شدت پسندی سے مفاہمت تک: بلوچستان کے لیے نیا راستہ

بی ایل اے کے سابق کمانڈر کے انکشافات کی روشنی میں بلوچستان کےمستقبل کے لئے نئے راستے کا تعین بہت ضروری ہوگیا ہے۔ تاہم عوام کو بی ایل اے کی خفیہ سرگرمیوں کا ادراک ہونا شروع ہو چکا ہے۔
سر زمین پاکستان ، جو چار صوبوں پر مشتمل بھائی چارہ، امن، ترقی اور خوشحالی کے اصولوں کے تحت اپنی قوم کو تقریباً اسی سالوں سے اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے ۔ ماضی میں کئی بار ملکی سرحدوں کو دشمن کے ناپاک عزائم نے متاثر کیا تاہم چاروں صوبوں کے عوام نے سکیورٹی فورسز ، حکومت اور قانونی اداروں کے ساتھ مل کر دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔ جب دشمن نے دیکھا کہ پاکستان کے عوام کی ملی وحدت اس کے مذموم عزائم کے رستے میں رکاوٹ بن رہی ہے تو اس نے اندرون خانہ منافقت و منافرت کا ایسا بازار گرم کیا جس سے پاکستان کے د و صوبے بری طرح متاثر ہوئے۔ چند شر پسند عناصر نے دشمن کے ساتھ مل کر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کو شدید ترین دہشت گردی اور سہولت کاروں سے بھر دیا۔ تاہم سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائیوں اور عوام کے ساتھ نے ملک کو تاحال دشمن کے ناپاک ارادوں کو کامیاب ہونے سے روکے رکھاہے۔ بلوچستان کو کچھ عرصے سے بی ایل اےکی سازشوں کا شکار ہے روز افزوںسازشوں کا جال بن کر بلوچستان کے عوام کو ملک دشمنی کی بھینٹ چڑھانے میں مصروف عمل ہے۔
بلوچستان کی سرزمین کئی دہائیوں سے ایک ایسے بیانیے کی گرفت میں ہے جس کی بنیاد محرومیوں، انتقام اور بغاوت پر رکھی گئی۔ دہشت گرد گروہ اور علیحدگی پسند تحریکیں ہمیشہ سے یہی دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ وہ بلوچ عوام کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے ہتھیاروں سے نکلنے والی گولیاں اور بم دھماکے صرف بلوچ عوام ہی کو لہولہان کرتے رہے۔ ماضی میں بغاوتوں سے جڑی خاندانی وابستگیاں، ثقافتی علامتیں اور طلبہ تنظیمیں اس مقصد کے لیے استعمال ہوئیں کہ نوجوان نسل کو ریاست کے خلاف بھڑکایا جائے۔ محرومی، غربت، پسماندگی اور لاپتہ افراد جیسے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ شدت پسندی کو زندہ رکھا جا سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نسل در نسل نوجوانوں کو پہاڑوں کی جانب دھکیلا گیا، جہاں انہیں صرف مایوسی، بے گھری اور موت کے سوا کچھ نہ ملا۔
تاہم حالیہ دنوں میں ایک بڑی پیش رفت نے اس پرانے بیانیے کو ہلا کر رکھ دیا۔ بی ایل اے کے سابق کمانڈر گلزار امام شمبے نے اے آر وائی کو دیے گئے انٹرویو میں کھل کر اعتراف کیا کہ بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر عسکری تنظیموں کا راستہ تباہی کا راستہ ہے۔ شمبے کا کہنا تھا کہ برسوں کی مسلح جدوجہد نے بلوچ عوام کو کچھ نہیں دیا، سوائے خونریزی، لاشوں، تباہ گھروں اور بے یقینی کے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی راستہ ہے تو وہ ریاست کے ساتھ مکالمے کا ہے۔ نہ غیر ملکی ایجنڈا کوئی حل ہے اور نہ ہی بندوق۔ بلوچ عوام کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک وہ سیاست اور جمہوری راستے پر اعتماد نہ کریں۔ یہ بیان ایک ایسے شخص کا ہے جس نے خود پہاڑوں پر سالہا سال گزارے اور اپنے تجربے کی بنیاد پر اب شدت پسندی کو یکسر مسترد کر رہا ہے۔
