گلوبل صمود فلوٹیلا فلسطینی عوام کے ساتھ دلی وابستگی کا مظہر

یہ مضمون فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور اسرائیلی ظلم کے خلاف جرات و ایثار کی علامت
گلوبل صمود فلوٹیلا
اور سینیٹر مشتاق احمد کے ذاتی
فیصلے پر مبنی جدوجہد کا عکاس ہے، جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر ایک فرد ضمیر کی پکار پر کھڑا ہوسکتا ہے تو پوری ریاست کیوں خاموش ہے

جراعت ، بہادری اور ایثار کی مثال
گلوبل صمود فلوٹیلا فلسطینی عوام کے ساتھ دلی وابستگی کا مظہر
"جب حکمران خاموش ہیں، ایک فرد کا ضمیر پوری امت کی آواز بن گیا"
محمد جعفر خونپوریہ
03232920497
[email protected]

اسلام آباد کے سیاسی افق پر اکثر ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں بڑے بڑے نام عوام کے دکھوں اور عالمی سانحات پر اپنی آواز بلند کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں ایک نمایاں نام سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ ان کی سیاست کا تعلق جماعتِ اسلامی سے رہا ہے، مگر ان کی حالیہ سرگرمیوں کو انہوں نے واضح طور پر ذاتی فیصلہ قرار دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پہلو انہیں دوسرے روایتی سیاسی رہنماؤں سے منفرد بناتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ جدوجہد کسی جماعت یا حکومتی پالیسی کی بجائے، ان کے اپنے ضمیر اور احساسِ درد کی پکار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مئی 2025 کو اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے فلسطینی عوام کے حق میں ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس احتجاج میں سینیٹر مشتاق احمد اپنی اہلیہ اور اہلِ خانہ سمیت شریک ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مظاہرین کا مؤقف تھا کہ وہ غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں، جب کہ پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ ہے اور بڑے اجتماعات کی اجازت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نتیجتاً مشتاق احمد، ان کی اہلیہ حمیرا طیبہ، بیٹی اور متعدد دیگر افراد کو گرفتار کر لیا گیا
یہ گرفتاری وقتی طور پر احتجاجی آواز کو دبانے کی کوشش تھی، مگر اسی عمل نے مشتاق احمد کے مؤقف کو مزید نمایاں کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد ازاں عدالتوں میں مقدمات قائم کیے گئے، اور کچھ رپورٹس کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان مقدمات میں متعدد ملزمان کو بری بھی کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشتاق احمد کی اہلیہ نے اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر ایک تعزیتی کیمپ بھی قائم کیا تھا تاکہ فلسطینی شہداء اور غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی ظاہر کی جا سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاہم یہ کیمپ زیادہ دیر نہ چل سکا، کیونکہ انتظامیہ نے وہاں بھی مداخلت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض رپورٹوں کے مطابق پولیس نے خیمے اکھاڑے اور مظاہرین کو ہٹایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس واقعے کے حوالے سے تفصیلات متضاد ہیں ، کچھ ذرائع میں کہا گیا کہ کیمپ مکمل طور پر ختم کر دیا گیا، جب کہ بعض رپورٹیں صرف مظاہرین کو منتشر کرنے کی بات کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اس پہلو پر بات کرتے ہوئے محتاط رہنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مستند صحافتی ذرائع یہی کہتے ہیں کہ کیمپ کے قیام کو انتظامیہ نے برداشت نہیں کیا اور اسے ختم کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کس حد تک "اکھاڑا" گیا، یہ مکمل وضاحت کے ساتھ کہیں درج نہیں ملتا
یہاں ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مشتاق احمد یہ سب کچھ جماعتِ اسلامی کے نمائندے کے طور پر کر رہے تھے یا یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا
اس سوال کا جواب انہوں نے خود دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ گلوبل صمود فلوٹیلا کے منتظمین نے اعلان کیا اور مشتاق احمد نے بھی اس کی تصدیق کی کہ وہ اس مشن میں ذاتی حیثیت میں شریک ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا یہ قدم کسی سرکاری ہدایت یا جماعتی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں بلکہ ان کی اپنی انسانیت پسندانہ سوچ اور فلسطینی عوام کے ساتھ دلی وابستگی کا مظہر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مشتاق احمد نے 2022 میں جماعت اسلامی کے ایک عہدے سے استعفیٰ ضرور دیا تھا، مگر بعد میں انہوں نے جماعت سے علیحدگی کی خبروں کی تردید کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے اپنے بیانات میں یہ موقف سامنے آیا کہ وہ کسی تنظیمی ذمہ داری پر نہیں ہیں لیکن ان کا سیاسی پلیٹ فارم اب بھی جماعتِ اسلامی ہی ہے
