واقعات میں چھپے قیمتی موتی ( پہلا حصہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

( واقعات میں چھپے کچھ قیمتی موتی )
( پہلا حصہ )

محمد یوسف میاں برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب ہم تاریخ پڑھتے ہیں اور تاریخ میں موجود واقعات کو پڑھتے اور سنتے ہیں تو ہمیں ان میں بڑے قیمتی موتی دکھائی دیتے ہیں لہذہ میں آج اپنی تحریر میں کچھ ایسے واقعات شامل کرنے کی سعادت حاصل کروں گا جن میں چھپے کافی قیمتی خزانے معلومات کی شکل میں اور ہمیں اپنی زندگی کو صحیح راستوں پر چلنے اور چلانے میں مددگار ہوں گے انشاء اللہ لہذہ آج کی تحریر میں جو پہلا واقعہ میں شامل کرنے کی سعادت حاصل کروں گا وہ ایک بادشاہ کا ہے یعنی کسی ملک کے بادشاہ نے ایک اعلان کیا کہ میں ایک بہت ہی عالیشان مسجد بنانا چاہتا ہوں اور اس مسجد میں کوئی شخص بھی حصہ نہیں ڈالے گا بلکہ اس مسجد کی تعمیر میں جتنا خرچہ آئے گا وہ میں دوں گا لہذہ مسجد کی تعمیر شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک انتہائی خوبصورت اور عالیشان مسجد تعمیر ہوگئی بادشاہ نے حکم دیا کہ اس مسجد کی دیوار پر انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اس کا نام لکھا جائے لہذہ بادشاہ کا نام لکھ دیا گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سارے دن کے معاملات سے فارغ ہوکر جب بادشاہ سونے کے لیئے لیٹا تو اسے گہری نیند نے آ لیا لیکن اسی گہری نیند میں اس نے ایک بڑا عجیب خواب دیکھا وہ دیکھتا ہے کہ مسجد کی دیوار پر لکھا ہوا اس کا نام مٹایا جارہا ہے اور اس کی جگہ کسی عورت کا نام لکھا جا رہا ہے وہ چونک گیا اور اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے اسی وقت خدام کو روانہ کیا کہ دیکھ کر ائو کہ یہ کیا ہورہا ہے تو اس خادم نے جب جاکر دیکھا تو وہاں بادشاہ کا نام ہی لکھا ہوا تھا لہذہ اس نے واپس آکر بادشاہ کو اطلاع دی کہ نہیں بادشاہ سلامت آپ نے کوئی ڈرائونہ خواب دیکھ لیا ہوگا دوسرے دن پھر بادشاہ نے پھر یہ ہی خواب دیکھا اور خادم کو بھیجا کہ جائو پھر خادم نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت مسجد کی دیوار پر آپ ہی کا نام لکھا ہوا ہے لیکن تیسرے دن جب یہ خواب بادشاہ نے دیکھا تو اسے خیال آیا کہ آخر یہ عورت ہے کون ؟ پھر اس نے اعلان کروادیا کہ اس نام کی عورت جو بھی ہو اسے میرے حضور پیش کیا جائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب اس عورت کو معلوم ہوا تو وہ خود بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوگئی اور عرض کرنے لگی کہ بادشاہ سلامت مجھ سے کیا غلطی ہوگئی ہے کیا خطا ہوئی ہے جو مجھے غریب کو غصہ میں آپ نے یاد کیا تو بادشاہ نے کہا کہ جب میں نے اعلان کیا تھا کہ مسجد کی تعمیر میں کوئی حصہ نہیں ڈالے گا تو تم نے کیوں حصہ ڈالا تو وہ عورت حیرت سے بادشاہ کو دیکھنے لگی اور عرض کیا کہ بادشاہ سلامت میں ٹہری ایک غریب عورت میرے پاس تو اپنے کھانے کے لالے پڑے ہوتے ہیں میں مسجد میں کیا حصہ ڈالوں گی تو بادشاہ نے پوچھا کہ اچھا یہ بتائو کہ مسجد کی تعمیر کے دوران کبھی مسجد کے معاملے میں تمہارا کسی قسم کا کوئی واسطہ پڑا تو وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی ہاں بادشاہ سلامت مجھے یاد آگیا کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے پوچھا گیا بتائو تو عرض کیا کہ جن جانوروں پر مسجد کی تعمیر کے لیئے سامان لاد کر لایا جاتا تھا تو وہ سارے جانور میری کٹیا یعنی میرے گھر کے سامنے سے گزرتے تھے لہذہ میں نے ان کے لیئے وہاں پانی کا بندوبست کیا ہوا تھا وہ وہاں رہتے اور پانی پیتے پھر تازہ دم ہوکر آگے چلے جاتے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ نے اس عورت کی زبان سے جب یہ بات سنی تو وہ حیران ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اللہ رب العزت کو اس کا یہ عمل اتنا پسند آیا ؟ یہ سوچ کر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اس نے اعلان کیا کہ جب اللہ تعالٰی تیرے کام سے خوش ہوکر مجھے روز خواب کے ذریعے یہ باور کروارہا ہے کہ مسجد کی دیوار پر میرا نہیں تیرا نام ہونا چاہئے تو میں کون ہوتا ہوں اپنا نام ڈالنے یا لکھوانے والا رب العزت کی مرضی اور منشاء ہی ہماری مرضی ہے اور مجھے اس کے حکم کی تعمیل کرنی چاہئے اور پھر اس نے حکم دیا کہ مسجد کی دیوار پر نام اس کا نہیں بلکہ اس عورت کا لکھ دیا جائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں جو قیمتی موتی ہمیں ملتے ہیں ان میں ایک تو یہ کہ نیکی بڑی ہو یا چھوٹی اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے کی جائے تو کبھی ضائع نہیں ہوتی دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مسجد کو بنوانے کا کام تو اہم تھا ہی لیکن اس سے زیادہ اس کی مخلوق پر رہم کرنا تھا یعنی مسجد کی تعمیر پر اس عورت کا کوئی دھیان نہیں تھا بلکہ اس نے تو مسجد کی تعمیر کے لیئے ضروری سامان کو لیجانے والے جانوروں کے بارے میں سوچا اور گرمی کی وجہ سے پانی پلانے کا انتظام کیا بس یہ ہی ادا اس رب کریم کو پسند آگئی اسی لیئے کہتے ہیں کہ نیکی کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو اسے کرگزرو اسے پکڑلو کہ بروز محشر وہ چھوٹی سی نیکی تمہارے سارے گناہوں پر بھاری پڑ سکتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کے دور میں جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو ہمارے ملک کے ہمارے شہر کے اور ہمارے علاقے کے سارے ہسپتال مریضوں اور بیماروں سے بھرے ہوئے ہیں اور لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلہ ہوکر وہاں مجبوری میں اپنا وقت گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں نہ وقت پر کھانا نہ وقت پر سونا اور اپنی طاقت اور توانائی سے زیادہ کام کرنے کا نتیجہ یہ ہی ہوتا جبکہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں ہسپتال نام جیسی کوئی جگہ موجود نہیں تھی اب دیکھیئے حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے ایک حدیث مبارکہ کو ایک حکایت کے ذریعے ہمیں سمجھانے کے لیئے کیا خوب بات لکھی کی حضور ﷺ کے زمانے میں ایک ملک کے بادشاہ نے سرکار مدینہ حضور ﷺ کے پاس ایک طبیب بھیجا اور عرض کیا کہ آپ ﷺ کے ساتھیوں کے علاج و معالجے کا کام سر انجام دیا کرے گا وہ طبیب ایک عرصہ تک وہاں رہا لیکن ایک بھی مریض نہیں آیا تب جاکر وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اتنے عرصے میں ایک بھی صحابی رسول ﷺ کسی بھی وجہ سے حاضر نہیں ہوئے میرا خیال ہے مجھے اجازت دیں تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ دراصل تم اپنی جگہ صحیح تھے لیکن " میرے لوگ جب تک بھوک میں شدت نہ ہو کھانا نہیں کھاتے اور پیٹ بھرجانے سے پہلے ہی اپنے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں " تو وہ آپ کے پاس کیسے آئیں گے تو طبیب نے کہا بیشک دراصل تندرستی کا اصل