پاکستان کی خون آلود سڑکیں

جب دنیا کے بڑے شہروں کی سڑکیں غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں گواہی دے رہی ہوں،  لندن سے نیویارک  اور برلن سے سڈنی تک اسرائیلی ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہو!
 تو سوال یہ ہے کہ اسی ظلم کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں کچھ دیدہ و نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں پاکستان کی سڑکیں کیوں خون سے رنگین ہو رہی ہیں؟ پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کی یہ تحریر فقط ایک سانحہ کی روداد نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ پڑھیے، سوچیے، اور فیصلہ کیجیے کہ ہم کیسا پاکستان چاہتے ہیں ۔۔۔ غلامی کی زنجیروں میں میں جکڑا ہوا، خوف زدہ ۔۔۔ یا پھر ۔۔۔
 آزاد و باوقار پاکستان؟
پاکستان کی خون آلود سڑکیں

پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ لندن کی ٹریفلگار اسکوائر سے لے کر پیرس کی ایفیل ٹاور کے سائے میں، برلن کی برانڈن برگ گیٹ سے گزرتے ہوئے نیویارک کی ٹائمز اسکوائر، واشنگٹن کی قومی مال، سڈنی کی اوپیرا ہاؤس، کیپ ٹاؤن کی گرین مارکیٹ اور لاطینی امریکہ کے شہروں جیسے بوئنوس ایریس اور میکسیکو سٹی تک لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں۔ مسلمان، عیسائی، یہودی، بدھ مت کے پیروکار، ہندو اور لا دین افراد۔ ان سب نے ایک ہی صدا بلند کی: "مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کی طرف سے کیا جانے والا ظلم فوراً بند کرو!" ان مظاہروں میں فلسطینی جھنڈے لہراتے نظر آئے، نعرے گونجے اور بینرز پر لکھا تھا کہ "غزہ کے مظلوموں کا قتل عام انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے"۔
ان ممالک کی حکومتوں نے امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب انتظامی اقدامات ضرور کیے، جیسے روٹس کی بندش، سیکیورٹی چیک پوائنٹس کی تنصیب اور ٹریفک کی ڈائی ورژن وغیرہ مگر کسی نے بھی اظہار رائے کا دروازہ سختی سے بند نہیں کیا۔ برطانیہ میں میٹرو پولیٹن پولیس نے مظاہرین کو تحفظ فراہم کیا، جرمنی میں برلن پولیس نے پرامن احتجاج کو سیکورٹی دی اور امریکہ میں نیویارک کی پولیس نے صرف انتہا پسند عناصر پر نظر رکھی لیکن مظاہرین کو آزادانہ طور پر اپنا احتجاج کرنے دیا۔ کچھ ریاستوں نے تو اس اختلاف کو بھی برداشت کیا جہاں مظاہرین نے اسرائیلی سفارت خانوں کے سامنے احتجاج کیا یا فلسطینی حمایت میں "Artistic Performances" (فنکارانہ مظاہرے) کیے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان ابھی تک اس جمہوری شعور تک نہیں پہنچ سکا۔ یہاں اختلاف کو بغاوت، احتجاج کو جرم اور عوامی آواز کو خطرہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ 13 اکتوبر 2025 کو ایک رجسٹرڈ سیاسی و مذہبی جماعت (TLP) کے کارکنوں نے فلسطین کے حق میں اسلام آباد کی جانب احتجاجی مارچ کا اعلان کیا۔ مقصد بالکل واضح اور نہایت سادہ تھا کہ عالمی سطح پر فلسطینی مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا۔ یہ مارچ جو پرامن اور منظم ہونا تھا اچانک خون کی ندی میں تبدیل ہو گیا۔ مریدکے میں ریاستی مشینری نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ، آنسو گیس کے دھوئیں اور لاٹھی چارج کے ہر منظر نے ظلم کی اک نئی داستان رقم کی۔ ایک پولیس افسر اور مظاہرین سمیت کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بے شمار زخمی ہوئے، جن میں سے کئی کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ مریدکے کی سڑکوں پر جلی ہوئی گاڑیاں، ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکلیں، خون آلود شہریوں کی تصاویر اور دھوئیں کے گھنے بادل اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ آخر کیوں وطن عزیز پاکستان میں اختلاف کی ہر آواز کو بندوق کی نذر کر دیا جاتا ہے؟ بالفرض اس احتجاج کا وقت مناسب نہ تھا یا حالات نازک تھے تو کیا پولیس کی فورس، روٹ ڈائی ورژن یا ڈائیلاگ کی راہ اختیار نہیں کی جا سکتی تھی؟ یہ سب سوالات نہ صرف TLP کے کارکنوں کے ذہنوں میں بلکہ ہر با شعور پاکستانی کے دل میں گھوم رہے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے اس کارروائی کو "نہتے شہریوں پر طاقت کا بے جا استعمال" قرار دیتے ہوئے فوری اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ مگر افسوس کہ یہ مطالبہ بھی شاید دیگر سانحات کی طرح فائلوں کی دھول میں دفن ہو جائے گا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ 2021 میں TLP کے مظاہرے کے دوران بھی درجنوں کارکن ریاستی فائرنگ سے شہید ہوئے تھے۔ اس سے قبل 2014 کا سانحہ ماڈل ٹاؤن، جہاں خواتین اور بچوں سمیت 14 افراد کی لاشوں نے ریاست کی بے حسی کو بے نقاب کیا یا 2024 کا پاکستان تحریک انصاف (PTI) کا مارچ، جہاں گولی چلی، لوگ قتل ہوئے اور ہزاروں کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ یہ اور اس طرح کے اور بھی کئی ایک وطن عزیز پاکستان کے باشندوں کے خون میں لکھے گئے وہ رنگین ابواب ہیں جو ہر پاکستانی کی یادداشت میں تازہ ہونے کی وجہ سے کوفت کا باعث ہیں۔
اتنے بے گناہ انسانوں کا خون بہا کر بھی کیا دیدہ و نادیدہ قوتوں کا کلیجہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا؟ ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال ہے اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ قوتیں ہیں کون جو ریاست کو اس حد تک کنٹرول کیے ہوئے ہیں کہ اس کے پاس گولی کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہ بچتا؟ کیا یہ داخلی سیاسی دباؤ ہے، منکرین ختم نبوت کی ریشہ دوانیاں ہیں یا عالمی سطح پر چلنے والے جیو پولیٹیکل کھیل ہے؟ یہ سوالات نہ صرف صحافتی حلقوں میں بلکہ سوشل میڈیا اور عوامی مباحثوں میں بھی گونج رہے ہیں۔
یاد رکھیں کہ طاقت کے بے جا استعمال سے وقتی امن تو لایا جا سکتا ہے، مگر عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔ TLP کے کارکن زیادہ تر متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ علماء، مزدور، طالب علم، کاریگر، دکاندار اور عام شہری ہیں۔ جب انہی پر گولی چلتی ہے تو صرف جسم زخمی نہیں ہوتے بلکہ قوم کا دل بھی لہو لہان ہو جاتا ہے۔ ریاست اور عوام کا رشتہ ازلی دشمنی کا نہیں بلکہ ماں بیٹے کا ہونا چاہیے۔ ماں غلطی پر سمجھاتی ہے، گلے لگاتی ہے، معاف کرتی ہے، مگر کبھی بندوق نہیں اٹھاتی۔ جب ماں ہی قاتل بن جائے تو یقیناً وہ گھر، گھر نہیں رہتا بلکہ مقتل بن جاتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ معاشرے اختلاف کو برداشت کرتے ہیں اور اسے جمہوریت کی روح سمجھتے ہیں۔ وہاں کسی کو "ریاست دشمن" نہیں کہا جاتا۔ وہاں حب الوطنی کا مطلب اندھی وفاداری نہیں بلکہ سچ بولنے کا حوصلہ، تنقید کرنے کی آزادی اور مثبت تبدیلی کی جدوجہد ہے۔
ریاست پاکستان کے اربابِ اختیار کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ رٹ گولی سے نہیں، انصاف، مساوات اور شفافیت سے قائم ہوتی ہے۔ آج ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم کیسا "اسلامی جمہوریہ پاکستان" چاہتے ہیں؟ جس میں عوام خوف کے سائے میں زندگی گزاریں یا جس میں باہمی اعتماد، احترام اور مکالمے کی فضا قائم ہو؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ طاقت وقتی رعب تو قائم کر سکتی ہے مگر عوام الناس کے دلوں کی وفاداری حاصل نہیں کر سکتی۔ اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا اور ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کی تو ہماری خاموشی کو ظلم کی تائید سمجھا جائے گا۔ طاقت اور خوف سے دنیا کو عارضی طور پر زیر کیا جا سکتا ہے، مگر مستقل تبدیلی کے لیے محبت، انصاف اور سچائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کی بنیادیں ہمیشہ کمزور ہوتی ہیں، جبکہ سچائی اور عدل ہی دلوں کو جوڑتے اور پائیدار تبدیلی لاتے ہیں۔ فرعون، نمرود اور یزید جیسے ظالم اپنے وقت میں طاقتور تھے۔ انہوں نے قتل و غارت گری کی راہ اختیار کی اور آخر کار تباہ و برباد ہوئے۔ لھذا اے دیدہ و نادیدہ قوتو اور ارباب اختیار! ظلم سے باز آجاؤ، مظلوم کی آہ سے بچو کیوں کہ وہ عرشِ الٰہی کو بھی ہلا دیتی ہے۔ آخرت کی فکر کے ساتھ انصاف کو اپنا شعار بناؤ کیونکہ اللہ ظلم کرنے والوں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 237 Articles with 284707 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More