ان تمام واقعات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مشتاق احمد کا احتجاج اور سفر صرف سیاسی بیانیہ نہیں بلکہ ایک انفرادی جدوجہد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے آپ کو کسی جماعت کے نمائندے کی بجائے ایک انسان کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو فلسطین کے مظلوموں کے لیے اپنی آواز بلند کر رہا ہے
اسلام آباد میں کیمپ کا اکھڑنا ہو یا پولیس کی گرفتاری، انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات ہوں یا عدالتوں کی بریت ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب ایک بڑے سوال کو جنم دیتے ہیں
کیا پاکستان میں فلسطین کے حق میں کھڑا ہونا جرم ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اور کیا ایک فرد کی آواز اتنی ناپسندیدہ ہو سکتی ہے کہ اسے خاموش کرنے کے لیے عدالتوں اور گرفتاریوں کا سہارا لینا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے نقشے پر غزہ ایک چھوٹی سی پٹی ہے، مگر اس چھوٹی سی زمین پر ہونے والے مظالم نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظالم نے محاصرہ کر رکھا ہے، کھانے پینے کی اشیاء تک بند ہیں، دوائیں دستیاب نہیں، اور بچے پیاس و بھوک سے مر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسانی ضمیر کو جاگ جانا چاہیے تھا، مگر عالمی طاقتیں خاموش ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی پس منظر میں ایک تحریک پیدا ہوئی جسے دنیا فریڈم فلوٹیلا
اور بعد میں اسے گلوبل صمود فلوٹیلا کے نام سے جاننے لگی
کہا گیا یہ محض بحری جہازوں کا ایک قافلہ نہیں، بلکہ ایک علامت ہے ، ایک ایسی جدوجہد کی جو بتاتی ہے کہ دنیا کے عام لوگ خاموش نہیں بیٹھے، وہ سمندروں کو کاٹ کر غزہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس محاصرے کو توڑا جا سکے یہ فلوٹیلا کوئی پہلی بار نہیں نکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی جڑیں 2010 کے وہ دل دہلا دینے والے واقعات ہیں جب ترکی سے چلنے والا جہاز ماوی مرمرہ، غزہ کی طرف گیا تھا۔ مقصد تھا کہ انسانیت کے لیے امداد پہنچائی جائے اور اسرائیل کے ظالمانہ محاصرے کو للکارا جائے مگر اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی پانیوں میں اس جہاز پر حملہ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کے 9 کارکن شہید ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے ان شہداء میں ترکی کے
شہری بھی تھے اور دیگر مختلف ممالک کے کارکن بھی یہ واقعہ اس بات کی علامت تھا کہ اسرائیل کسی بھی قیمت پر اپنی بربریت سے پیچھے نہیں ہٹے گا، اور وہ دنیا کے سامنے اپنی دہشت گردی کو طاقت کے بل پر قائم رکھنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خون ریزی نے "فریڈم فلوٹیلا" کو ایک عالمی تحریک میں بدل دیا۔ ہر چند سال بعد یہ قافلہ نئی شکل میں ابھرتا ہے، مختلف ممالک کے کارکن، انسانی حقوق کے علمبردار، ڈاکٹرز، اساتذہ اور سیاستدان اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر اس سفر کا حصہ بنتے ہیں رواں سال 2025
میں جب "گلوبل صمود فلوٹیلا" کا اعلان ہوا تو دنیا کے کئی ممالک سے شخصیات اس میں شریک ہوئیں۔ پاکستان کی نمائندگی کے لیے سینیٹر مشتاق احمد اس قافلے کا حصہ بنے
یہ وہی مشتاق احمد ہیں جنہوں نے اسلام آباد میں اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ احتجاج کیا تھا، اور جن کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں۔ مگر ان دھمکیوں اور مقدمات نے ان کے حوصلے کو توڑنے کے بجائے مزید مضبوط کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اعلان کیا کہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندے نہیں بلکہ ایک انسانی قافلے کے رکن ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، چاہے ہمارے حکمران خاموش رہیں یا جھک جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا یہ سفر صرف ایک علامتی قدم نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک صدیوں پرانی امت کی غیرت کا پیغام تھا، ایک چیخ تھی جو کہہ رہی تھی
ہم تمہیں بھولے نہیں، اے غزہ کے بچوں! ہم تمہارے ساتھ ہیں " "
