اللہ کی قدرت اور سائنس کا کمال !! بغیر باپ کے پیدائش کا راز۔
(IBY-Ismail Bin Yousuf, Karachi)
| تحقیقی سوال یہ ہے کہ کیا کبھی دنیا میں بغیر ماں یا باپ کے کوئی انسان پیدا ہوا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھانے کے لیے انسان کی تخلیق کے چار الگ طریقے ظاہر کیے بغیر ماں باپ کے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا صرف آدم سے حضرت حواؑ کو بنایا صرف ماں سے حضرت عیسیٰؑ کو پیدا کیا اور باقی تمام انسانوں کو ماں باپ دونوں سے پیدا کیا تاکہ انسان سمجھے کہ اللہ ہر طرح کی تخلیق پر قادر ہے سائنس آج کل cloning یا artificial reproduction کے ذریعے زندگی کے کچھ مراحل کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے مگر وہ بھی اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں کے اندر ہے کیونکہ زندگی دینے والی اصل قوت انسان کے پاس نہیں بلکہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے اسی لیے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ایک منفرد اور ایک بار ہونے والا معجزہ تھی |
|
|
اللہ کی قدرت اور سائنس کا کمال – بغیر باپ کے پیدائش کا راز
یہ واقعہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گود میں بول کر اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کی پاکیزگی کی گواہی دی قرآن میں سورۃ مریم میں بیان ہوا ہے اور بعض لوگ اسے عقلی یا سائنسی لحاظ سے ناممکن سمجھتے ہیں حالانکہ اگر سائنسی زاویے سے دیکھا جائے تو یہ واقعہ کسی سائنسی قانون کے خلاف نہیں بلکہ ایک نایاب rare اور غیر معمولی extraordinary واقعہ ہے جس کی مثالیں طب اور نیوروسائنس میں محدود پیمانے پر دیکھی جا سکتی ہیں انسان کے دماغ میں بولنے کی صلاحیت مخصوص حصوں میں موجود ہوتی ہے جنہیں Broca’s area اور Wernicke’s area کہا جاتا ہے یہ حصے عموماً بچے میں ایک سال کی عمر کے بعد پوری طرح فعال ہوتے ہیں لیکن سائنس یہ مانتی ہے کہ دماغ میں ایک خاص لچک neuroplasticity ہوتی ہے یعنی نیورونز اپنی کارکردگی کو ماحول یا کسی اچانک trigger کے تحت وقتی طور پر تبدیل کر سکتے ہیں اس بنیاد پر کسی بچے میں عارضی طور پر ایسا neural activation پیدا ہونا ممکن ہے جو چند لمحوں کے لیے speech system کو متحرک کر دے دنیا میں کئی documented cases موجود ہیں جن میں coma کے مریض اچانک بولے اور پھر دوبارہ خاموش ہو گئے یا brain injury کے بعد ایک لمحے کے لیے مکمل جملہ ادا کیا پھر واپس اسی حالت میں چلے گئے یہ ظاہر کرتا ہے کہ دماغ میں کبھی کبھی ایسا short term neurological impulse پیدا ہو جاتا ہے جو انسان کو وقتی طور پر بولنے کے قابل بنا دیتا ہے فزکس کے لحاظ سے بولنا صرف ہوا کے گزرنے اور vocal cords کے vibration کا نتیجہ ہے اگر وہ نظام چند لمحوں کے لیے فعال ہو جائے تو آواز اور جملہ بن سکتا ہے اس میں کسی فطری قانون کی نفی نہیں ہوتی بس عام حالات میں یہ activation ممکن نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ قرآن کا بیان کردہ واقعہ سائنسی اصولوں کے خلاف نہیں بلکہ ان کے دائرے سے باہر ہے یعنی science اس کی وضاحت نہیں کر سکتی مگر یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ ناممکن ہے جیسے کچھ لوگ near death experiences میں روشنی دیکھنے یا ماضی کے مناظر دیکھنے کی اطلاع دیتے ہیں سائنسی آلات انہیں measure نہیں کر پاتے مگر یہ phenomena recorded ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بولنا بھی ایک single event phenomenon ہے جو مخصوص مقصد یعنی مریم کی براءت ظاہر کرنے کے لیے پیش آیا اگر ہم purely منطقی بنیاد پر دیکھیں تو اس واقعے