واقعات میں چھپے قیمتی موتی ( دوسرا اور آخری حصہ)
(محمد یوسف میاں برکاتی, کراچی)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب ( واقعات میں چھپے قیمتی موتی ) ( دوسرا اور آخری حصہ)
محمد یوسف میاں برکاتی
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں واقعات میں چھپے ہوئے قیمتی موتی کے سلسلہ کا یہ دوسرا حصہ پیش خدمت ہے جناب صدقہ و خیرات کے بارے میں آپ نے پڑھا بھی ہوگا سنا بھی ہوگا اور قرآن و حدیث میں اس کا کئی جگہوں پر ذکر بھی آیا ہے لیکن ہم آج انتہائی خوبصورت واقعہ سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جناب ایک شخص جان ڈی راک فیلر یہ ایک ایسا شخص تھا جو کبھی دنیا کا امیرترین شخص مانا جاتا تھا وہ دنیا کا پہلا ارب پتی تھا کیونکہ 25سال کی عمر میں اس نے امریکہ کی سب سے بڑی آئل ریفائنریوں میں سے ایک کو کنٹرول کیا۔ 31سال کی عمر میں وہ دنیا کا سب سے بڑا تیل صاف کرنے والا شخص بن گیا تھا۔ 38سال کی عمر میں اس نے امریکہ میں 90فیصد تیل کو صاف کر کے دکھایا 50 سال کی عمر تک، وہ ملک کا سب سےامیر آدمی تھا۔ ایک نوجوان کے طور پر، ہر فیصلہ، رویہ، اور رشتہ اسکی ذاتی طاقت اور دولت پیدا کرنے کےلئے تیار کیا گیا تھا. میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن اس وقت کچھ ایسا ہوا کہ 53سال کی عمر میں وہ بیمار ہو گیا یعنی اسکا پورا جسم درد سے لرز گیا اور اسکے سارے بال جھڑ گئے۔ مکمل اذیت میں، دنیا کا واحد ارب پتی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی خرید سکتا تھا، لیکن وہ صرف سوپ اور کریکر ہضم کر سکتا تھا۔ ایک ساتھی نے لکھا، وہ سو نہیں سکتا تھا، مسکرا نہیں سکتا تھا اور زندگی میں کوئی بھی چیز اسکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ اسکے ذاتی، انتہائی ماہر ڈاکٹروں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک سال کے اندر مر جائے گا اس نے وہ ایک سال اذیت سے آہستہ آہستہ گزارا لیکن جب وہ موت کے قریب پہنچا تو وہ ایک صبح اس احساس کے ساتھ بیدار ہوا کہ وہ اپنی دولت میں سے کچھ بھی اپنے ساتھ اگلے جہان میں لے جانے کے قابل نہیں ہے۔ وہ آدمی جو کاروباری دنیا کو کنٹرول کر سکتا تھا، اچانک احساس ہوا کہ وہ اپنی زندگی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اسکے پاس ایک انتخاب رہ گیا تھا۔ اس نے اپنے اکاؤنٹنٹ، اور مینیجرز کو بلایا اور اعلان کیا کہ وہ اپنے اثاثوں کو ہسپتالوں، تحقیق اور خیراتی کاموں میں منتقل کرنا چاہتا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن شاید راکفیلر کی کہانی کا سب سے حیرت انگیز حصہ یہ ہے کہ جس لمحے اس نے اپنی کمائی ہوئی تمام چیزوں کا ایک حصہ واپس دینا شروع کیا اس کی کیمسٹری میں اس قدر نمایاں تبدیلی آتی چلی گئی کہ وہ بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت تھا کہ ایسا لگتا تھا وہ 53سال کی عمر میں ہی مر جائے گا۔ لیکن وہ 98سال کی عمر تک زندہ رہا۔ مال خیرات کرنے سے وہ تندرست ہو گیا۔ گویا یہ خیرات نام کی چیز بھی ایک طریقئہ علاج ہے اپنی موت سے پہلے، اس نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ اس انرجی نے مجھے سکھایا، کہ اس دنیا میں سب کچھ اس رب العزت کا ہے، اور میں اسکی خواہشات کی تعمیل کرنے کےلیے صرف ایک چینل ہوں ایک وسیلہ کے طور پر کام کرتا رہا ہوں۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مختصر مگر دلچسپ واقعہ سے ہمیں جو قیمتی بات پتہ چلی وہ یہ کہ ہم اس عارضی میں کتنی بڑی کامیابی ہی حاصل کیوں نہ کرلیں لیکن ہم اپنے ساتھ کچھ بھی واپس لیکر نہیں جاسکتے یہ ہمارا سب کچھ اسی رب العزت کا ہے بس ہمارے اعمال ہی ہمارے ساتھ جائیں گے جبکہ ہمارے پاس اگر اللہ رب العزت کی عطا کی ہوئی بیشمار مال و دولت ہے تو ہمیں غریبوں اور ضرورت مندوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ اس میں دلوں کا سکون اور تندرست زندگی کا بہت بڑا راز چھپا ہوا ہے جس کی حقیقت کا ہمیں اس دنیا میں بھی نظر آتا ہے اور بروز محشر بھی اجر کے طور پر ہمارے سامنے ہوگا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میرا ماننا ہے کہ غربت ، پریشانی ، مصیبت اور کم حیثیت والی زندگی گزارنا ہر انسان کے لیئے ناممکن نہیں ہوتا یہ بات الگ ہے کہ ہمارے یہاں لوگوں کی کثیر تعداد اس مشکل وقت سے نہ صرف گزررہی ہے بلکہ پریشان بھی ہے مگر اسی دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کچھ کر گزرنے کا خواب کچھ حوصلہ اور کچھ امید کے ساتھ کبھی ان کے دل و دماغ سے نہیں نکلتا میں نے ایک جگہ ایک واقعہ پڑھا تو میں چونک گیا اور سوچا یہاں اس کو آپ تک پہنچاؤں جس شخص کے نام سے وہ تحریر میں نے پڑھی وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک ایک دبلا پتلا سا لڑکا قریب آیا۔ عمر بمشکل سولہ برس ہوگی۔ نہ جانے کیسی معصومیت چہرے پر بکھری ہوئی تھی۔ اس نے جھجکتے ہوئے کہا کہ"کیا میں آپ کے گاڑی کا شیشہ صاف کر دوں؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے ایسا دل لگا کر شیشہ صاف کیا کہ گاڑی کی آب و تاب نکھر آئی۔ میں نے بیس ڈالر اس کے ہاتھ پر رکھے تو وہ چونک کر بولا "کیا آپ امریکہ سے آئے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں اس نے تپاک سے کہا کہ کیا میں صفائی کی اجرت کے بجائے آپ سے امریکی جامعات کے بارے میں کچھ سوال کر سکتا ہوں؟ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کی گفتگو میں ایسی شائستگی اور وقار تھا کہ میرا دل مچل اٹھا۔ میں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور بات چیت شروع کی تمہاری عمر کتنی ہے؟ سولہ برس تم پڑھتے ہو نہیں اب نہیں لیکن میں نے گریجویشن مکمل کر لی ہے یہ کیسے ممکن ہوا؟ امتحانات میں غیر معمولی کارکردگی کے باعث مجھے کئی جماعتیں آگے بڑھا دیا گیامیں دم بخود رہ گیا۔ پوچھا پھر تم یہاں مزدوری کیوں کرتے ہو؟وہ کچھ دیر خاموشی کے بعد گویا ہوا میرے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب میں دو برس کا تھا۔ میری ماں ایک گھر میں کھانا پکاتی ہیں اور میں اور میری بہن بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ امریکی جامعات میں ذہین طلبہ کو وظائف ملتے ہیں۔ میری آرزو ہے کہ میں بھی ان میں جگہ پاؤں۔ میں نے پوچھا کیا کوئی تمہارا ہاتھ بٹانے والا ہے؟ وہ آہستگی سے مسکرایا میرے پاس میرے سوا کوئی نہیں میرا دل بھر آیا۔ کہا کہ چلو کھانا کھاتے ہیں ریستوران پہنچ کر بھی اس کی عظمتِ نفس دیکھنے کے لائق تھی۔ اپنے لیے کچھ نہ مانگا بلکہ کہا کہ کھانا پیک کر دیا جائے تاکہ وہ ماں اور بہن کو دے سکے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی انگریزی بے حد شاندار ہے اور اس میں غیر معمولی صلاحیتیں موجود ہیں۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں اور میری بیوی نے طے کیا کہ وہ اپنے کاغذات لائے گا اور میں اپنی استطاعت کے مطابق اس کی مدد کروں گا۔ چند ماہ کی کوششوں کے بعد اسے امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دیا۔ دو دن بعد اس کی آواز فون پر گونجی واللہ! ہم سب گھر میں خوش ہیں اور خوشی کے آنسو ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے ابھی محض دو برس گزرے تھے کہ نیویارک ٹائمز نے اسے دنیا کے کم عمر ترین ماہرِ ٹیکنالوجی قرار دے کر اس پر رپورٹ شائع کی۔ یہ خبر پڑھ کر میں اور میرے اہلِ خانہ اشکبار خوشی میں ڈوب گئے۔ میری اہلیہ نے اس کی ماں اور بہن کے ویزے بھی دلوائے۔ جب یہ نوجوان اپنی ماں اور بہن کو اچانک امریکہ میں اپنے سامنے دیکھتا ہے تو خوشی کے بوجھ تلے نہ بول سکا نہ رو سکا اس بات کو ایک عرصہ گزر گیا پھر ایک دن میں اور میرا خاندان گھر کے اندر تھے کہ اچانک باہر نگاہ گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہی نوجوان میری گاڑی دھو رہا ہے! میں تیزی سے باہر نکلا اور حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ وہ سر جھکا کر مسکرایا اور بولا مجھے کرنے دیجیے تاکہ میں یہ نہ بھولوں کہ میں کیا تھا اور آپ نے مجھے کیا بنایا۔ یہ فلسطین کا باہمت فرزند فرید عبدالعالی ہے، جو آج ہارورڈ یونیورسٹی جیسے عظیم ادارے کا نامور استاد اور مایہ ناز سائنس دان ہے۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ سچا واقعہ عرب سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس واقعہ میں ہمیں جو سبق قیمتی موتی کی طرح ملتا ہے وہ یہ ہے کہ غربت اور محرومی اگرچہ انسان کے قدم روک سکتی ہے، مگر ارادے، حوصلے اور شرافت کے سامنے دنیا کی کوئی دیوار زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی زندگی میں اگر کچھ کرنا ہے آگے بڑھنا ہے تو غربت یا مفلسی رکاوٹ نہیں بن سکتی بلکہ ہمت جرآت اور نیک نیتی سے انسان آگے بھی بڑھ سکتا ہے اور بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری یہاں ہر اہل ایمان مسلمان اپنے آپ کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کہلانے کا دعویٰ کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن تاریخ اسلام کو جب ہم پڑھتے ہیں تو ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک عاشق رسول ﷺ کے بارے میں واقعات ملتے ہیں جنہیں ہم پڑھتے بھی ہیں سنتے بھی ہیں اور جب کوئی عاشق رسول ﷺ مدینہ منورہ میں موجود دربار رسالت حضور ﷺ کی زیارت پر پہنچتا ہے اور پھر واپسی ہوتی ہے تو جدائی میں اس کی کیا حالت ہوتی ہے یہ بیان سے باہر ہے اب سوال یہ ہے کہ وہ غم کس بات کا ہے شہر مدینہ کی جدائی کا یا دیدار روضئہ رسول ﷺ سے دوری کا بس اگلے واقعے میں ہمیں اس بات کا جواب مل جائے گا اس مختصر اور دلچسپ واقعہ کو دل کی آنکھوں اور ایک عاشق رسول ﷺ کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے پڑھیئے گا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مراکش کا ایک شخص عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ پہنچا اور جتنے دن