فلوٹیلا کا قافلہ یورپ کے مختلف ساحلوں سے روانہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہازوں پر دوائیں، کھانے پینے کی اشیاء، اسپتال کا سامان اور انسانیت کا پیغام تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر جہاز پر مختلف ممالک کے جھنڈے لہرا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں پاکستان کا جھنڈا بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ صرف ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں تھا، یہ اس پوری قوم کی نمائندگی کر رہا تھا جو اپنے ضمیر میں فلسطین کا درد محسوس کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سینیٹر مشتاق احمد کا جہاز جب سمندر کی وسعت میں داخل ہوا تو ان کے بیانات میں وہی درد جھلکتا تھا جو اسلام آباد کے احتجاج میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہاں ان کی آواز اور زیادہ گونجدار ہو چکی ہے ، کیونکہ اب وہ صرف پاکستانی نہیں بلکہ عالمی قافلے کے ایک رکن بھی ہیں
انہوں نے کہا " یہ سفر میرے ذاتی ضمیر کا فیصلہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے رب اور اپنی امت کے سامنے سرخرو ہونا چاہتا ہوں کہ میں نے ظالم کے خلاف آواز اٹھائی، اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہواہوں "
گلوبل صمود فلوٹیلا نے ایک بار پھر دنیا کو یہ سوال کرنے پر مجبور کر دیا
اگر اسرائیل کے محاصرے کو قانونی حیثیت نہیں، تو پھر یہ جہاز کیوں روکے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر انسانیت سب کے لیے ہے، تو فلسطینی اس کے مستحق کیوں نہیں ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قافلہ چاہے اپنی منزل تک پہنچے یا اسرائیلی رکاوٹوں کا شکار ہو، مگر اس نے ضمیر کی گھنٹی بجا دی ہے یہ یاد دہانی ہے کہ دنیا کے سمندروں پر ظلم کی دیوار کھڑی نہیں ہو سکتی


جب گلوبل صمود فلوٹیلا کے جہاز سمندر کی لہروں پر بڑھنے لگے، تو دنیا بھر میں ایک ارتعاش پیدا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام لوگ خوش ہوئے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے، مگر اسرائیل کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں خوف تھا کہ یہ جہاز غزہ کے محاصرے کی دیوار چاک کر دیں گے، اور دنیا کے سامنے ان کی ظالمانہ حقیقت ایک بار پھر بے نقاب ہو جائے گی
اسرائیل کے وزیروں اور فوجی جرنیلوں نے اپنے بیانات میں کھلے الفاظ میں کہا کہ " یہ جہاز غزہ نہیں پہنچنے دیے جائیں گے" گویا انسانیت کی امداد بھی ان کے نزدیک جرم ہے ۔۔۔۔۔ ان کے جنگی بحری جہاز فلوٹیلا کے راستے میں دیوار بننے کو تیار کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ اسرائیل کے جرائم سب جانتے ہیں، مگر زبان پر کوئی نہیں لاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امریکہ اور یورپ انسانی حقوق کے بڑے دعوے دار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ روس کے خلاف یوکرین کی حمایت کرتے ہیں، مگر فلسطین کی بات آئے تو ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ فلسطینی بچوں کو خون میں لت پت دیکھتے ہیں، مگر پھر بھی اسرائیل کو اسلحہ اور سیاسی حمایت فراہم کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہی مغرب ہے جس نے آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعرے لگائے، مگر فلسطین کے معاملے میں وہ ظالم کا ساتھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وہ دوہرا معیار ہے جو دنیا کے ضمیر کو شرمندہ کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، جس کی عوام ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کی گلیوں اور کوچوں میں بچے بھی " لبیک یا اقصیٰ" کے نعرے لگاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ایوانِ اقتدار میں بیٹھے حکمران صرف بیانات جاری کرتے ہیں، وہ بھی رٹے رٹائے، جیسے کسی نے ان کے ہاتھ میں اسکرپٹ تھما دیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب اسرائیل غزہ پر بم برساتا ہے، ہمارے حکمران صرف یہ کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ " ہم مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں " یہ اپیلیں وہ ہیں جو کسی بند کمرے میں پڑے کاغذ پر لکھی جاتی ہیں اور پھر فائلوں میں دب جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کوئی عملی اقدام، نہ کوئی مؤثر آواز، نہ کوئی سفارتی دباؤ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران مغرب کے سفیروں کے ساتھ تصویریں کھنچوانے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ امریکی سفارت خانے کی ضیافتوں کو "اعزاز" مانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے واشنگٹن اور لندن کی خوشنودی زیادہ اہم ہے، غزہ کے بچے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں سینیٹر مشتاق احمد کی آواز ایک کڑکتی ہوئی للکار بن گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تنہا کھڑے ہیں، مگر کہتے ہیں " یہ میرا ذاتی فیصلہ ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے غزہ کے یتیم بچوں کے آنسو دیکھے ہیں، اس لیے میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میرا ملک خاموش ہے تو میں خاموش نہیں رہ سکتا "