میں کوئی contradiction نہیں موجود یعنی بولنا ممکن ہے اور خاموش ہو جانا بھی ممکن ہے جیسے کوئی مریض یا coma patient اچانک ہوش میں آ کر بولتا ہے اور پھر واپس بے ہوشی میں چلا جاتا ہے science ایسے واقعات کو rare neuro events کہتی ہے قرآن کا بیان بھی ایک ایسے ہی unique moment کی نشاندہی کرتا ہے جو خالق نے مخصوص حکمت کے تحت ظاہر کیا اس لیے اگر کوئی شخص صرف repeatable laboratory proof مانتا ہے تو اسے سمجھانا چاہیے کہ science historical singularities کو test نہیں کرتی بلکہ repeatable phenomena کو دیکھتی ہے لہٰذا قرآن کا واقعہ scientifically impossible نہیں بلکہ scientifically unverifiable ہے اور logically possible ہے یعنی عقل اسے جھوٹا نہیں کہہ سکتی بلکہ صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ہماری روزمرہ کی biology سے مختلف ہے مگر ناممکن نہیں بالکل ویسے ہی جیسے کوئی ایک شخص سمندر میں گر کر زندہ بچ جائے اور ہزاروں نہ بچیں تو ہم کہیں گے کہ یہ rare event ہے مگر impossible نہیں یہی سائنسی اور منطقی زاویے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گود میں بولنے کی معقول وضاحت ہے
اس تحقیق کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قرآن میں جو معجزے بیان ہوئے ہیں وہ کوئی اندھی عقیدت یا بے معنی باتیں نہیں ہیں بلکہ اگر ہم انہیں سمجھنے کی صحیح کوشش کریں تو یہ بات عقل اور سائنس دونوں کے اصولوں کے خلاف نہیں جاتی یہ تحریر یہ سمجھانے کے لیے لکھی گئی ہے کہ ایمان اور سائنس ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ ایک دوسرے کو بہتر سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں ہر وہ چیز جو ہم آج اپنی لیبارٹری میں بار بار کر کے نہیں دکھا سکتے وہ غلط نہیں ہوتی بلکہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہماری موجودہ سمجھ سے اوپر کی ہوتی ہیں ایمان ان چیزوں کو مانتا ہے جو ممکن تو ہیں مگر غیر معمولی لگتی ہیں اور یہی اس واقعے کی اصل بات ہے کہ اللہ نے ایک خاص وقت پر ایک خاص مقصد کے لیے یہ معجزہ دکھایا تاکہ لوگ مریم کی پاکیزگی پر شک نہ کریں
اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ سے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰؑ کو پیدا کرنے کا فیصلہ محض ان کی پاکیزگی ثابت کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے کئی بڑی حکمتیں تھیں۔ آئیے آسان الفاظ میں سمجھتے ہیں:
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی غیر معمولی بات ظاہر کرتا ہے تو اس کا مقصد انسان کو یاد دلانا ہوتا ہے کہ اصل طاقت صرف اسی کے پاس ہے۔ جیسے اللہ نے حضرت آدمؑ کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا، اور حضرت حواؑ کو آدمؑ سے پیدا کیا، ویسے ہی حضرت عیسیٰؑ کو بغیر باپ کے پیدا کیا تاکہ انسان یہ نہ سمجھے کہ اولاد صرف مرد و عورت کے ملنے سے ہی ہوسکتی ہے۔ اللہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ وہ قدرت کا مالک ہے، وہ چاہے تو ایک “نطفے” سے انسان بنا دیتا ہے، چاہے تو بغیر نطفے کے بھی بنا سکتا ہے۔
دوسری حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں اُس وقت بہت بگاڑ آچکا تھا۔ وہ نبیوں کو جھٹلاتے تھے، مذہب کو دنیاوی فائدے کے لیے بدل رہے تھے، اور معجزات پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا معجزہ ظاہر کیا جو عقل سے بالاتر تھا تاکہ ان کے سامنے واضح ہو جائے کہ خدا انسان کے اصولوں میں قید نہیں۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ حضرت مریمؑ کو عزت دینا چاہتے تھے۔ ان پر الزام لگانے والے لوگ یہ دیکھ لیں کہ اللہ خود ان کے بیٹے کی زبان سے مریمؑ کی پاکیزگی کی گواہی دلوا رہا ہے۔ یہ اس بات کا نشان تھا کہ اللہ اپنے نیک بندوں کی عزت خود محفوظ رکھتا ہے۔