اس کے وہاں مخصوص تھے وہ روضئہ رسول ﷺ کے سامنے بیٹھا رہتا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے رہتے یہ اس کا روانہ کا معمول تھا دن گزرتے گئے اور وہ دن بھی آگیا جب اس کی رخصتی کا وقت آگیا اس کے دن پورے ہوگئے اس کی مدت پوری ہوگئی اب اسے واپس جانا تھا کچھ دن قبل ایک دن وہ پوری رات روضہ کے سامنے بیٹھا رہا اور کہتا رہا کہ یا رسول ﷺ میں یہاں اس لیئے تو نہیں آیا تھا کہ مجھے واپس جانا پڑے میں آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے در کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا میں یہیں رہنا چاہتا ہوں کچھ کیجیئے وہ روزانہ اسی طرح پوری رات بیٹھا رہتا اور یہ کلمات ادا کرتا پھر ایک دن اچانک روضہ مبارک سے آواز آئی کہ" اے شخص اگر تجھے میرے شہر سے محبت ہے تو یہیں رک جا اور تجھے میرے روضہ اور مجھ سے بچھڑنے کا غم ہے تو یہاں سے روانہ ہوجا کہ میں یہاں وہاں نہیں بلکہ ہر عاشق کے دل میں رہتا ہوں پھر میرا عاشق کہیں بھی ہو میں اس کے دل موجود رہتا ہوں اگر وہ میرا سچا عاشق ہے " ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مختصر واقعہ میں ہمیں ایک بڑا اہم اور قیمتی موتی سبق کی شکل میں ملتا ہے یعنی مدینہ سے واپسی کا غم صرف شہر مدینہ کا ہونا چاہئے کیونکہ اس شہر کو نسبت میرے آقا و مولا حضور ﷺ سے ہے جبکہ حضور صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم کی محبت تو ہر عاشق رسول ﷺ کے دل میں ہونی چاہیئے اب وہ جہاں جائے گا اس کے دل میں حضور اکرم ﷺ کا عشق موجود رہے گا اگر وہ سچا عاشق رسول ﷺ ہے تو وہ یہ سمجھ لے کہ وہ جہاں بھی ہو یعنی اگر اپنے گھر پر بھی ہو تو حضور ﷺ اور ان کا عشق اس کے ساتھ ساتھ ہے وہ جب بھی جہاں بھی انہیں پکارے گا وہ جواب ضرور دیں گے ( اپنے طریقے سے ) انشاء اللہ ۔لہذہ اگر کسی کے دل میں عشق رسول ﷺ ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ سرکار مدینہ حضور صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم اس کے ساتھ ساتھ ہیں۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک ہوتا ہے علم اور ایک ہوتا ہے علم حقیقی یعنی علم وہ ہوتا ہے جو اج کل کے دور میں اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے حاصل ہوتا ہے جسے حاصل کرکے لوگ دنیاوی اعتبار سے کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جبکہ علم حقیقی وہ علم ہے جسے دینی علم کہا جاتا ہے یعنی جو تعلیم دینی مدرسوں کے ذریعے حاصل ہو اور جسے حاصل کرکے بندہ عالم دین بنتا ہے قرآن و احادیث کا استاد بنتا ہے مفتی بنتا ہے یہ علم علم حقیقی کہلاتا ہے دنیاوی علم کے حصول کے لیئے نوجوان کسی ملک کا رہنے والا ہو وہ دوسرے ملک اپنے اس علم کو حاصل کرنے کے لئے چلا جاتا ہے اور جاتا بھی ہوائی جہاز کے ذریعے جبکہ جس دور میں دنیاوی تعلیم کا اتنا زور نہیں تھا اور نوجوان علم حقیقی کی تلاش میں زیادہ سرگرداں دکھائی دیتے تھے اور وہ بھی پیدل یا اونٹ پر سفر کرکے دینی تعلیم کے لیئے جایا کرتے تھے اور جب ہم تاریخ اسلام کو پڑھتے ہیں تو ہمیں دین کے طالب علموں کے ایسے قصے اور واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے ایسا ہی ایک سچے طالب علم کا سچا واقعہ یہاں تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اندلس