ڈاکٹر سعادت سعید: نظریہ ساز نقاد
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
ڈاکٹر سعادت سعید: نظریہ ساز نقاد ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اردو ادب کی طویل اور رنگا رنگ تاریخ میں چند ایسی شخصیات نمایاں ہیں جن کی تخلیقی موجودگی نے اس کے فکری اور جمالیاتی خدوخال کو نئی سمت دی۔ یہ وہ اہلِ فکر ہیں جنہوں نے ادب کو صرف اظہارِ جذبات یا تفریح کا وسیلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے فلسفیانہ اور روحانی تجربے کی صورت میں دیکھا ، ایک ایسا تجربہ جو لفظ کو انسانی شعور، احساس اور وجود کی گہرائیوں سے جوڑتا ہے۔ انہی درخشاں اذہان میں ایک معتبر نام پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید کا ہے، جنہوں نے اردو ادب کے فکری مکالمے کو ایک نیا زاویہ عطا کیا۔ 15 مارچ 1949 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر سعادت سعید شاعر، نقاد، مترجم اور محقق کی حیثیت سے اردو ادب کا قابلِ فخر اثاثہ ہیں۔ وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں صدرِ شعبۂ اردو رہ چکے ہیں اور انقرہ یونیورسٹی ترکی میں اردو و پاکستان اسٹڈیز چیئر سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ ان کی علمی و فکری وابستگی نے اردو ادب میں تنقیدی فکر کے ایک نئے باب کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر سعادت سعید نے اردو شاعری اور تنقید دونوں کو نئی آگہی بخشی۔ انہوں نے ادب، فلسفہ، نفسیات اور جمالیات کو یکجا کر کے ادب کو محض روایت کا تسلسل نہیں بلکہ خود آگاہی اور تخلیقی دریافت کا عمل قرار دیا۔ ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ادب اپنی روح میں ایک زندہ مکالمہ ہے جو انسان کے باطن اور زمانے کے شعور کے درمیان پل بناتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کی جدید شاعری کی تحریک میں ڈاکٹر سعادت سعید کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تحریک اردو شاعری کو جمود سے نکال کر جدید انسان کے وجودی اور فکری بحرانوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھی۔ڈاکٹر سعادت سعید اس تحریک کے محض ناظر نہیں بلکہ اس کے فکری معمار اور نظریہ ساز ناقد کے طور پر سامنے آئے۔ ان کے تخلیقی شعور نے واضح کیا کہ جدید شاعری محض زبان یا اسلوب کی تبدیلی نہیں بلکہ انسان کے وجودی اضطراب اور معنوی جستجو کا اظہار ہے۔ انہوں نے اپنے ہم عصر ، جیلانی کامران، انیس ناگی، افتخار جالب، زاہد ڈار اور انور سجاد کے تخلیقی سرمایہ کا گہرا مطالعہ کیا اور دکھایا کہ جدید اردو شاعری دراصل وجودی شعور اور علامتی اظہار کی تحریک ہے۔ ان کے تنقیدی نظام فکر نے واضح کیا کہ شاعری اب محض جمالیاتی تجربہ نہیں بلکہ فکری اور فلسفیانہ مکالمہ بن چکی ہے۔ ان کی نظم "جنازے" ملاحظہ کیجیے۔ "جنازے لوٹ کے آتے نہیں عزادارو! حویلیوں کے دریچوں سے منتظر آنکھیں اُداس گلیوں میں کب تک بچھائے رکھو گے مسافروں کے ہیولوں کو گھر کے طاقوں میں اندھیری شمعوں کی صورت سجائے رکھو گے 'ابد' کی جھیلوں میں ڈوبے خمیدہ 'نیل کمل' تمہاری یادوں کے گملوں میں کھل نہیں سکتے دلوں سے بچھڑے ہوئے دل تو مل نہیں سکتے!" ڈاکٹر سعادت سعید کی تنقید میں زبان و بیان کی نفاست کے ساتھ نظریاتی وضاحت اور فکری عمق نمایاں ہے۔ انہوں نے مغربی جدیدیت کو اندھی تقلید کے بجائے اپنی تہذیبی روایت کے تناظر میں برتا۔ ان کے نزدیک اردو جدیدیت کا مفہوم روایت سے انکار نہیں بلکہ اس کی ازسرِنو تعبیر ہے۔ یہی نکتہ ان کی تنقیدی بصیرت کو دوسرے ناقدین سے ممتاز بناتا ہے۔ بطور شاعر، ان کے یہاں وجودی کرب، تنہائی اور فکری اضطراب کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کی نظم “مرے ققنسا” میں عہدِ حاضر کے زوال، فکری جمود اور معنوی تلاش کا جو اظہار ہے، وہ ان کے تخلیقی شعور اور فلسفیانہ زاویۂ نگاہ کی بہترین مثال ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید کی خدمات کا دائرہ تنقید سے آگے ترجمے کے فن تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کے تراجم محض ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقلی نہیں بلکہ فکر اور تہذیب کی ترسیل کا عمل ہیں۔ وہ ترجمے کو تخلیقی تفہیم سمجھتے ہیں ، ایسا عمل جس میں مترجم اصل متن کی روح کو اپنی زبان کے شعوری پس منظر میں نئے معانی کے ساتھ زندہ کرتا ہے۔ ان کے تراجم نے اردو قاری کو جدید فلسفے، وجودیت اور عالمی ادبی نظریات سے روشناس کرایا۔ ان کا اسلوب اتنا رواں اور فکری طور پر منضبط ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اردو ہی کے کسی مفکر کا متن پڑھ رہا ہو۔ ان تراجم کے ذریعے انہوں نے اردو ادب میں بینالثقافتی مکالمے کی نئی راہیں کھولیں اور اردو تنقید کو فکری وسعت عطا کی۔ وہ اس حقیقت کے قائل تھے کہ ادب کی روح زبان کی قید میں نہیں بلکہ انسانی تجربے کی آفاقیت میں پوشیدہ ہے۔ ان کی نمایاں تصانیف میں کجلی بن، تہذیب جدیدیت اور ہم، فن اور خالق، ادب اور نفیِ ادب، اقبال ایک ثقافتی تناظر اور شناخت شامل ہیں۔ یہ سب ان کے فکری نظام کی گہرائی اور وسعت کا ثبوت ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے ابھی تک انہیں وہ علمی مقام نہیں دے سکے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ان کا کام محض اردو تنقید نہیں بلکہ اردو فکر کی جدید تشکیل ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ شاعری اور تنقید دونوں کا مقصد صرف اظہار نہیں بلکہ ادراک کی توسیع اور شعور کی بیداری ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید اردو ادب کے اُن معدودے چند مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے تحقیق، نظریہ اور تخلیق کو ایک وحدت میں سمو دیا۔ ان کی تنقید ادب کو محض مطالعے کا مضمون نہیں بلکہ فکری بیداری کا محرک بناتی ہے۔ ان کا نام ہمیشہ اردو ادب کے اُن ناقدین میں شامل رہے گا جنہوں نے لفظ کو فکر میں اور فکر کو زندگی میں بدلنے کا ہنر سکھایا۔ |
|