ان کی یہ بات دلوں پر اثر کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عوام سوچتی ہے کہ اگر ایک شخص اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر فلوٹیلا میں شامل ہو سکتا ہے، تو حکمران کیوں بے حس ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزہ اس وقت ایک قید خانہ ہے۔ وہاں کی عورتیں اپنے بچوں کو کھانے کے ٹکڑے کے لیے روتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسپتالوں میں ماؤں کی آہیں گونجتی ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو مرتا دیکھ کر کچھ نہیں کر سکتیں بوڑھے باپ اپنے بیٹوں کی لاشوں پر بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دنیا خاموش ہے، جیسے ان کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا گیا ہو
یہ وہ تنہائی ہے جس میں فلوٹیلا جیسے قافلے ایک امید کی کرن بن کر ابھرتے ہیں۔ یہ یاد دہانی ہے کہ ظالم چاہے کتنا طاقتور ہو، مگر مظلوم کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔
گلوبل صمود فلوٹیلا صرف جہازوں کا قافلہ نہیں تھا، یہ ایک خواب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خواب جس میں دنیا کے عام لوگ مل کر یہ بتا رہے تھے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جہازوں پر کوئی فوجی نہیں تھے، نہ توپ و تفنگ تھی، صرف انسان تھے اور ان کے دلوں میں مظلوم فلسطینیوں کے لیے محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر سب جانتے ہیں کہ اسرائیل یہ قافلہ کبھی آسانی سے غزہ نہیں پہنچنے دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے جنگی جہاز اور کمانڈوز سمندر میں تیار کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماضی میں "ماوی مرمرہ" پر جو کچھ ہوا، وہ اب بھی تاریخ کے اوراق پر خون کے دھبوں کی طرح ثبت ہے، اسی لیے دنیا کو خدشہ ہے کہ یہ قافلہ بھی رکاوٹوں اور تشدد کا نشانہ بنے گا ( تا دم تحریر قافلے کے اراکین گرفتار کرلیے گئے ہیں ) ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ جہاز غزہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ صرف امداد کی ترسیل نہیں ہوگی بلکہ یہ اسرائیل کے محاصرے کے خلاف ایک تاریخی کامیابی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دنیا کو یہ پیغام ملے گا کہ طاقتور کے ظلم کو عوام کی جرات توڑ سکتی ہے
لیکن اگر یہ جہاز روک دیے گئے یا ان پر حملہ کیا گیا، تو پھر بھی یہ قافلہ ناکام نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس صورت میں اسرائیل کی سفاکیت ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر گولی، ہر حملہ، اسرائیل کے " دہشت گرد ریاست" ہونے کی گواہی دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج مغرب کی گلیوں میں بھی فلسطین کے حق میں جلوس نکل رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لندن، پیرس، برلن اور نیویارک کی سڑکوں پر لاکھوں افراد اسرائیلی جارحیت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے طلبہ کیمپ لگا کر احتجاج کرتے ہیں، امریکی کمپنیاں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی زد میں آ رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک حیرت انگیز تبدیلی ہے کہ جن ملکوں کی حکومتیں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں، انہی ملکوں کی عوام اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ وہ تضاد ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ضمیر ابھی مرا نہیں، انسانیت ابھی سانس لے رہی ہے