کے شہر قرطبہ کے ایک نوجوان شیخ بقی جنہیں دینی تعلیم کے حصول کا بڑا شوق تھا ان کے والد گرامی نے انہیں ایک استاد کے پاس حدیث پڑھنے کے لیئے بھیجا لیکن استاد نے جب ان کے شوق کی شدت دیکھی تو کہنے لگے کہ بیٹا ہمارا علم تمہارے جیسے نوجوان سے کم ہے تم ایسا کرو بغداد چلے جائو وہاں تمہیں حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ جیسے استاد ملیں گے اس نوجوان نے جب حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کا نام سنا تو علم دین سیکھنے کی طلب اور بڑھ گئی کیونکہ بغداد میں ویسے تو علم دین سکھانے کے لیئے کئی مدرسے موجود تھے لیکن حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کی بات اور تھی جہاں دنیا کے کونے کونے سے طالب علم احادیث کا علم سیکھنے خاص طور پر آتے تھے لہذہ یہ نوجوان یعنی شیخ بقی اندلس سے بغداد کے سفر کے لیئے پیدل روانہ ہوگئے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ اندازہ لگایئے آج پڑھنے پڑھانے کے معاملے میں ہر طرح کی سہولتیں اور آسائشیں موجود ہیں لیکن پھر بھی علم کا حصول نوجوانوں کا شوق نہیں رہا جبکہ وہ دور بھی تھا جب لوگ صرف علم دین سیکھنے کی غرض سے کئی کئی میل پیدل چل کر جایا کرتے تھے شیخ بقی اندلس سے بغداد پیدل چلے اور کئی عرصہ کے بعد بغداد پہنچے لیکن جب وہ بغداد پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے پڑھنے پڑھانے پر پابندی لگ گئی ہے ان کے مدرسہ کو بھی بند کردیا گیا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت کے بادشاہ واثق باللہ کے حکم پر ہوا تھا اب شاہ بقی پریشان ہوگئے کہ وہ جس مقصد کو لیکر اتنا لمبا سفر طے کرکے آئے تھے اس کا کیا ہوگا پھر وہ بغداد میں گھومتے گھومتے جامع مسجد دار السلام میں گئے۔وہاں مشہور محدث امام یحییٰ بن معین کا حلقہ علم ِحدیث سیکھنے میں مصروف تھا لہذہ وہ بھی درس میں شریک ہوئے‘ سوال و جواب شروع ہوئے ۔بقی نے بھی آگے بڑھ کر سوال کرنا شروع کیے۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لوگوں کو جب معلوم تھا کہ یہ تو بڑی دور سے آئے تھے۔ حدیث کے راویوں پر جرح و تعدیل ہو رہی ہے۔ کون ثقہ ہے‘ کون ضعیف ہے‘ کون منکر ہے ؟ بقی نے ایک کے بعد دوسرا ‘پھر تیسرا اور چوتھا سوال پوچھا تو دیگر طلبہ نے شور مچا دیا کہ انہیں بھی سوال کرنے کا حق ہے۔اس نوجوان نے کئی سوال کر لئے ہیں‘ اب اسے چاہیے کہ دوسروں کو موقع دے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ سنت کا یہ جانثار کہاں سے آیا ہے؟ بقی نے کہا: بس صرف ایک سوا ل آخری سوال۔امام یحییٰ بن معین نے سر اٹھایا‘ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ سوال پوچھو؟ بقی نے کہا: آپ یہ بتا دیں کہ ابو عبد اللہ احمد بن حنبل کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ ثقہ ‘ ضعیف یا منکر۔ سوال تو زیادہ مشکل نہیں تھا‘ مگر حالات ایسے تھے کہ امام احمد کی تعریف میں کچھ کہنا خود کو آزمائش میں ڈالنا تھا۔استاذ یحییٰ بن معین نے حالات کی کوئی پروا نہیں کی‘ امام احمد کے ذکر پر ان کا چہرہ تمتما اٹھا۔ کہنے لگے: تم مجھ سے احمد بن حنبل کے بارے میں پوچھتے ہو؟وہ صرف ثقہ ہی نہیں ‘ بلکہ فوق الثقہ ہیں۔ ارے ہم کون ہوتے ہیں‘ ان کے حوالے سے بات کرنے والے‘ وہ امام اہل سنت وجماعت ہیں ۔ وہ تو بڑے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب مدرسے کا وقت ختم ہوا تو شیخ بقی نے سب سے پوچھنا شروع کیا کہ کیا تم مجھے یہ بتائو گے کہ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کا گھر کہاں ہے ؟ تو ہر کوئی جواب دینے سے کتراتا لیکن ایک شخص نے کہا کہ بادشاہ نے حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کو اپنے ہی گھر میں نظر بند کرکے رکھا ہوا ہے اور چاروں طرف فوج تعینات ہے میں تمہیں دور سے بتادوں گا اگر کسی کو علم ہوا تو میری شامت اجائے گی پھر اس نے شیخ بقی کو دور سے حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے گھر کا پتہ بتایا اب وہ پریشان تھے کہ میں ان کے گھر تک کیسے جائوں ؟ وہ کسی نے خوب کہا کہ جب کوئی شخص اللہ کے راستے پر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ آگے راستے بھی خود کھول دیتا ہے بس ان کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اپنے سرائے میں آئے جو انہوں نے کرایہ پر رہنے کے لیئے لی تھی اور ایک فقیر والا پھٹا پرانا لباس پہنا ہاتھ میں کانسہ لیئے بغداد کی گلیوں میں گھومنے لگے اور صدائیں لگانے لگے أَجْرَ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ (اس زمانے کے بغداد میں بھیک مانگنے کا یہی طریقہ تھا)۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بغداد کی گلیوں میں صدا لگاتے لگاتے وہ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے گھر تک پہنچ گیا اس نے دیکھا کہ یہاں بڑا سخت پہرا ہے کون آتا ہے کون جاتا ہے سب نوٹ کیا جارہا ہے لیکن شیخ بقی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے دروازہ کھولا اور دیکھا ایک فقیر ہے تو اس کے کانسے میں ایک دینار ڈالے اور جیسے ہی اندر جانے لگے تو شیخ بقی نے مختصر ساری کہانی سناڈالی حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ ان کی بات سن کر پریشان ہوگئے کہ اتنا لمبا سفر کرکے صرف مجھ سے حدیث پڑھنے آیا ہے لیکن مجھ پر تو پابندی ہے یہ کیسے ممکن ہے تو کہنے لگے کہ میں روزانہ فقیر کے بھیس میں آیا کروں گا اور آپ مجھے صرف ایک حدیث روزانہ پڑھا دیا کرنا ان کی یہ بات حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کو بھا گئی بس اب وہ یعنی شیخ بقی روزانہ فقیر کے بھیس میں آتے اور ایک حدیث سیکھ لیتے وقت گزرتا گیا اور شیخ بقی نے کم و بیش 300 حدیثیں یاد کرلیں ان کا نصیب دیکھیئے کہ حدیث سیکھنے کی تڑپ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے وقت کی سب سے بڑی علمی شخصیت سے براہ راست احادیث حاصل کر رہے ہیں۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وقت گزرنے کے ساتھ اس وقت کے بادشاہ واثق باللہ کا دور حکومت بھی ختم ہوگیا اور دوسرے بادشاہ نے حکومت سنبھالی جو خود بھی حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کا بہت بڑا چاہنے والا تھا اس نے نہ صرف حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کو رہا کروایا بلکہ ان کے لیئے ایک اعلی مدرسہ بھی تعمیر کروایا جس میں دنیا بھر سے دینی طالب علم دینی علم حاصل کرنے آیا کرتے تھے اور جب حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ احادیث پڑھاتے تو طالب علموں کا جم غفیر موجود ہوتا امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے شاگردوں میں بقی بن مخلد کا بھی اضافہ ہوا ۔ جب بقی پڑھنے کے لئے آتے تو امام صاحب طلبہ کو حکم دیتے کہ مجلس میں وسعت پیدا کرو۔ بقی کے لئے امام صاحب کے پاس جگہ بنا دی جاتی۔ وہ امام صاحب کے بالکل ساتھ بیٹھ کرعلم حاصل کرتے۔ امام ِ احمد اپنے شاگردوں کو بتاتے کہ اس نوجوان پر’’حقیقی طالب علم‘‘کا لقب صادق آتا ہے حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے شاگردوں سے کہا کہ یہ شخص یعنی شیخ بقی بن مخلد علیہ الرحمہ صرف علم دین کے حصول کی خاطر بڑا طویل سفر پیدل طے کرکے یہاں پہنچے کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ یہ سفر کتنے عرصے میں اور کتنی صعوبتیں برداشت کرکے طے کیا ہوگا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ اپنے شاگردوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے ایک دفعہ حضرت شیخ بقی بن مخلد علیہ الرحمہ بیمار ہوگئے اور سرائے میں اپنے بستر میں لگ گئے وہاں کا جو مالک تھا اسے فکر لاحق ہوگئی کہ میں نے دین کا طالب علم سمجھ کر اسے جگہ دی اب اگر یہ مر گیا تو میری سرائے تو بدنام ہو جائے گی اس نے اپنے ایک دوست کو بلوایا اور مشورہ کیا کہ کیا کروں لیکن جب اس کے دوست کی نظر شیخ بقی علیہ الرحمہ پر پڑی تو کہنے لگا کہ یہ تو حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے خاص شاگرد ہیں انہیں اطلاع کرو اور جب امام صاحب کو معلوم ہوا تو آپ خود ملنے چلے آئے پورا شہر آپ کے پیچھے پیچھے اور سرائے کا مالک بھی حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے چاہنے والوں میں تھا آپ علیہ الرحمہ نے حضرت شیخ بقی بن مخلد علیہ الرحمہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور دعا دے کر واپس چلے آئے کچھ دنوں بعد شیخ بقی بن مخلد علیہ الرحمہ کی طبیعت ٹھیک ہوگئی اور اپنے استاد کے حکم پر واپس اندلس روانہ ہوگئے تاکہ وہاں درس وتدریس کا کام شروع کرسکیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس خوبصورت واقعہ میں ہمیں قیمتی موتی کی طرح جو اسباق ملتے ہیں ان میں سب سے پہلی بات یہ کہ اگر علم اور وہ بھی علم حقیقی کے حصول کا جذبہ سچا ہو تو راہیں کتنی بھی کٹھن ہوں راستے کتنے بھی دشوار ہوں انسان منزل حاصل کر ہی لیتا ہے اور جب معاملہ اللہ تعالیٰ کے دین کا ہو اور اس کے حصول کا ہو تو ایمان کی پختگی کے ساتھ جذبہ بھی سچا ہونا لازمی ہے دوسرا یہ کہ نیکی کیسی بھی ہو کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو آپ کو محشر کے دن کام ضرور آئے گی جبکہ گناہ کیسا بھی ہو کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو آپ کو محشر میں جہنم میں لیجانے کے لیئے کافی ہوگا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں واقعات میں چھپے قیمتی موتی کے عنوان سے لکھے گئے اس تحریر کا یہ دوسرا اور آخری حصہ تھا مختلف اہم اور زندگی سے جڑے معاملے کو واقعات کے ذریعے آپ تک پہچانے کا سلسلہ آئندہ بھی جاری و ساری رہے گا انشاء اللہ۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت مجھے ہمیشہ سچ لکھنے ہمیں پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ مجھے دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھیئے گا ۔ |
|