میں بڑا اہم تھا یہ ہی میرا وہم تھا
(محمد یوسف میاں برکاتی, کراچی)
|
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
( میں بڑا اہم تھا یہ ہی میرا وہم تھا )
محمد یوسف میاں برکاتی
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میری آج کی تحریر کو پڑھنے سے پہلے آپ اس تحریر کی تصویر ضرور دیکھ لیجیئے گا یہ ایک قبر کی تصویر ہے جس پر یہ شعر لکھا ہوا دیکھا حقیقت پر مبنی اس شعر کو پڑھ کر میں کافی کچھ سوچتا رہا پھر اس شعر کو اپنی تحریر کا موضوع بناکر آج حاضر ہوا ہوں سوچا کہ کیوں نہ اس سچی حقیقت پر کچھ روشنی ڈال لی جائے میں سمجھتا ہوں کہ ہم لوگ آج جس معاشرے کا حصہ ہیں یہاں لوگوں کی اکثریت اس بیماری میں مبتلا ہے اور ہر کوئی اپنی جگہ اپنے آپ کو بڑا اہم سمجھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں جس جگہ پر ہوں وہ میرے لیئے ہی بنی تھی اور میری جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا اور حقیقت یہ ہی ہے کہ یہ ہر اس شخص کا جو یہ سمجھتا ہے اس کا وہم ہے دنیا کے وجود میں آنے سے لیکر اب تک اور اب آتی قیامت تک اللہ تعالیٰ کی کتنی مخلوق کتنے بندے اس دنیا میں اپنا کردار نبھانے آتے رہے ہیں اور پھر واپس جا چکے ہیں پھر ان کی جگہ کوئی اور آجائے گا اور یہ سلسلہ رہتی قیامت تک جاری و ساری رہے گا وہ کسی نے خوب کہا تھا کہ " یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار ہیں اپنا اپنا رول ادا کررہے ہیں سانس بند کردار ختم پھر ہماری جگہ کوئی اور ہوگا کوئی اور اداکار اپنا کردار ادا کرے گا " ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم اس شعر پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دنیاوی زندگی کوگزارتے ہوئے انسان جو سمجھنے لگتا ہے وہ قبر میں جاکر پچھتاوے کی شکل میں الفاظوں کے ذریعے اسے محسوس ہوتے ہیں کیونکہ دنیا کی اس عارضی زندگی میں ہم نہ حرام دیکھتے ہیں نہ ہلال نہ جائز دیکھتے ہیں اور نہ ہی ناجائز بس سب کچھ حاصل کرنے کی تق و دو میں لگے رہتے ہیں ہم میں سے بعض لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے بعد فلاں معاملہ کیسے حل ہوگا فلاں کام کیسے ہوگا جو میں کرسکتا ہوں وہ کوئی کرہی نہیں سکتا اور اگر حقیقت بتائوں تو میں نے خود یہ بات ایک شخص کے منہ سے اس وقت سنی جب اس کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اسے ہسپتال لے جایا گیا وہ ہوش میں تھا لیکن اسے بہت تکلیف محسوس ہورہی تھی اور وہ کسی کو بار بار یہ ہی کہتا رہا کہ دعا کرو اللہ تعالیٰ مجھے ابھی نہ بلائے ابھی مجھے کچھ کام کرنے ہیں جو باقی رہ گئے ہیں اور میرے علاوہ وہ کام کوئی نہیں کرسکتا لیکن اس شخص کے ہسپتال سے گھر آنے کی بجائے اس کی لاش کو آنا پڑا ابھی یہ تحریر لکھتے ہوئے جب مجھے یہ واقعہ یاد آیا تو بے اختیار اس شعر پر ذہن چلا گیا یعنی وہ شخص بھی یہ ہی سوچ رہا تھا کہ " میں بڑا اہم تھا اور قبر میں جانے کے بعد سوچ رہا ہوگا کہ یہ ہی میرا وہم تھا ". میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ مال و دولت یہ شان و شوکت یہ عزت و شہرت یہ منصب اور یہ دنیاوی عہدے ہمارے ساتھ جائیں گے ؟ کیا یہ ہمارے مرنے کے بعد ہمیں کام کائیں گے ؟ کیا کفن میں کوئی جیب ہوتی ہے ؟ کیا قبر میں کوئی الماری یا لاکر ہوگا ؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے نہ کچھ ساتھ جائے گا اور نہ یہ کچھ کام آئے گا ہاں لیکن ہم نے اس عارضی دنیا میں جو اچھے اور نیک کام کیئے ہوں گے ان کے اثرات ہمارے قبر میں جاتے ہی شروع ہو جائیں گے اور ان نیک اعمال کا اجر وثواب ہمیں قبر سے ہی ملنا شروع ہو جائے گا اسی معاملے کو کچھ اور اچھی طرح سے واضح کرنے کے لیئے یہاں ایک دلچسپ واقعہ تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا دل کی آنکھوں سے پڑھیئے ذہن کو صاف کرکے سمجھنے کی کوشش کریں انشاء اللہ ہمیں ہماری حقیقت کا علم بہت اچھا طرح واضح ہو جائے گا میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک گورکن تھا جو قبریں کھودنے کا کام صرف اس لیئے کرتا تھا کہ وہ نشہ کا عادی تھا جب بھی کوئی قبر کی کھدائی کروانے آتا اسے پیسے دیتا اور وہ پیسہ نشے میں اڑادیتا ایک دن ایک شخص قبرستان میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ گورکن اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہے اسے بڑی حیرانی ہوئی کہ یہ شخص تو کبھی قبر کے پاس نشہ کی حالت میں کبھی نالی یا گٹر کے پاس نظر آیا کرتا تھا آج یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیسے وہ شخص اس گورکن کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا کہ تمہارے اندر یہ تبدیلی کیسی ؟ تو اس نے کہا کہ میں یہاں ایک عرصہ سے قبریں کھودنے کا کام کررہا ہوں لیکن کچھ دنوں پہلے میں نے جو منظر دیکھا اس نے میری زندگی بدل دی شاید اللہ تعالیٰ کو مجھے سیدھے راستے پر لانا تھا اور میری کوئی نیکی اس کو اچھی لگی جو مجھے اس نے اس بری اور گندی زندگی سے نجات عطا کردی تو اس شخص نے پوچھا کہ وہ کیا منظر تھا ؟ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس گورکن نے کہا کہ میں ویسے تو یہاں قبریں کھودنے کا کام ایک عرصہ سے کرتا ہوں لیکن نہ جانے کیوں کچھ دنوں پہلے کئی قبریں کھودنی پڑی مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر تیسرا شخص اس دنیا سے جارہا ہے میں قبریں کھود کھود کر تھک جاتا پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں ایڈوانس میں کچھ قبریں کھود کر رکھ لوں لہذہ میں نے قبر کھودنے کا کام شروع کیا پہلی قبر کھودنے کے بعد دوسری قبر اور پھر تیسری قبر کے کھودنے کے بعد میں تھک گیا اور ان تینوں قبروں کے پاس ہی نڈھال ہوکر سو گیا جب میں گہری نیند میں تھا تو میں ایک خواب دیکھا کہ فرشتوں کا ایک گروہ آسمان سے نیچے اترا ان فرشتوں میں سے ایک ان کا سربراہ تھا اس نے پہلی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو اس قبر میں اللہ تعالیٰ کا ایک نیک بندہ آنے والا ہے لہذہ اس قبر کو وسیع کردو روشن کردو تاکہ مردے کو کوئی تکلیف نہ ہو پھر دو فرشتے اس قبر میں اترے اس کے بعد اس سربراہ نے کہا کہ یہ دوسری قبر جو ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا ایک ولی صفت انسان آنے والا ہے لہذہ اس قبر کو بھی اتنا