اور سب سے بڑی حکمت یہ تھی کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش خود “نبی” کے آنے کی علامت تھی، جو رحمت، ایمان، اور اللہ کی قدرت کی یاد دہانی کے لیے دنیا میں بھیجے گئے۔ اگر حضرت مریمؑ کی شادی ہو جاتی، تو یہ غیر معمولی واقعہ کبھی پیش نہ آتا، اور انسان شاید کبھی یہ نہ سمجھ پاتا کہ قدرتِ خدا انسان کے سمجھ سے کہیں بڑی ہے۔
مختصر یہ کہ یہ واقعہ اس لیے ہوا کہ: اللہ اپنی قدرت ظاہر کرے مریمؑ کی پاکیزگی واضح ہو لوگوں کے بگڑے عقائد درست ہوں حضرت عیسیٰؑ کو ایک خاص نشانی کے طور پر دنیا میں بھیجا جائے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک پیغام تھا: کہ اللہ چاہے تو "ناممکن" بھی ممکن کر دیتا ہے، تاکہ انسان یقین کرے کہ اصل اختیار صرف اسی کے ہاتھ میں ہے
تحقیقی سوال یہ ہے کہ کیا کبھی دنیا میں بغیر ماں یا باپ کے کوئی انسان پیدا ہوا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھانے کے لیے انسان کی تخلیق کے چار الگ طریقے ظاہر کیے بغیر ماں باپ کے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا صرف باپ سے حضرت حواؑ کو بنایا صرف ماں سے حضرت عیسیٰؑ کو پیدا کیا اور باقی تمام انسانوں کو ماں باپ دونوں سے پیدا کیا تاکہ انسان سمجھے کہ اللہ ہر طرح کی تخلیق پر قادر ہے سائنس آج کل cloning یا artificial reproduction کے ذریعے زندگی کے کچھ مراحل کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے مگر وہ بھی اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں کے اندر ہے کیونکہ زندگی دینے والی اصل قوت انسان کے پاس نہیں بلکہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے اسی لیے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ایک منفرد اور ایک بار ہونے والا معجزہ تھی جو اس بات کی نشانی ہے کہ قدرت کے نظام کو انسان مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ ایسے واقعات آج بھی جانوروں میں ہوتے ہیں کہ بغیر نر یا مادہ کے بچے پیدا ہو جاتے ہیں اس عمل کو سائنسی زبان میں parthenogenesis کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے بغیر نر کے مادہ کے ذریعے نئی زندگی کا آغاز ہونا یہ ایک سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے اور اسے دنیا کی مختلف تحقیقاتی لیبارٹریوں میں مشاہدہ کیا گیا ہے مثال کے طور پر 2006 میں لندن کے Chester Zoo میں ایک مادہ Komodo dragon نے بغیر نر کے انڈے دیے جن سے بچے پیدا ہوئے 2007 میں Kansas Aquarium میں ایک Hammerhead shark نے بھی بغیر نر کے بچے پیدا کیے اور DNA testing سے ثابت ہوا کہ یہ بچے صرف مادہ سے پیدا ہوئے تھے 2010 میں Biology Letters کے مطابق ایک Boa constrictor سانپ میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا جہاں مادہ نے خود سے genetic reproduction کی اسی طرح چیونٹیوں مکھیوں اور aphids جیسے کیڑوں میں بھی parthenogenesis عام ہے جہاں ملکہ بغیر نر کے نئی نسل پیدا کرتی ہے یہ سب قدرتی حیاتیاتی نظام کا حصہ ہیں جو اللہ نے اپنی مخلوق میں رکھا ہے تاہم انسانوں میں ایسا عمل فطری طور پر ممکن نہیں اور جب حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تو وہ حیاتیاتی اصولوں کے تحت نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے بطور معجزہ ظاہر ہوئی تاکہ انسان سمجھ سکے کہ قدرت کے قوانین بھی اسی کے اختیار میں ہیں اور وہ جب چاہے ان سے ماورا ہو کر کچھ بھی کر سکتا ہے
تحریر و تحقیق: آئی بی وائی |
|