پاکستانی عوام کی حالت بھی یہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلیوں میں، مساجد میں، سوشل میڈیا پر فلسطین کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے بھی "غزہ کے ہیرو" کہہ کر اپنے کھلونے بانٹ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ چندہ دیتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، اور فلسطینی پرچم اٹھا کر اپنی یکجہتی دکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری طرف حکمران ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو عالمی طاقتوں کی چاپلوسی میں مصروف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ فلسطین کا ذکر تو کرتے ہیں مگر عملی قدم نہیں اٹھاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کوئی بڑی سفارتی مہم، نہ اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف، نہ اقوامِ متحدہ میں جرات مندانہ قرارداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں عوام اور حکمران ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عوام کا دل فلسطین کے ساتھ دھڑکتا ہے، مگر حکمرانوں کا دل مغرب کے اشاروں پر ناچتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹر مشتاق احمد کی آواز دلوں میں گھر کر گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اگر میرا ملک خاموش ہے، تو میں نہیں رہوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میرے حکمران سو رہے ہیں، تو سوتے رہیں میں جاکتا رہونگا " ۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات ایک فرد اور حکمران طبقے کا فرق واضح کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طرف ایک شخص ہے جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر سمندر میں نکل کھڑا ہوا ہے، اور دوسری طرف پوری ریاستی مشینری ہے جو صرف بیانات پر اکتفا کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلوٹیلا کا یہ سفر صرف سمندر پار کرنے کا سفر نہیں، یہ ضمیر کے جاگنے اور سو جانے کی کشمکش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بتاتا ہے کہ جب حکمران سو جائیں، تو کبھی کبھی ایک شخص کا ضمیر پوری امت کی غیرت کو زندہ کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
غزہ کے معصوم بچے جب اپنی ماؤں کی لاشوں کے پاس روتے ہیں، تو دنیا کی تاریخ ان آنسوؤں کو یاد رکھے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ اس اندھیرے میں ایک جہاز چلا تھا، جس پر دنیا کے مختلف ملکوں کے لوگ سوار تھے، اور ان میں ایک پاکستانی بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے کہا تھا
" یہ میرا ذاتی فیصلہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوں "
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑے انقلاب طاقت سے نہیں بلکہ جذبوں سے آتے ہیں گلوبل صمود فلوٹیلا اسی جذبے کی ایک شکل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جہاز شاید توپ و تفنگ سے لیس نہ ہو ، مگر یہ جہاز دنیا کے سامنے سب سے بڑی حقیقت بن کر ابھڑا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شائد لوگوں کا خیال ہو کہ " یہ جہاز آخر کیا کر لے گا ، کیا یہ اسرائیل گھٹنوں پر لے آئے گا "
یہ سوال درست صحیح ، لیکن اس کا جواب تاریخ کے اوراق پر درج ہے
یاد کیجیے 2010 میں " ماوی مرمرہ " کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسرائیلی حملے کے باوجود اس ایک جہاز نے پوری دنیا کو چونکا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاکھوں لوگوں نے فلسطین پر بات کرنا شروع کی، اسرائیل کی بربریت بے نقاب ہوئی، اور فلسطینیوں کی آواز دنیا کے ہر کونے تک پہنچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح آج کا " فلوٹیلا " بھی شاید محاصرے کو مکمل طور پر نہ توڑ سکے، مگر یہ ظلم کے خلاف ایک ایسی آواز بن کر ابھڑا جو عالمی بیانیے کو تبدیل کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دنیا کو بتا رہا ہے کہ فلسطینی تنہا نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلسطین کا مستقبل صرف راکٹوں اور جنگوں سے نہیں بدلے گا، بلکہ دنیا کے اجتماعی ضمیر کے جاگنے سے بدلے گا ، فلوٹیلا اس اجتماعی ضمیر کی بیداری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دنیا کو یاد دلاتا ہے کہ فلسطین کے بچے بھی وہی بچے ہیں جو لندن، نیویارک یا اسلام آباد میں کھیلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مائیں بھی وہی مائیں ہیں جو اپنے بچوں کے لیے صبح سے شام تک محنت کرتی ہیں
جب تک یہ انسانی رشتہ دنیا کے دلوں میں جاگتا رہے گا، فلسطین کے لیے امید باقی رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ
" پاکستان کہاں کھڑا ہے "