راز یہ ہی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ کی اس چھوٹی سی بات یا حکایت میں ہمارے لیئے کیسا قیمتی موتی ہمیں ملتا ہے کہ حضور ﷺ نے اس طبیب سے جو کچھ فرمایا وہ قیامت تک آنے والی اپنی امت کے لیئے ایک سبق ہے کہ جب تک بھوک کی شدت میں واقعی شدت نہ ہو تب تک کھانا نہیں کھانا چاہئے اور پیٹ بھرجانے سے پہلے ہی کھانے سے ہاتھ اٹھالیا جائے یقیناً نہ کبھی کوئی بیماری قریب آئے گی اور نہ ہی کسی طبیب یعنی آج کے دور کے حساب سے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے گا اب آپ خود اندازہ لگایئے کہ یہ ہماری صحت اور جسمانی تندرستی کے لیئے کتنی اہم اور ضروری بات ہے جو ہمیں حضرت شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ کی اس خوبصورت حکایت کے توسط سے اس حدیث مبارکہ سے ملی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک حدیث مبارکہ ہے کہ ماں باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہے معاف فرمادے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی میں ہی مل جائے گی۔
(شعب الایمان، 6/197، حدیث: 7890)
اس حدیث مبارکہ کے تحت ماں باپ کی نافرمانی کتنا بڑا جرم نظر آتا ہے اور یہ صرف ہمارے لیئے تنبیح نہیں ہے بلکہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں ، صحابہ کرام علیہم الرضوان کے زمانے میں اور اولیاء کرام وبزرگان دین کے زمانے میں بھی یہ بڑا گناہ مانا جاتا تھا اب دیکھیئے حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچا یہ میرا ساٹھواں حج تھا لیکن اس بار بڑا رش تھا بہت پبلک آئی ہوئی تھی ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے حج سے فارغ ہوا تو ایک دن اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے عرض کیا کہ اے میرے رب اتنے لوگوں نے حج کی سعادت حاصل کی کیا سب کا حج قبول ہوگیا ؟ اپنے ذہن میں یہ سوال لیکر میں پورا دن سوچتا رہا اور رات کو سوگیا خواب میں میں نے کسی کہنے والے کو کہتے سنا کہ سب کا حج قبول ہوگیا سوائے محمد بن ہارون بلخی کے یہ سن کر اچانک میری آنکھ کھل گئی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ مکہ مکرمہ میں ہر ملک کے الگ الگ خیمے لگے ہوئے ہوتے ہیں لہذہ میں بلخ کا خیمہ ڈھونڈتا ہوا وہاں تک پہنچا اور لوگوں سے ہارون بلخی کے بارے میں پوچھا تو لوگ کہنے لگے کہ وہ تو بڑا نیک اور پرہیز گار انسان ہے اور وہ لوگوں سے بہت کم ملتا ہے تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ مجھے یہ بتائو وہ اس وقت کہاں ملیں گے ؟ تو کہا کہ وہ سامنے اونچے پہاڑ پر انہوں نے اپنا خیمہ لگایا ہوا ہے اور وہ وہیں ہوتے ہیں حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں اس پہاڑ پر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ محمد بن ہارون بلخی مصلے پر بیٹھے ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہے اور ایک ہاتھ نہیں ہے یعنی کٹا ہوا ہے میری آہٹ سن کر کہنے لگے ائو تم مالک بن دینار ہو نا ؟ حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میں ان کی فراست دیکھ کر حیران ہوگیا اور سوچ میں پڑ گیا کہ جس کی لوگ تعریف کرتے نہیں تھکتے جو مجھے دیکھے بغیر مجھے پہچان لے کیا اس کا بھی حج اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں کیا ؟ اتنے میں وہ کہنے لگے کہ تم ضرور یہ پیغام لیکر آئے ہو کہ میرا اس بار بھی حج قبول نہیں ہوا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں محمد بن ہارون بلخی کی یہ بات سن کر حضرت فرماتے ہیں کہ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی میں نے پوچھا آخر ماجرہ کیا ہے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ چھوڑو یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے تو حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ نے پوچھا کہ لیکن مجھے پتہ تو چلے کہ آخر ایسا کیا سبب ہے کہ جب سارے لوگوں کا حج رب العالمین نے قبول کرلیا اور تمہارا نہیں مجھے بتائو ؟ تو محمد بن ہارون بلخی نے کہا کہ یہ میرا چوبیسواں حج تھا اور ہر مرتبہ اللہ تعالیٰ حج کے اختتام میں کسی نہ کسی ولی کو یہ پیغام لیکر میرے پاس بھیجتا ہے کہ جائو اسے کہدو کہ تیرا حج قبول نہیں ہوا اور وہ زاروقطار رونے لگے حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ نے پوچھا کہ آخر وجہ کیا ہے ؟ تو کہنے لگے کہ میں جوانی میں شراب بہت پیتا تھا ایک دن رمضان کے مہینہ تھا میں شراب کے نشے میں گھر آیا اور میں نے ماں کو تندور پر روٹی بناتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ ماں مجھے روٹی دے تو ماں نے کہا کہ شرم کر روزہ تو رکھا نہیں بدبخت لیکن جنہوں نے رکھا ہے کم از کم ان کا تو لحاظ کر کہنے لگا مجھے ماں کی بات پر غصہ آیا اور میں نے ماں کو تھپڑ مار دیا اور وہ جلتے ہوئے تندور میں جاگری لوگوں نے پکڑ کر مجھے ایک کمرے میں بند کردیا میں ساری رات شور سنتا رہا مگر نشے کی وجہ سے کچھ پتہ نہ چلا اور جب صبح میری آنکھ کھلی میں ہوش میں آیا تو دیکھتا ہوں کہ میری بیوی بیگ لیئے جارہی ہے تو میں نے پوچھا کہاں ؟ تو وہ کہنے لگی کہ جو شخص ماں کا نہ ہوا وہ میرا کیا ہوگا ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر میرے منہ سے نکلا کہ ماں ؟ تو بیوی کہنے لگی کہ ماں تو رات ہی تندور میں جل کر مر گئی اسی وقت یہ کہکر دنیا سے چلی گئی کہ اس کو میرا منہ نہ دکھانا محمد بن ہارون نے کہا کہ جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی میں نے ایک کلہاڑی اٹھائی اور اپنا ایک ہاتھ جس سے میں نے ماں کو تھپڑ مارا تھا کاٹ دیا وہ روتا ہوا حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ سے کہتا کہ میرے لیئے دعا کریں کہ رب العزت مجھے معاف کرے میں اب صرف اس کی عبادت کرتا ہوں روزے رکھتا ہوں لیکن وہ مجھے معاف نہیں کرتا حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی یہ بات سن کر اس کو تھپڑ رسید کردیا اور فرمایا کہ تجھے معاف کردے ؟ فرمایا ناممکن تیرے جیسے لوگوں کا یہ ہی انجام ہونا چاہئے یہ کہکر میں وہاں سے واپس آگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں جب رات کو سویا تو میرے نصیب جاگ گئے اور حضور اکرم ﷺ تشریف لائے فرمایا کہ اے مالک یہ تم نے کیا کردیا بجائے تسلی دینے کے تم اسے مایوس کرکے آگئے تو عرض کیا حضور ﷺ اس شخص کے ساتھ میں اور کیا کرتا تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ لیکن رب العالمین تو بڑا کرم کرنے والا ہے نا ؟ وہ بڑا کارساز ہے تم جائو اور اس سے کہو کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھے کیونکہ بروز محشر اس کی ماں کی بدولت ہی وہ بخش دیا جائے گا حضور ﷺ کی بات سن کر حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ نے عرض کیا کہ لیکن وہ کیسے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب بروز محشر اس کی ماں کو حاضر کیا جائے گا تو اس کے سامنے اس بدنصیب کو حاضر کیا جائے اور فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اس کو جہنم میں لے جائو فرشتے جب اس کو گھسیٹتے ہوئے لیکر جائیں گے تو وہ ماں کی طرف دیکھے گا لیکن ماں کچھ نہیں کہے گی دوسری مرتبہ فرشتے پھر لیکر جائیں گے تو وہ دوسری مرتبہ اپنی ماں کی طرف دیکھے گا لیکن ماں کچھ نہیں کہے گی پھر جب فرشتے اس کو لیکر جہنم کے بالکل قریب پہنچیں گے اور آگ کے شعلے دکھائی دینے لگیں گے تو وہ آخری بار ماں کی طرف دیکھے گا اور کہے گا کہ ماں مجھے آگ میں ڈالنے جارہے ہیں تب ماں کا دل تڑپ اٹھے گا اور وہ کہے گی اے اللہ میں اسے معاف کرتی ہوں تو بھی اسے معاف فرما ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ کے اس واقعہ سے ہمیں جو سب سے اہم بات ایک سنہرے موتی کی مانند سمجھنے کو ملتی ہے وہ آج کے دور کے حساب سے بڑی اہم ہے یعنی " ماں باپ کی نافرمانی" ایک نافرمانی کی بدولت کتنے کٹھن مراحل سے سزا کے طور پر گزرنا پڑا یعنی یہ وہ جرم ہے کہ اگر یہ جرم ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کی سزا ہمیں دنیا میں ہی دے دیتا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا رب بڑا کریم ہے بڑا رحیم ہے انتہائی مہربان ہے اگر شیطان کے بہکاوے میں آکر ہم سے یہ جرم ہو جائے تو ہمیں اپنی آخری سانس کے بند ہوجانے سے پہلے اپنے رب تعالیٰ سے توبہ کرنا ہوگی اور ہر وقت کرتے رہنا ہوگی اور اپنی پوری بقایا زندگی اسی شرمندگی اسی ندامت اور اسی توبہ واستغفار پر بسر کرنا ہوگی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ماں کی محبت کیا ہوتی ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارا رب ہمیں ستر مائوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہماری کوشش اور ہماری توبہ دنیا میں نہیں تو بروز محشر کام کر جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ہی ماں کی بدولت گناہوں سے پاک کرکے جنت میں داخلہ فراہم کردے انشاء اللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ نے دیکھا ہوگا کچھ لوگ بڑے درویش ہوتے ہیں اور آپ نے درویشوں کے متعلق کئی کہانیاں قصے اور واقعات سنے اور پڑھیں ہوں گے درویش کہتے کسے ہیں دراصل درویش فارسی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی فقیر، مفلس، محتاج، یا گوشہ نشین شخص کے ہیں، جو دنیاوی معاملات سے بے تعلق ہوکر صوفیانہ زندگی گزارتا ہے اور وہ اس لیئے کہ وہ اللہ کے راستے کا مسافر ہوتا ہے ایسے ہی ایک درویش کا بڑا اہم اور کچھ دے کر جانے والا واقعہ یہاں لکھنے کی سعادت حاصل کروں گا کسی ملک کا بادشاہ جب شکار کی غرض سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جنگل پہنچا تو ایک خطرناک سانپ نے اسے ڈس لیا شاہی طبیب اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود زہر کو جب بادشاہ کے جسم میں پھیلینے سے نہ روک پائے تو بادشاہ زارو قطار رونے لگا۔ اتنے میں ایک درویش سا شخص وہاں آیا۔ بادشاہ کو زہر کے درد سے تڑپتے ہوئے دیکھا تو بادشاہ کی ٹانگ پر جہاں سانپ نے کاٹا تھا تھوک دیا اور بھاگ گیا۔
