��سورہ آلِ عمران: 54 �
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
تاریخ کی کتابوں میں ظالموں کے منصوبے ہمیشہ بڑے منظم، مضبوط اور ناقابلِ شکست دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ دنیا کا اٹل قانون ہے کہ جب اللہ اپنی قدرت دکھانا چاہے تو بڑے سے بڑا مکر بھی ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ آج غزہ کی سرزمین اسی الٰہی حقیقت کی روشن مثال ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر وہ مظالم ڈھائے جن کی نظیر جدید انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اسکول، اسپتال، عبادت گاہیں اور پناہ گاہیں سب تباہ کی گئیں۔ عورتوں اور بچوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔ بجلی، پانی اور خوراک بند کر کے پوری آبادی کو بھوک اور پیاس پر مجبور کیا گیا۔ عالمی میڈیا میں فلسطینیوں کو ’’جانور‘‘ اور ’’وحشی‘‘ جیسے القاب دیے گئے تاکہ انسانیت کے ضمیر کو خاموش کیا جا سکے۔ دنیا نے دیکھا کہ بچوں کے چہرے مٹی اور خون میں اٹے ہوئے تھے، ماؤں کے ہاتھوں میں اپنے شہید بیٹے تھے، اور بزرگ اپنے ملبوں کے نیچے قرآن کے اوراق سمیٹ رہے تھے۔ یہ ظلم اور بربریت محض جنگ نہیں تھی — یہ انسانیت کے خلاف ایک کھلی بغاوت تھی۔ اسرائیل نے سمجھا کہ طاقت، اسلحہ، ٹینک اور ٹیکنالوجی سے وہ غزہ کے لوگوں کی روح توڑ دے گا۔ اس نے مکر کیا — کہ فلسطینیوں کو خوفزدہ کر کے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جائے۔ دنیا بھر کے بڑے طاقتور ممالک اس کے ساتھ تھے، اس کے دفاع میں بیانات دیے جا رہے تھے، اور غزہ کے مظلوموں کو دہشت گرد کہا جا رہا تھا۔ مگر یہ بھول گئے کہ اللہ کا وعدہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور پھر وہ ہوا جس کی کسی نے توقع نہیں کی تھی۔ غزہ کے انہی بظاہر کمزور، محصور اور بے سروسامان لوگوں نے صبر، ایمان اور حوصلے سے دنیا کے بڑے بڑے منصوبے الٹ دیے۔ وہ جو اپنے گرے ہوئے گھرون کے ملبے میں پلاسٹک کی چھت تان کر رہتے تھے، مگر ایمان کے قلعوں میں بستے تھے۔ وہ جو لاشوں کے درمیان بھی اذان دیتے تھے، اور ملبوں کے نیچے بھی "اللہ اکبر" کی صدا بلند کرتے تھے۔ اللہ نے ان کے دلوں میں عزم اور سکون اتارا۔ جو چند دن پہلے خوف زدہ تھے، وہ اب حق بات کہنے لگے۔ جن کے ہاتھ خالی تھے، ان کی زبانوں میں ایسی تاثیر دی گئی کہ دنیا سننے پر مجبور ہو گئی۔ دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو ہمیشہ اسرائیل کے حمایتی رہے، انہوں نے اعتراف کیا کہ *“حماس کے لوگ ہوشیار، بہادر اور بہترین مذاکرات کار ہیں۔” یہ جملہ تاریخ کا رخ بدلنے کے لیے کافی تھا۔ یہ اس الٰہی منصوبے کا ایک چھوٹا سا عکس تھا جس نے ظالموں کے مکر کو انہی پر پلٹا دیا۔ اسرائیل جو کبھی ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا، وہ مجبور ہوا کہ اپنی فوج کو غزہ سے واپس بلائے۔ دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں۔ جو میڈیا کل تک فلسطینیوں کو دہشت گرد کہہ رہا تھا، اب ان کی جدوجہد کو آزادی کی جنگ کہنے لگا۔ یہ سب کسی سیاسی چال، کسی طاقتور فوج یا کسی عالمی اتحاد کا نتیجہ نہیں تھا — یہ اللہ کے مکر کا نتیجہ تھا۔ جس نے ظلم کو رسوا کیا، اور مظلوم کو عزت بخشی۔ قرآن میں ارشاد ہے: "وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ" (اور انہوں نے مکر کیا، اور اللہ نے بھی تدبیر کی، اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔) — [سورہ آلِ عمران: 54] غزہ کی سرزمین آج اسی آیت کی زندہ تفسیر ہے۔ دنیا جان گئی کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اسلحہ نہیں، ایمان ہے۔ اور جو اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں، ان کے خلاف کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ |
|