پاکستانی عوام ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہے 1967 کی جنگ ہو، 1687 کا انتفاضہ، یا آج کا غزہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عوام نے اپنے دل کی دھڑکنوں کو فلسطین کے نام کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مساجد میں دعائیں کی گئیں، سڑکوں پر احتجاج ہوئے، اور عام لوگ اپنی غربت کے باوجود فلسطین کے لیے چندہ دیتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دوسری طرف پاکستانی حکمران ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر عملی طور پر خاموش ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے بیانات میں وہی روایتی الفاظ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " ہم فلسطین کے ساتھ ہیں، ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں"
مگر حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری خود اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے ۔۔۔۔۔۔ ایسے میں اپیلیں نہیں بلکہ جرات مندانہ مؤقف کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سینیٹر مشتاق احمد کا کردار ایک مثال بن کر سامنے آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا " یہ میرا ذاتی فیصلہ ہے ۔۔۔۔۔۔ میں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوں "
ان کے اس قدم نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر ایک شخص بھی دل سے چاہے، تو پوری دنیا اثر انداز ہوسکتا ہے
انہوں نے نہ صرف اسلام آباد میں احتجاج کیا بلکہ سمندروں کا سفر بھی اختیار کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا یہ قدم پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے، جب کہ حکمرانوں کی خاموشی عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے
اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں سے سوال کریں
کب تک تم مغرب کی چاپلوسی میں غزہ کے بچوں کو بھولے رہو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کب تک تمہارے بیانات کاغذی رہیں گے اور عملی اقدامات غائب رہیں ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کب تک فلسطین کے خون پر تمہاری خاموشی تاریخ میں درج ہوتی رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستانی عوام کو یہ آواز بلند کرنا ہوگی کہ ہمارا ملک فلسطین کے ساتھ عملی طور پر کھڑا ہو، چاہے وہ عالمی سطح پر سخت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سفارتکاری ہو، اسرائیل کے خلاف تجارتی و سفارتی بائیکاٹ ہو، یا فلسطینی عوام کی امداد کے لیے بڑے اقدامات کرنے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزہ کے بچے آج بھی آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کرتے ہیں کہ کوئی ان کے لیے آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں سوال ہے، ان کے دلوں میں امید ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تاریخ لکھ رہی ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں سے لوگ جہازوں پر سوار ہو کر نکلے، ان میں ایک پاکستانی بھی تھا۔
جس نے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
" یہ میرا ذاتی فیصلہ ہے۔ میں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوں"
یہ فیصلہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری امت کے ضمیر کی بیداری کا ہےاور یہی بیداری ایک دن فلسطین کی آزادی کی بنیاد بنے گی ( انشاء اللہ )
خبر آرہی ہے کہ بعض پاکستان کے بعض سرکردہ حلقے اسرئیل کو تسلیم کرنے کی راہ پر غور کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ خیال صرف اچانک نہیں آیا، بلکہ عالمی دباؤ، سفارتی معاملات اور خطے کی نئی سیاسی ترتیب کے پیش نظر اس پر گفتگو ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ امریکہ کی سلامتی پیکیجز، خلیجی ریاستوں کی ثالثی کوششیں اور "ابراہیم معاہدے" کی توسیع کی امید نے پاکستانی قیادت کو کشش دی ہے
لیکن پاکستانی حکومت کی باضابطہ پالیسی بھی واضح ہے کہ تسلیم صرف اس وقت ہوگا جب فلسطین کی آزادی، دو ریاستی حل و القدس کی پائیداری یقینی بنائی جائیں
یہ سن کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ منصوبہ حقیقت میں عمل میں لایا جائے گا، یا یہ ایک سیاسی حربہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ انجام پائے، تو کیا وہی حکومتی بیانات صداقت کا پہلو رکھیں گے جو آج محض لفظی نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور کیا اس صورت میں وہ عام پاکستانی عوام کے جذبات اور ضمیر کا خیال رکھیں گے یا پھر تسلیمات کی راہوں پر چلتے چلے جائیں گے
٭٭٭٭٭











 

Muhammad Jaffar Khunpouria
About the Author: Muhammad Jaffar Khunpouria Read More Articles by Muhammad Jaffar Khunpouria: 5 Articles with 602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.