وسیع کردو کہ وہ جہاں چاہے جا سکے اور جنت کی کھڑکی بھی کھول دو یہ سن کر دو فرشتے اس قبر میں اترے اس کے بعد تیسری قبر کے بارے میں فرمایا کہ اس قبر میں ایک ایسا گناہگار آنے والا ہے جس پر عذاب ہونا ہے لہذہ اس قبر کو اندھیری کوٹھڑی میں بدل دو اور اتنا تنگ کردو کہ اس کی دائیں پسلی بائیں پسلی میں پیوست ہو جائے یہ سن کر میری آنکھ کھل گئی میں پورا پسینے میں بھیگا ہوا تھا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ خواب تھا کہ حقیقت بس پھر میں اس حقیقت کو دیکھنے کے لیئے بیٹھ گیا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ اتنے میں ایک جنازہ آیا جس میں آٹھ سے دس لوگ تھے انہوں نے پہلی قبر میں اسے دفنایا فاتحہ خوانی کی اور جب جانے لگے تو میں نے ایک سے پوچھا کہ کیا یہ مرحوم آپ کا کوئی رشتہ دار تھا تو اس نے کہا نہیں یہ ہمارے محلے کا سب سے غریب انسان تھا اسے کوئی منہ نہیں لگاتا تھا اور نہ اس کی کوئی بات سنتا تھا پھر جب رات کو سارے لوگ سو جاتے تو اس کے گھر سے اللہ تعالیٰ کے ذکر کی آواز سنائی دیتی تھی اور یہ اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھتا اور اس کا ذکر کرتا تھا تو اس گورکن نے کہا کہ مبارک ہو تم جسے یہاں دفن کرکے جارہے ہو وہ جنتی ہے میں نے خود اپنے کانوں سے فرشتوں کو کہتے سنا ہے کہ اس قبر میں اللہ تعالیٰ کا ایک نیک بندہ آنے والا ہے ابھی وہ بات کرہی رہا تھا کہ ایک اور جنازہ آگیا اور اس جنازے کو جن چار لوگوں نے اٹھایا ہوا تھا وہ ہی شامل تھے اور کوئی نہ تھا پھر انہوں نے اس شخص کو دوسری قبر میں دفنایا فاتحہ خوانی کی اور جب جانے لگے تو میں نے ایک سے پوچھا کہ یہ شخص کون تھا تو وہ کہنے لگا کہ یہ سارا سارا دن ہمارے محلے میں بیٹھا رہتا تھا اس کا کوئی نہیں تھا یا اس کو گھر والوں نے نکال دیا تھا محلے میں اسے کوئی پسند نہیں کرتا تھا پھر جب اس کا انتقال ہوا تو ہم نے سب سے پیسے مانگے تاکہ اس کو دفنانے کا انتظام کرسکیں لیکن کسی نے بھی کچھ نہ دیا اور ہم چاروں نے مل کر پیسہ ملایا اور اسے یہاں لے آئے تو میں نے انہیں بھی خوش خبری سنائی کہ یہ شخص کوئی عام انسان نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ولی تھا اور جنتی تھا میں نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے کہ فرشتوں نے اس کو جنتی کہا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں گورکن کہنے لگا کہ اتنے میں میں نے تیسرا جنازہ بھی آتے ہوئے دیکھا جس لوگوں کا ایک جم غفیر تھا مجھ سے خالی قبر کا پوچھا تو میں نے تیسری قبر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ خالی ہے تو انہوں نے مجھے پیسے دیکر دور ہٹ جانے کو کہا جب سارے لوگ اس کو دفنا کر جانے لگے تو میں نے پوچھا کہ یہ کون تھا تو اس نے بتایا کہ یہ ایک عورت تھی جو بہت مالدار تھی روپیہ پیسہ اس کے لیئے کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن ظالم بہت تھی یعنی گناہگار تھی تو میں نے اس شخص سے کہا کہ یہاں سے چلے جائو کیونکہ اس قبر پر عذاب نازل ہونے والا ہے اور یہ حقیقیت میں نے خود فرشتوں کے منہ سے سنی ہے یہ ساری تفصیل بتاکر