سو حج کا سفر مکمل ہوا۔ ائر پورٹ روانگی
ہوٹل سے باہر بس میں بٹھایا گیاتھا۔ شکر ہے بخیریت پاسپورٹ واپسی کے لئے مل گیا تھا۔ گھنٹے کے سفر کے بعد مدینہ ائر پورٹ پر موجود تھے۔ پی آئی اے کے کاونٹر پر پاکستانی عملہ تھا جو سامان کا وزن کرنے کے لئے کھڑا تھا۔ بخیریت سامان بک ہو گیا مگر سامان کی بکنگ کی ٹکٹس ساری کی ساری میرے پاسپورٹ پر چپکا دی گئ تھیں۔
اب دل چاہ رہا تھا یا ایک انگزائٹی سی تھی کہ بار بار پاسپورٹ نکال کر دیکھوں کہ ٹکٹس پوری ہیں۔۔۔۔۔ پھر اگلے کاونٹر پر پہنچے جہاں پر مقامی عملہ تھا اور اس نے پاسپورٹ پر خروج کی مہر لگا دی تھی۔ مطلب اب گھر والوں تک پہنچنے میں صرف ایک جہاز کی اڑان کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ائر پورٹ پر بھی نوش جان ڈبے دئے گئے جن میں ڈرائی فروٹس سے بنی مٹھائیاں تھیں۔ سعودی جدید ترین ائر پورٹ سے نکل کر پی آئی اے کی ائر لائن کا جہاز موجود تھا۔ جس پر سوار ہوکر اب لینڈنگ کے بعد اپنے وطن پہنچ گئے تھے۔
میرے گھر والے اور میرا گینگ جو کہ بہن بھائی اور بھتیجی پر مشتمل ہے۔اسکو مل کر رونا آیا ۔ مگر خوشی ذیادہ تھی۔ ........
یہ سفر مکمل ہونے کے بعد آپ اصل میں اپنی زندگی کے نئے دور میں داخل ہو جاتے ہیں۔ آپ روحانی طور پر خود کو ذیادہ پر سکون محسوس کرنے لگتے ہیں۔ آپ کو لوگ حاجی یا حجیا /حاجن کہنے لگتے :) تو آپکو احساس ہوتا ہے آپکو اب اپنے نام کا بھی پاس رکھنا ہوگا۔
ہم سبھی انا اور ضد پر سوار ہو کر لوگوں کے ساتھ رویہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہم لوگ چھوٹے نہ پڑ جائیں جبکہ حقیقت میں زندگی میں آگے کامیابی سے چلنے کے لئے انا کو سب سے پہلے چھوڑنا پڑتا ہے اور حج ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ عام انسان جو نارمل روٹین کے کام کرنے والے ہوں گے وہ شاید ہی لگاتار پانچ دن اتنا تھکنا چاہیں جتنا کہ آپ حج کے مخصوص پانچ دن ارکان کی ادائیگی کے لئے تیار تھکتے ہیں۔
جو لوگ سرکاری حج کر رہے ہوں یا پرائیوٹ بھی کر رہے ہوں مگر حج کے پانچ دن سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے اور مزدلفہ کی رات تو خاص طور پر نہ کوئی خاص اور نہ ہی کوئی عام۔ سبھی کو اپنی پڑی ہے۔ سبھی کو اللہ یاد آرہا ہے۔ سر پر چھت نہیں ہے۔ کھانے پینے کی گارنٹی نہیں۔ دل میں گھر والوں کا ویسا خیال نہیں۔ پیچھے رہ جانے والے چھوڑ کر آںے والے سب کچھ دنوں کے لئے بھولنے لگتے ہیں۔
طواف کرتے ہوئے انسان کو یہی خیال رہتا ہے کہ اللہ کا گھر دیکھوں یا پڑھوں یا دعا مانگوں سعی کرتے ہوئے انسان آنسووں سے روتا ہے کہ میں کتنے اچھے مقام پر دوڑ رہا ہوں۔
آج حج کتنی سہولتوں کے ساتھ کرنا نصیب ہو رہا ہے۔
ہم سب کو ہی انفرادی بھی اور اجتماعی طور پر بھی بہت سارے manners and etiquette کا نہیں پتہ۔
لوگ دور دیہات سے آئے یا شہر سے بھی بہت سے معاملات میں وہ ایک ہی طرح کا رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ کھانے پہننے دوسروں سے بات کرنے پردے کا خیال چال چلن حال احوال بے شمار چیزیں انسان کی ذات اور شخصیت مل کر بناتی ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان پر کام کرنا ہی نہیں چاہتی۔ قطار میں انتظار کرنا کھانا ضرورت جتنا لینا لوگوں کو دھکا نہ دینا باتھ رومز کا استعمال ورکرز سے اچھا سلوک کوڑا نہ پھیلانا بے شمار ایسی چیزیں جن کو اپنانا اور سیکھنا ضروری ہے۔نہ صرف اچھا انسان بننے کو اچھا مسلمان بننے کے لئے بھی ضروری ہیں۔آخر کو سفر اور ایسا شاندار سفر اندرونی بہتری کے لئے بھی تو کیا جاتا ہے۔
مسلمان تو ہر عبادت چاہے نماز ہو یا زکوۃ اللہ کو راضی کرنے کے لئے کرتا ہے۔
سب سے بڑھ کر ایک سکالر کے بقول آپ زندگی بھر کی کمائی سے سکہ سکہ جوڑ کر وہاں تک پہنچے ہیں سو عبادت اس طرح کرکے آئیں جیسا کہ ادا کرنے کا حق ہے۔
|