جا سکتا ہے۔ دشمنوں کی سازشیں، پروپیگنڈا اور رکاوٹیں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاک-چین دوستی اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں اسے روکنا ناممکن ہے۔ دوسری طرف یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ امریکہ کا بدلتا رویہ اس بات کا اشارہ ہے کہ دنیا پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت کو تسلیم کر رہی ہے۔ اب یہ پاکستان پر ہے کہ وہ اس موقع سے کس طرح فائدہ اٹھاتا ہے۔اگر پاکستان دانشمندی سے آگے بڑھا تو آنے والے برسوں میں یہ خطہ ترقی کا نیا مرکز ہوگا۔ لیکن اگر غفلت برتی گئی تو دشمن قوتیں دوبارہ سی پیک کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریں گی۔فیصلہ پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کے ہاتھ میں ہے۔ کیا ہم سی پیک کو حقیقی معنوں میں گیم چینجر بنائیں گے؟ یا پھر ماضی کی طرح سیاسی اختلافات اور بدانتظامی سے اس موقع کو ضائع کر دیں گے؟فی الوقت یہ سب سے اہم ہے پاکستان میں فیصلہ ساز تمام سیاسی قیادت کے میز پر بیٹھا کر باہمی اختلافات کو دور کرےکیونکہ یہ وقت مل بیٹھنے کا ہے نہ کہ سیاسی و ذاتی مفادات کیلئے ملکی مفاد کے منصوبےپر تنقید کا ۔ |