بادشاہ کے سارے ساتھی بادشاہ کی فکر میں تھے اس لئے دیوانے کی اس حرکت پر کوئی بھی درویش کے پیچھے اُسے گرفتار کرنے نہ گیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شاہی طبیب نے تھوک صاف کرنے کے لئے ایک رومال پکڑا اور بادشاہ کی زہر سے نیلی ہوتی ٹانگ پر سے تھوک صاف کرنے لگا مگر پھر حیران ہوتے ہوئے رُک گیا، اُس نے انگلی سے تھوک کو سانپ کے ڈسے پر اچھی طرح مل دیا جس سے فوراً ہی زہر کا اثر زائل ہو گیا۔ اور تھوڑی ہی دیر میں بادشاہ ہوش میں آئے اور جب انہیں درویش کے تھوک کے قصے کا پتہ چلا تو بادشاہ نے فوراً حکم دیا کہ اس درویش کو فوراً ڈھونڈ کر حاضر کیا جائے۔ سپاہی چاروں طرف پھیل گئے اور تھوڑی ہی دیر میں درویش کو ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے دیکھا تو پکڑ لیا اور پکڑ کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا۔ بادشاہ نے بڑے ادب سے درویش سے کہا؛ ”ہم گناہ گاروں کی آنکھ آپ کو پہچان نہ سکی جس کے لئے میں معذرت چاہتا ہوں۔ آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری طرف سے یہ قیمتی پوشاک اور عربی گھوڑا قبول کیجیئے۔” درویش نے مسکرا کر بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا یہ گھوڑا اور پوشاک بہت قیمتی ہیں میں یہ پوشاک پہن کر اس گھوڑے کے لئے گھاس کاٹوں گا تو اچھا نہیں لگوں گا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں گھوڑے کے ساتھ خدمت گار بھی دیئے جائیں گے درویش بولا اتنی قیمتی پوشاک، قیمتی گھوڑے اور خادموں کے ساتھ میں رہوں گا کہاں اس دفعہ بادشاہ مسکرایا اور بولا آپ کے لئے ایک عالیشان رہائش گاہ بھی تعمیر کر دی جائے گی درویش نے پوچھا اتنے مال اور دولت اور خادموں کے ساتھ اس رہائش گاہ میں میں تنہا رہوں گا ؟ بادشاہ بولا حضور میری بیٹی شہزادی گُلنار کی شادی آپ سے کر دی جائے گی درویش بولا اگر آپ نے میری شادی کی تو پھر میرے بچے بھی ہوں گے بادشاہ نے جواب دیا بالکل ہوں گے، ہماری دعا ہے کے آپ کو کثیر اولاد ملے درویش بولا اگر اُن بچوں میں سے کسی بچے کو خدانخواستہ کُچھ ہو گیا یعنی وہ انتقال کرگیا تو پھر رونا کس کو پڑے گا بادشاہ نے جواب دیا حضور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو رونا تو پھر آپ کو ہی پڑے گا درویش مسکرا کر بولا اگر یہ سارا کُچھ لے کر مجھے رونا ہی پڑے گا، تو بادشاہ سلامت آپ اپنا گھوڑا اور قیمتی لباس واپس لے لیں، میں اپنی درویشی میں خوش ہوں اور وہ درویش یہ کہتے ہوئے بادشاہ کے دربار سے نکل گیا کہ " دل اسی سے لگاؤ جس نے دل بنایا ہے ، دنیا سے لگاؤ گے تو آنسو ہی ملیں گے "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مختصر واقعہ سے ہمیں جو قیمتی موتی یعنی سیکھنے کو ملا وہ یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کی چمک دمک اس کی رنگینیاں اور اس کی روشنیاں سب عارضی ہیں اس دنیا سے دل لگانے سے صرف آنسو ہی ملتے ہیں جبکہ جس مالک اور خالق نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے دل لگانے کا حق صرف اسی کا ہے اسی سے دل لگائو تاکہ دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں ہماری اس تحریر کا یہ پہلا حصہ تھا انشاء اللہ دوسرے حصے کو لیکر جلد ہی حاضر خدمت ہو جائوں گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں صرف اپنی ذات کی طرف مائل رکھے ہم اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے صرف اس کا ہی ذکر کریں اسی سے دل لگائیں مجھے سچ لکھنے ہمیں پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ مجھے دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھیئے گا ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 197 Articles with 182044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.