*اگر والدین کی عزت اور خدمت کرو گے تو حج تمھارے گھر آیا وا ہے*



*اگر والدین کی عزت اور خدمت کرو گے تو حج تمھارے گھر آیا وا ہے*



انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ


اکثر بیٹے ہمیشہ ماں کو ہی آگے گاڑی کی سیٹ پر بٹھاتے ہیں، کیا اسلامی معاشرے میں گاڑی کی اگلی سیٹ پر ماں کا حق یا بیوی کا؟

ماں کی عظمت سے کون واقف نہیں، ماں باپ وہ ہستی ہیں جو اولاد کے لئے ہر تکلیف اٹھانے کو تیار رہتے ہیں، ان کے لئے جان بھی قربان کردیتے ہیں۔ ماں ہو یا باپ ان کی عزت اولاد کا فرض ہے۔ لیکن افسوس یہی اولاد جس کے لئے ماں باپ اپنا سب کچھ تج دیتے ہیں وہ جب کسی قابل ہوتی ہے تو ان والدین کو تکلیف پہنچانا اپنا حق سمجھتی ہے۔ گذشتہ دنوں ایک نجی چینل نے ایک سوشل میڈیا ٹرینڈ چلایا کہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ماں کا حق ہے یا بیوی کا حق ہوتا ہے، جس پر لوگوں کی بھی رائے لی گئی تو لوگوں کا کہنا تھا کہ فرنٹ سیٹ پر اگر ماں حیات ہے تو ماں کا حق ہے کیونکہ ماں تو ایک ہی ہوتی ہے۔ ماں کا رتبہ بڑا ہے۔ ماں تو بیوی سے اوپر ہی ہوتی ہے ہم تو اپنی ماں کو ہی آگے بٹھائیں گے۔

لیکن عام طور پر دیکھنے میں اس سے الٹ ہی آتا ہے سب لوگ اپنی بیویوں کو ہی آگے بٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ ہمارا عمومی رویہ ہے۔ کیونکہ بیویاں بھی برا مانتی ہیں اگر شوہر اپنی ماں کو آگے بٹھانے کی بات کرے تو۔ جبکہ کچھ گھرانوں میں اب بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ ماں کی واقعی میں عزت کی جاتی ہے اس کو وہ مقام اور رتبہ دیا جاتا ہے کہ کچھ بھی ہو ماں کی بات ہر حال میں پوری بھی کیا جاتی ہے اور مانی بھی جاتی ہے اور اسی طرح گاڑی کی فرنٹ سیٹ ماں کے لئے رکھی جاتی ہے۔

یہی ہونا چاہیے اور جو بھی خاندانی لڑکی ہو گی وہ اپنی ساس کو ہی آگے بٹھائے گی، جس لڑکی کی تربیت اور خاندانی گھرانے سے ہوگی اُسکی تربیت اچھی ہی ہوگی وہ لڑکی اپنے شوہر کی ماں کو بھی عزت دے گی، کیونکہ جس ماں نے اپنے بچے کو پال پوس کر اس قابل بنایا کہ وہ آج اس لڑکی کا شوہر ہے تویہ اس ماں کا ہی حق ہے کہ وہ آگے بیٹھے۔ اور جو لڑکی ایسا کرنے پر منہ بنائے اسے تو گاڑی سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ بلکہ اُسے آئندہ گاڑی میں بھی نہیں بیٹھانا چاہیے بہت سی بہو بہت اچھی ہوتیں ہیں اور ادہر اعتراض بھی نہیں کرتیں اور دیکھا گیا اکثر بیٹے بھی ہمیشہ ماں ہی کو آگے بٹھاتا پسند کرتے ہیں اور یہ ان پر فرض بھی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ماں خود ہی بہو کو کہے کہ تم آگے بیٹھو میں پیچھے بیٹھوں گی 90 فیصد لوگ اپنی ماؤں کو ہی آگے بٹھائیں گے،10 فیصد ہی ایسے بے غیرت بیٹے ہوں گے جو ایسا نہیں کریں گے، لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں حج کرنا ہے حج تو آپ کے گھر میں ہوجائے گا اگر آپ اپنی ماں کی عزت اور خدمت کرو گے تو یہ تو تمھارے گھروں میں ہی حج آیا وا ہے اگر سمجھیں تو بیٹے کی کمائی پر پہلا حق اس کی ماں کا ہے اس کے بعد دوسرے نمبر پر اس کی بیوی آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھا گیا ہے جو اسلام اے قریب اور خاندانی بہنیں ہوتیں جن کی تربیت اسلامی ماحول میں کی گیں ہیں وہ گاڑی کا دروازہ بھی ساس کے کیے کھولتی نظر آئی ہیںاور خود سے اپنی ساسوں کو آگے بیٹھاتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ اس میں لڑائی کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ جو اچھی تربیت والی لڑکی ہوگی وہ کبھی بھی اس بات پر نہ جھگڑا کرے گی نہ بحث کرے گی۔اور جو بد تہذیب اور اخلاق سے عاری اور گھر سے بدین لڑکی ہوگی وہ سوائے لڑنے جھگڑنے کے لیے اس طرح کے بہانے تراشے گی.

ہمیں چاہیے اپنے والدین کا دل جیتیں والدین جب 60 کی دہائی پر پہنچ جاتا ہے پھر وہ ایک بچے کی طرح ہوجاتا ہے اس لیے ان کے ہر سکھ کا بچے خیال کریں ان کی ناراضگی ساتویں آسمان پر پہنچ جاتی ہے.
اس لیے بار بار والدین کے حقوق پر زور دیا گیا ہے.

 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 493 Articles with 327527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.