تیسری رمی
سب سامان سمیٹ جو کہ بہت ہی مختصر ہو گیا تھا۔ اب ہم تیسری اور آخری رمی کی طرف جا رہے تھے۔ دن پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو چکا تھا۔ شیطان کو کنکریوں سے پیٹا اور گھر کی طرف بھی جو عارضی ہی تھا عزیزہ کی طرف روانہ ہو گئے تھے ۔ اب بھی گزرنا کمرشل راستے سے ہی تھا۔ وہی راستے اب سے بس پر ایسپلور ہوں گے۔ ہم ابھی تو وہ پیدل طے کر رہے تھے۔ جو بوتیکس اور چھوٹے بڑے بقالے دور دور سے دیکھتے تھے اب انکو چھاننے کا بھی موقع تھا مگر نہیں اپنے گھر پہنچنے کی جلدی ذیادہ تھی۔ اب خوشی بہت ذیادہ تھی کہ صرف طواف وداع رہ گیا تھا باقی فرض ادا کر چکے تھے۔
ھزا من فضل ربی
جب آپ سڑک پر نکلتے تھے تو لوگ وہیل چئیرز پر نظر آتے تھے۔ بہت سے بوڑھے لوگ بھی تنہا اداس جاتے نظر آتے تھے۔بہت سے لوگ گم ہوتے پریشان اور کسی نہ کسی کی تلاش میں ہوتے تھے۔زبان کا بیرئیر سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لئے اکیلا آںے والا اکثر ہی مشکل میں رہتا ہے۔ خاص طور پر اگر وہ کسی گروپ کے بغیر آئے یا اپنے گروپ سے بچھڑ جائے تب بھی۔ اگر ایسے حالات میں آپ بہت اچھے سے اپنا سفر مکمل کر پاتے ہیں تو آپ کو اللہ کی مہربانی پر یقین آجاتا ہے۔
ھزا من فضل ربی
ایک اور بات بھی اتنا چلنے کے باوجود بھی کوئی پیر کندھے ہاتھ کے درد کا ایشو نہ ہو۔ پانچ دن خیرو عافیت سے گزرے سب کام مکمل انجام پا گئے۔
ھزا من فضل ربی
|