ایک زمانہ تھا کہ پرہیزگاری اندر ہوتی تھی، اور پگڑی سر پر ٹکی ہوتی تھی۔ آج کل پگڑی سَر پر ہو نہ ہو، سوشل میڈیا پر پروفائل پکچر میں ضرور ہونی چاہیے۔ جی ہاں، آج کا دیندار وہی مانا جاتا ہے جس کے کندھے سے لٹکتا ہوا چھوٹا سا پرس ہو، جس میں تسبیح، مسواک، اور دو چار اسلامی سٹکرز کے ساتھ Wi-Fi والا فون بھی ہو تاکہ *live bayan* نشر کیا جا سکے۔ پگڑی اب صرف علما کی علامت نہیں رہی، بلکہ ہر وہ بندہ جس نے تین وڈیوز ”توبہ کے فائدے“ پر سن لی ہوں، سمجھتا ہے کہ اب وہ دین کی franchise کھول سکتا ہے۔ اور جیسے ہی وہ چوتھی ویڈیو سنتا ہے، وہ TikTok پر ”مولانا Swag“ کے نام سے چینل بھی بنا لیتا ہے۔ پرس کا معاملہ بھی بڑا نازک ہے۔ بعض اوقات لگتا ہے جیسے وہ پرس نہیں، پرہیزگاری کا پورا syllabus ہے۔ جس کے پاس یہ پرس ہے، وہ ہر محفل میں ایسے داخل ہوتا ہے جیسے کوئی ”پرہیزگاری کا ambassador“ ہو۔ بیٹھتے ہی مسواک نکالتا ہے، اور ساتھ ہی اتنے زور سے کلی کرتا ہے کہ آس پاس بیٹھے لوگ وضو دوبارہ کر لیتے ہیں۔ پھر جب جیب سے تسبیح نکلتی ہے تو تسبیح کے دانے کم اور signature beads زیادہ لگتے ہیں۔ بندہ تسبیح تو پڑھتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ دوسروں کی داڑھی، آستین اور نیت بھی گن رہا ہوتا ہے۔ اب آتے ہیں اصل پرہیزگاری کی طرف۔ پرہیزگاریاں اب کھانے، پینے، پہننے اور بولنے تک محدود نہیں رہیں۔ اب بندہ status update پر بھی پرہیزگار ہوتا ہے: ”آج کا بیان: دنیا فانی ہے، لیکن ناشتہ continental ہونا چاہیے!“ اور اگر کسی خاتون نے اسلامی quote لگا دیا، تو فوراً comment آتا ہے: ”ماشاءاللہ بہن، دل کو چھو لیا، لیکن پردہ کہاں ہے؟ پروفائل پکچر مناسب نہیں!“ یعنی اُن کی پرہیزگاری دوسروں کی timeline سے شروع ہوتی ہے اور خود کے DM میں ختم ہو جاتی ہے۔ مولوی صاحب ہوں یا اُن کے شاگرد، اب وہ بھی اپنی تقریر کے بیچ میں فرماتے ہیں: ”اگر میری بات آپ کو اچھی لگے تو YouTube چینل ضرور subscribe کریں، اور مسجد میں QR code سکین کر کے donation بھی کریں، کیونکہ دین کا کام صرف نیت سے نہیں، نیٹ سے بھی چلتا ہے۔“ اور وہ زمانہ بھی گزر گیا جب عالم دین کی پہچان علم سے ہوتی تھی۔ اب تو جس کے پاس سب سے بڑی پگڑی، سب سے لمبا پرس، اور سب سے مختصر caption ہو، وہی سب سے بڑا متقی مانا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ بعض افراد کے پرس کا وزن اُن کے علم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ پرس میں چھوٹی تسبیح، بڑا فون، اور دو تین چاکلیٹ رکھی ہوتی ہیں۔ کسی غیر شرعی موقع پر ”دعوتِ خیر“ دینے کے لیے۔ ویسے ان چاکلیٹوں کا اصل مصرف وہ بچے ہوتے ہیں جو نماز کے دوران شور مچاتے ہیں۔ جیسے ہی بچہ ”آمین“ بلند آواز میں کہتا ہے، فوراً پرس والا بھائی اُس کی طرف چاکلیٹ پھینک کر کہتا ہے: ”بیٹا، چپ کر جا، reward مل گیا ہے!“ پھر آتی ہے پگڑی کی شان۔ اب اگر پگڑی میں پانچ میٹر کپڑا ہو اور دو میٹر تک غرور لپٹا ہو، تو سمجھیں آپ درست راستے پر ہیں! پگڑی باندھنے کے بعد بندہ ایسے چلتا ہے جیسے Earth نہیں، Cloud Number 9 پر قدم رکھ رہا ہو۔ وہ ہر نماز کے بعد چند لمحے مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو کر ایسے سلام کرتا ہے جیسے کہہ رہا ہو، ”مخلوقِ خدا! میں ہوں تمہارا روحانی influencer!“ اب تو بعض حضرات نے ”پگڑی سیلفی“ کا بھی رواج ڈال دیا ہے۔ پگڑی پہن کر، ہاتھ میں مسواک، بغل میں کتاب (جس کے صفحات کبھی نہ کھولے گئے ہوں)، اور پس منظر میں کسی بزرگ کی تصویر، caption کچھ یوں: ”اللّٰہ کی راہ کا طالب علم، فی الحال Wi-Fi پر ہی چل رہا ہوں۔“ اور وہ لمحہ سب سے خاص ہوتا ہے جب یہ حضرات، کسی تقریب میں شرکت کے بعد، پرس سے تسبیح نکالتے ہیں اور اجتماعی تصویر میں مصروفِ ذکر نظر آتے ہیں۔ اُن کی نظروں کا زاویہ کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے بیک وقت روحانیت، عاجزی اور ”فوٹو اچھی آ جائے“ کی تمنا ایک ساتھ جاری ہو۔ سیاست میں بھی پگڑی اور پرس نے اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ آج کل کے جلسوں میں اگر کسی کے سر پر پگڑی نہ ہو تو اُسے VIP نشست نہیں ملتی۔ اور اگر وہ ”نماز پڑھتا ہوا“ سیلفی upload کر دے تو سمجھیں پارٹی ٹکٹ پکا۔ بس caption کچھ ایسا ہونا چاہیے: ”نماز کے بعد قوم کے لیے دعا، اور پوسٹ کے لیے دعا کے بعد کی سیٹنگ۔“ بات یہ نہیں کہ پگڑی غلط ہے، یا پرس بےمعنی، یا پرہیزگاری دکھاوا ہے۔ اصل دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے دین کو صرف symbols اور status کا کھیل بنا دیا ہے۔ اصل پرہیزگاری وہ ہے جو دل میں ہو، وہ عبادت جو ریئل ہو، نہ کہ Reels۔ تو خدارا! اگر واقعی دین کو اپنانا ہے تو پگڑی سر پر ہو یا نہ ہو، دل میں عاجزی ضرور ہو۔ پرس ہو یا نہ ہو، ہاتھ میں خیرات ہو۔ اور پرہیزگاری ایسی ہو جو دوسروں کے عیب چھپائے، نہ کہ اُن کے کپڑے ناپے۔ ورنہ کل کلاں کو کسی دن ”داڑھی کی لمبائی سے جنت کی اونچائی کا اندازہ لگانے والے“ لوگ جنت کا Google Map بھی بنا لیں گے۔ ہماری اصل بیماری یہ نہیں کہ ہم پگڑی، پرس یا تسبیح سے محبت کرتے ہیں؛ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کو ایمان کا مترادف سمجھ بیٹھے ہیں۔ کردار، اخلاق، تحمل، صداقت اور دل کی نرمی۔ یہ سب پرہیزگاری کی اصل علامتیں ہیں، جنہیں ہم نے صرف لباس اور لائکس کی دنیا میں دفن کر دیا ہے۔ میری اس ہنستی ہوئی تحریر کا مقصد ہنسانا ضرور ہے، مگر ساتھ ساتھ جگانا بھی۔ کہ دین کوئی ڈریس کوڈ نہیں، بلکہ زندگی کا طرز ہے۔ وہ طرز جو ہم نے ظاہری شوبازیوں میں کھو دیا۔ تو دوستو! اگر دل صاف ہے، نیت سچی ہے، تو پگڑی کا رنگ، پرس کا سائز، یا caption کا font کوئی فرق نہیں ڈالتا۔ کیونکہ اصل پرہیزگاری وہ ہے جو Instagram پر نہیں، انسان کے اندر ہو۔ |