پاک افغان تعلقات، بھائی چارے سے بداعتمادی تک

پاکستان اور افغانستان دو ہمسائے، دو مسلمان ملک اور دو قومیں ہیں جنہیں ایک عقیدہ، ایک تاریخ، ایک زبان اور ایک ثقافت نے جوڑا۔ لیکن افسوس، یہ رشتہ جس میں محبت، قربانی اور اعتماد ہونا چاہیے تھا، آج بداعتمادی، خوف اور شکووں میں بدل چکا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی کہانی دراصل امتِ مسلمہ کے اتحاد، قربانی اور سیاست کی ایک تلخ داستان ہے۔
1947 میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو وہ لمحہ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا موڑ تھا۔ مگر اسی لمحے ایک دکھ دینے والا واقعہ بھی ہوا۔ افغانستان وہ پہلا ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔ وجہ تھی ڈیورنڈ لائن، وہ سرحد جو آج بھی کابل کے لیے حساس ترین موضوع ہے۔ مگر اس کے باوجود پاکستان نے کبھی افغانستان کو دشمن نہیں سمجھا۔ اس نے ہمیشہ خیرسگالی اور بھائی چارے کا مظاہرہ کیا۔
1979 میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو دنیا کی بیشتر حکومتیں خاموش رہیں، لیکن پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے اپنے دروازے، اپنے دل اور اپنے وسائل افغان بھائیوں کے لیے کھول دیے۔ چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی گئی۔ انہیں رہائش، تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کیا گیا۔ پاکستان نے نہ صرف پناہ دی بلکہ عملی طور پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر افغانستان کو سوویت یونین کے تسلط سے آزاد کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ افغان مجاہدین کو دنیا “فریڈم فائٹرز” کہتی تھی، اور پاکستان ان کا سب سے بڑا سہارا تھا۔ دشمن ایک تھا — روس، اور پاکستان و افغانستان ایک ہی مورچے میں کھڑے تھے۔ کابل اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد اپنی انتہا پر تھا۔
یہ وہ دور تھا جب دونوں ملکوں کے درمیان ایک دینی و جذباتی رشتہ قائم ہوا۔ پاکستان میں افغان مجاہدین کے لیے چندہ جمع ہوتا، مساجد میں ان کے لیے دعائیں ہوتیں، اور ہر پاکستانی کو فخر ہوتا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن یہ اعتماد 2001 میں ٹوٹ گیا۔ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان ایک مشکل فیصلے کے سامنے تھا: یا تو امریکہ کا ساتھ دے یا دنیا سے کٹ جائے۔ اسلام آباد نے وہ فیصلہ کیا جو سفارتی مجبوریوں کے تحت ضروری تھا، لیکن اس فیصلے نے کابل کے دل میں شکوے کی دراڑ ڈال دی۔
افغان حکومتوں نے الزام لگانا شروع کیا کہ پاکستان طالبان کو خفیہ طور پر سہارا دیتا ہے، جبکہ پاکستان مسلسل یہ کہتا رہا کہ افغان سرزمین پاکستان دشمن گروہوں کے لیے پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ اس طرح ایک دوسرے پر اعتماد کا رشتہ ختم ہوا اور تعلقات الزامات کی منڈی میں داخل ہو گئے۔ 2021 میں جب امریکہ افغانستان سے نکلا اور طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے انہیں تسلیم کیا اور کہا کہ یہ افغانوں کا اپنا فیصلہ ہے۔ اسلام آباد نے اعتماد، امید اور بھائی چارے کے جذبے سے نئی حکومت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کی۔ مگر جلد ہی حالات بدلنے لگے۔
سرحدی جھڑپیں بڑھ گئیں، دہشت گردی کے واقعات دوبارہ شروع ہو گئے۔ پاکستان نے بارہا شکوہ کیا کہ افغانستان کی سرزمین سے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کیے جا رہے ہیں، لیکن کابل نے خاموشی اختیار کر لی۔ جن طالبان کو پاکستان نے دنیا کی مخالفت کے باوجود سپورٹ کیا، وہی طالبان اب پاکستان کے خلاف بیانات دینے لگے۔ سوال یہ ہے کہ طالبان حکومت کے رویے میں یہ اچانک تبدیلی کیوں آئی؟ اس کے پیچھے ایک پرانا اور مستقل عنصر ہے — بھارت۔ بھارت نے ہمیشہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔
کابل میں بھارتی قونصل خانے، خفیہ نیٹ ورکس، اور این جی اوز برسوں سے پاکستان مخالف پروپیگنڈا کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق بھارت، بعض مغربی عناصر اور چند خلیجی گروہ افغانستان میں موجود نیٹ ورکس کو فنڈ کرتے ہیں جو پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ طالبان حکومت کے اندر بھی کچھ دھڑے ایسے ہیں جو بھارت سے تعلقات بحال کرنے کے خواہشمند ہیں۔ یہی عناصر اس تعلقات کو مزید خراب کر رہے ہیں۔
افغانستان کی موجودہ ڈیمانڈز بھی اسی سیاسی الجھن کا حصہ ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ پاکستان ڈیورنڈ لائن کو باضابطہ طور پر بین الاقوامی سرحد تسلیم نہ کرے اور سرحد پار قبائل کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے اور ان کے لوگوں کو واپس آنے دیا جائے۔ لیکن پاکستان کے لیے یہ ناقابلِ قبول ہے۔ کیونکہ یہ ریاستی خودمختاری اور قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ پاکستان نے صاف کہا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
دوسری طرف افغانستان یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ خیبر پختونخوا کی عوام اس کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ کے پی کے کی اکثریت پاکستان، پاک فوج اور امن کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کے قبائل اور افغانستان کے درمیان تاریخی، ثقافتی اور خاندانی تعلقات ضرور ہیں مگر سیاسی وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے۔ وہ افغانستان نہیں بلکہ پاکستان کے پرچم کے نیچے جینا چاہتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں شدید کشیدگی کے بعد پاک افغان سرحد پر 48 گھنٹے کی جنگ بندی اگرچہ ایک وقتی سکون لائی ہے، مگر یہ امن نہیں۔ یہ محض ایک وقتی خاموشی ہے۔ جب تک افغانستان اپنی زمین دہشت گرد گروہوں سے صاف نہیں کرتا، حقیقی امن ممکن نہیں۔ اگر دوبارہ جنگ چھڑ گئی تو سب سے زیادہ نقصان افغانستان کو ہی ہوگا، کیونکہ پاکستان کے پاس نہ صرف طاقت بلکہ تجربہ بھی ہے۔
بھارت اس صورتِ حال سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو بھارت اپنی سرحدوں پر سکون سے بیٹھ کر سیاسی اور عسکری فائدہ حاصل کرتا ہے۔ یہ پرانی حکمتِ عملی ہے — مسلمانوں کو آپس میں لڑاؤ، خود تماشا دیکھو۔ اگر افغانستان اور پاکستان لڑتے ہیں تو خطے کی سیکیورٹی کمزور ہوتی ہے اور بھارت کے لیے موقع پیدا ہوتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف مہم چلا سکے۔
اصل سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ حل صرف ایک ہے — فہم، فراست اور مذاکرات۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو الزام تراشی کے بجائے ایک میز پر بیٹھنا ہوگا۔ دہشت گردی دونوں کے لیے مشترکہ خطرہ ہے، اس کے خلاف مل کر لڑنا ہوگا۔ چین، ترکی یا قطر جیسے ممالک ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر حقیقی امن کابل اور اسلام آباد کو خود قائم کرنا ہوگا۔
پاکستان نے افغانستان کو روسی تسلط سے آزاد کرایا، لاکھوں افغانوں کو پناہ دی، ان کی نسلوں کو تعلیم اور عزت دی۔ اب وقت ہے کہ افغانستان بھی اس بھائی چارے کا جواب خیرسگالی سے دے۔ اسلام کہتا ہے: "المسلم اخو المسلم" — مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ دونوں ملک نفرت کی راکھ سے محبت کا چراغ جلائیں، کیونکہ امن ہی وہ واحد فتح ہے جو سب کے لیے باعثِ فخر ہے۔
“Peace is the only victory worth winning.”
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 135 Articles with 155527 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More