شمبے نے اپنے انٹرویو میں مہرانگ بلوچ کے والد میر غفّار لانگو کا ذکر بھی کیا، جو سردار خیر بخش مری کے قریبی ساتھی اور بلوچ لبریشن آرمی (BLA)کے قلات کے کمانڈر تھے۔ ان کے دور میں قلات، مستونگ اور تربت کے علاقوں میں ایسی مسلح کارروائیاں ہوئیں جنہوں نے خوف اور بے یقینی کو جنم دیا۔ ان کارروائیوں کا سب سے بڑا نقصان عام بلوچ عوام کو ہوا، جنہیں جانی اور مالی نقصانات برداشت کرنے پڑے۔یہی خونی ورثہ آج مہرانگ بلوچ کے بیانیے میں جھلکتا ہے۔ ’’لاپتہ افراد‘‘ کے نام پر جلوس اور دھرنے دراصل اسی پرانے پروپیگنڈے کی نئی شکل ہیں۔ یہ بیانیہ نہ تو انسانی ہمدردی پر مبنی ہے اور نہ ہی حقیقی سیاسی جدوجہد۔ بلکہ یہ ماضی کی عسکری تحریکوں کا تسلسل ہے، جسے وقتاً فوقتاً نئے چہروں کے ذریعے زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہاں یہ فرق بالکل واضح ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں پرانے بیانیوں کو دہرا کر نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں، چاہے وہ پہاڑوں میں ہوں یا شہروں میں احتجاجی دھرنوں کی شکل میں۔ ان چہروں کا اصل مقصد عوام کو استعمال کرنا ہے تاکہ انتشار کو قائم رکھا جا سکے۔ لیکن گلزار شمبے جیسے لوگ، جو خود اس جدوجہد کے عملی کردار رہے ہیں، اب تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ راستہ صرف تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ اگر شدت پسندی کے معمار بھی اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ حل صرف امن اور مکالمے میں ہے، تو بلوچ عوام کو بھی یہ پہچاننا ہوگا کہ پرانے نعرے محض گمراہی ہیں۔ بلوچ عوام کے سامنے آج ایک تاریخی موقع ہے۔ ایک طرف وہ پرانا بیانیہ ہے جس نے صرف خون دیا، اور دوسری طرف وہ راستہ ہے جسے گلزار شمبے جیسے لوگ اپنانے کا مشورہ دے رہے ہیں — یعنی سیاست، جمہوریت اور مکالمہ۔ یہ فیصلہ بلوچ عوام کو خود کرنا ہے کہ آیا وہ اپنے بچوں کو ایک بار پھر پہاڑوں کی طرف دھکیلیں گے یا انہیں تعلیم، روزگار اور ترقی کے میدان میں دیکھنا چاہیں گے۔
سبق بالکل واضح ہے: شدت پسندی کے بیانیے عوام کے زخم بھرنے کے بجائے انہیں مزید گہرا کرتے ہیں۔ مستقبل کا راستہ بغاوت میں نہیں بلکہ مفاہمت میں ہے۔ بلوچستان کا مستقبل اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب عوام اور قیادت یہ مان لیں کہ مسائل کا حل بندوق سے نہیں بلکہ قلم اور مکالمے سے نکلے گا۔ یہ وقت ہے کہ بلوچ عوام اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک نیا باب رقم کریں، جس میں لاشیں نہ ہوں بلکہ تعلیمی ادارے آباد ہوں، جس میں غربت اور بے روزگاری نہ ہو بلکہ ترقی اور خوشحالی ہو۔ یہی وہ پیغام ہے جسے تاریخ بار بار دہرا رہی ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر بلوچستان اپنے زخم بھر سکتا ہے۔

 

Waseem Akaash
About the Author: Waseem Akaash Read More Articles by Waseem Akaash: 18 Articles with 7244 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.