گورکن رونے لگا اور کہنے لگا کہ انسان کی اتنی بڑی حقیقیت جو مجھے میرے رب تعالیٰ نے خواب میں دیکھا کر سمجھانے کی کوشش کی تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی اور میں نے اپنے ہر برے عمل سے توبہ کرلی اور اب نوبت یہ ہے کہ آنکھ سے آنسو رکتے ہی نہیں ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہے ہماری اس دنیاوی اور عارضی زندگی کی حقیقت اور آخرت کا انجام اور انعام یعنی اچھے اعمال اچھی جزا برے اعمال بری سزا اس دنیاوی زندگی میں اپنی آپ کو اہمیت دینا اور اس حد تک دینا کہ ہمیں یہ محسوس ہونے لگے کہ ہم بڑے اہم ہیں دنیا کے لیئے ہم بڑے اہم ہیں گھر والوں کے لیئے ہم بڑے اہم ہیں رشتہ داروں کے لیئے ہم بڑے اہم ہیں اپنے دوستوں کے لیئے لیکن یہ اہمیت صرف آخری سانس تک کے لیئے ہے اور جب آنکھ بند ہوگئی سانس رک گیا تو پھر کچھ دنوں کا غم ہوگا کچھ دنوں کا سوگ ہوگا اس کے بعد ہم صرف ایک بھولی بسری یاد بن کر رہ جائیں گے ہمارے اہم ہونے کی حقیقت ہم پر مرنے کے بعد واضح ہو جائے گی کہ یہ ہمارا وہم تھا ایک بات ہمیشہ یاد رکھیئے غریب ہونا کوئی عیب نہیں ہے بلکہ ایک حدیث کے مطابق جنت میں سب سے زیادہ غریب لوگوں کی تعداد ہوگی بس دنیاوی عارضی زندگی کو اس طرح گزاریں جیسے ہم اسکول کالج یا یونیورسٹی کی کسی کلاس میں جو سال بھر پڑھایا جاتا ہے اسے ذہن نشین کرکے کمرہ امتحان میں جاتے ہیں گویا کہ سال بھر کا وقت مختصر ہوتا ہے لیکن اسی کا حساب ہمیں امتحانی پرچہ میں دینا ہے اب جس نے اچھا لکھا ہوگا وہ پاس ہوکر آگے بڑھے گا جو نہ لکھ سکا وہ فیل ہو جائے گا بالکل اسی طرح یہ دنیا بھی ہمارے لیئے دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزاء ہے اس عارضی دنیا میں ہمیں جو عمر عطا کی گئی وہ ہمارے اچھے برے اعمال کے لیئے ہے جبکہ اس کا نتیجہ ہمیں آخرت میں جزا یا سزا کی صورت میں ملے گا اور اہمیت صرف اسی کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریم ﷺ کے فرمودات پر عمل کرتا ہوا زندگی گزارتا رہا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قبر پر لکھے ہوئے اس شعر کی حقیقت کے بارے میں تو یقیناً ہمیں علم ہوگیا اور یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ واقعی اس دنیا میں اپنی جگہ رہ کر ہم اپنے آپ کو بڑا اہم سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ہی ہمارا وہم ہوتا ہے بس دنیا اور دنیاوی رشتوں میں اپنی اہمیت اتنی ہی رکھیں جتنی رکھنے کا حکم ہے جبکہ اصل اہمیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہونی چاہیئے اللہ تعالیٰ کے رسول حضور ﷺ کے نزدیک ہونی چاہیئے اور وہ اہمیت اصل اہمیت ہے اس میں وہم کا کوئی دخل نہیں اور یہ اہمیت اچھے اور نیک اعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے نیک اعمال کیجیئے اور اصل اہمیت حاصل کیجیئے انشاء اللہ ۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اہم ہونے کی خوش فہمی سے دور رکھے اور اپنے نزدیک اہم بناکر رکھے مجھے ہمیشہ سچ لکھنے ہمیں پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ مجھے دعاؤں میں یاد رکھیئے گا ۔ |
|