" کوئی ناک نہ دبائے "

" وادی سوچ میں گھٹیا خیالوں سے بچنا بھی ایک فن ہے "
" کوئی ناک نہ دبائے "

تحریر : محمد جعفر خونپوریہ

لکھنا میرا شوق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ لکھنے کے لیے موضوع چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور موضوع بھی ایسا کہ جو دل کو چھو لے، دماغ کو جگائے، اور لفظوں کو باندھے۔ اس کے لیے مجھے وادی دماغ کی سیر کرنی پڑتی ہے، سوچ کے گھوڑے پر سوار ہوکر اس پیچیدہ وادی میں چکر لگانا پڑتا ہے۔ یہ سفر ایسا نہیں کہ آسان ہو؛ اس میں نشیب و فراز ہیں، خمیدہ راہیں ہیں، اور اندھیرے میں چھپے وہ خیالات ہیں جو کسی بھی لمحے اچانک سامنے آ کر چونکا دیتے ہیں۔
ویسے بھی، طبیعت خراب ہے۔ پہلے ڈاکٹر نے کہا، "ڈینگی ہے"، پھر کہا، "چکن گونیا ہے"۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا، "کچھ بھی ہے، طبعیت تو میری خراب ہے۔ تمہیں تو بس نسخے پر سائن کر کے پیسے لے لینے ہیں۔" بیماری کے نام سے کیا فرق پڑتا ہے؟ گونیا ہو یا ڈینگی، بھگتنا تو مریض کو ہی پڑتا ہے۔
دوائیاں مہنگی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ حکومت بھی یہی کہتی ہے، عوام بھی، اور ڈاکٹر بھی۔ میں خود "فارما نیوز" سے وابستہ ہوں، اور ہر اشاعت میں دواؤں کی مہنگائی کے خلاف خبر لگاتا ہوں۔ انڈسٹری والے پڑھتے ہیں، تعریف کرتے ہیں، "واہ، بہت صحیح لکھا ہے، بہت مہنگائی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " ارے بھائی، مہنگائی تو ہم جیسے لوگوں کے لیے ہے۔ آپ لوگ تو روز دوائیاں بنا رہے ہیں، فیکٹریاں چلا رہے ہیں، پیسہ بنا رہے ہیں۔ پھر کس بات کا رونا؟ مہنگائی کا؟ آپ تو وہ قوت خرید رکھتے ہیں جو حکومت، قانون، حتیٰ کہ وزیر بھی خرید سکتی ہے۔
بیماری کی وجہ سے میں نے سگریٹ چھوڑ دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ کیا کچھ نہیں چھوڑ دیتے۔ ہم نے تو بس سگریٹ چھوڑی ہے، لوگ تو تعلق، دوستیاں، رشتے داریاں چھوڑ دیتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو ماں باپ، گھر بار، یہاں تک کہ دین ایمان بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اور کچھ تو لمبی، لمبی چھوڑنے کے عادی ہیں اور کچھ تو ایسا چھوڑتے ہیں کہ بے اختیار ناک دبانے کا دل کرتا ہے، مگر ہم جیسے لوگ تو ناک بھی نہیں دبا سکتے، سانس کے مریض جو ٹھہرے
اسی دوران میں وادی دماغ میں ایک چوکی تک پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں ایک خیال کھڑا تھا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "ہاں بھئی، کون ہو تم ۔۔۔۔۔ اپنے متعلق بتاؤ۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے جواب دیا، "میں گھٹیا ہوں "
"" گھٹیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا گھٹیا " میں نے حیرانی سے پوچھا۔ وہ ہنسنے لگا،
"میں گھٹیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بس گھٹیا "
" گھٹیا کے آگے پیچھے بھی کچھ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے گھٹیا سوچ ، یا گھٹیا خیال " میری بات سن کر وہ اور زور سے ہنسنے لگا۔
" کمال ہے، تم ہنس رہے ہو "۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا
" میں ہنس نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل میں گھٹیا ہوں تو اس طرح کی حرکتیں ہوتی رہتی ہیں "
" گھٹیا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ذرا وضاحت کرو۔"
" گھٹیا، محض گھٹیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے آگے پیچھے کچھ نہیں، البتہ جس کے ساتھ لگ جاتا ہوں اسے بھی گھٹیا بنا دیتا ہوں "
" وہ کیسے " ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔
وہ بڑے فخر سے بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "مجھے اگر 'سوچ' کے ساتھ لگا دیا جائے تو سوچ گھٹیا ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ' خیال ' کے ساتھ لگاؤ تو خیال گھٹیا ہو جاتا ہے۔ مجھے انسان کے ساتھ لگا دو تو انسان بھی گھٹیا ہو جاتا ہے۔ میری تاثیر بلکل پارس کی طرح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے پارس لوہے کو چھو کر سونا بنا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی جسے چھو لوں اسے گھٹیا بنا دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہے وہ کہانی ہو، ڈرامہ ہو، یا کوئی ڈرامہ نگار، میں اگر اس کے ساتھ ہوا تو وہ گھٹیا ہو جائے گا، گارنٹی کے ساتھ۔ "
میں نے کہا، "مجھے کالم لکھنا ہے۔ اگر تمہیں ساتھ رکھا تو کالم گھٹیا ہو جائے گا۔ لعنت ہو تم پر!" یہ سنتے ہی وہ غائب ہو گیا، اور تاحال لاپتہ ہے۔

 

Muhammad Jaffar Khunpouria
About the Author: Muhammad Jaffar Khunpouria Read More Articles by Muhammad Jaffar Khunpouria: 6 Articles with 1029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.