بقیہ اردو زبان و ادب کی آسٹریلیا میں عصری اہمیت کو بھانپتے ہوئے پالف کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محسن علی آرزوؔ نے ADELAIDE میں 5EBI FM پرہفتہ وار اردو پروگرام کا آغاز کیا۔اردو ریڈیو آسٹریلیا میں اردو بولنے والی کمیونٹی کے لیے ایک پُل کا کردار ادا کر رہا ہے جو نہ صرف انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے بلکہ انہیں آسٹریلوی معاشرت، قوانین، صحت، تعلیم اور دیگر اہم موضوعات پر آگاہی فراہم کرتا ہے۔علاوہ ازیں 1. SBS Urdu (Special Broadcasting Service)— آسٹریلیا کا قومی ملٹی کلچرل ریڈیو نیٹ ورک SBS اپنی اردو سروس کے ذریعے ہر ہفتے خبریں، تبصرے، انٹرویوز، اور معاشرتی موضوعات پر پروگرام نشر کرتا ہے۔ SBS Urdu اردو بولنے والوں کو مقامی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ سے باخبر رکھتا ہے، جس سے ان کی سماجی شرکت (social inclusion) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ — SYDNEY میں 2SER یا 2MFM اور میلبورن سے بھی اردو ریڈیوپر کمیونٹی کے لیے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ یوں ان ریڈیو پروگرامز کے ذریعے اردو زبان کی آواز میں بقاء ممکن ہوئی ہے، خاص طور پر اُن گھروں میں جہاں بچوں کی مادری زبان انگریزی ہو چکی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ سننے کے ذریعے زبان سیکھنے کا عمل تقویت پاتا ہے، جو بچوں اور نوجوانوں میں اردو سے دلچسپی بڑھاتا ہے۔ یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہا اردو ریڈیو آسٹریلیا میں اردو زبان کے تحفظ، فروغ، اور عوامی شعور بیدار کرنے کا ایک قابلِ قدر ذریعہ ہے۔ یہ صرف ایک نشریاتی ادارہ نہیں بلکہ اردو زبان کا ایک متحرک ثقافتی مرکز ہے جو نسلوں کو جوڑنے، زبان کو زندہ رکھنے اور اردو بولنے والوں کو آسٹریلوی معاشرے میں باوقار مقام دلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔میرے خیال میں زبان، محض ابلاغ کا وسیلہ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی روح ہے — اگر اردو زندہ رہے گی، تو ہماری فکری شناخت بھی قائم رہے گی۔ڈاکٹر مفضل محی الدین نے بھی اردو زبان کی اشاعت اور ترویج میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ ان کے بقول: ”اردو آج صرف ایک قومی زبان نہیں رہی، بلکہ یہ ایک کثیر الجہتی عالمی زبان ہے جو ایشیا، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں ایک زندہ تمدنی رابطہ بن چکی ہے۔“ ان کے نزدیک اردو زبان میں ڈیجیٹل ترسیل، علمی تحقیق، سائنسی اصطلاحات، اور کثیر لسانی مکالمے کی گنجائش موجود ہے، بشرطیکہ ہم اس کے افق کو وسعت دیں۔یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اردو زبان کا مستقبل ثقافتی پائیداری، تعلیم کے انضمام، اور بین الاقوامی نیٹ ورکنگ سے جڑا ہوا ہے۔ جس طرح راقم الحروف جنوبی آسٹریلیا میں اردو کی ترویج اشاعت کے لیے سرکاری اور نجی سطح پر مصروفِ کار ہے اسی طرح آسٹریلیا کی ایک اور ریاست وکٹوریہ کے دارالحکومت میلبورن میں لیبر پارٹی کے ممبر رانا شاہد جاوید نہ صرف آسٹریلیا میں زبانِ اردو کی عصری اہمیت سمجھتے ہیں بلکہ اس کی ترجمانی سرکاری سطح پر کرتے ہیں۔رانا شاہد جاوید، میلبورن میں مقیم ایک معتبر سماجی رہنما، فعال کمیونٹی ورکر، اور اردو زبان کے سرگرم حمایتی ہیں۔ ان کی خدمات آسٹریلیا میں اردو زبان کی موجودہ اور مستقبل قریب کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں نہایت اہم مقام رکھتی ہیں۔ ان کی کاوشوں سے اردو کو نہ صرف گھریلو زبان کے دائرے سے باہر نکالا گیا بلکہ ادبی، تعلیمی، اور بین الثقافتی پلیٹ فارمز پر متحرک حیثیت عطا کی گئی۔میلبورن جیسے جدید، کثیرالثقافتی شہر میں نئی نسل کا اردو سے تعلق جوڑنا ایک چیلنج تھا، جسے رانا شاہد جاوید نے دلچسپ، غیر روایتی، اور جدید طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی۔ ان کے زیرِ اہتمام پروگرامز میں: بچوں کی اردو تقریریں، بین الثقافتی مقابلے، اردو کو عربی، فارسی، انگریزی کے ساتھ جوڑنے کی مشقیں، مقامی لائبریریوں میں اردو کتابوں کی فراہمی، جیسے اقدامات شامل ہیں۔انہوں نے میلبورن میں اردو زبان کی موجودگی کو سوشل میڈیا، مقامی اخبارات، اور کمیونٹی ریڈیو کے ذریعے مؤثر بنایا۔ وہ اس نظریے کے پرچارک ہیں کہ:”جہاں آواز ہے، وہاں زبان زندہ ہے — اور اردو کو ہر اس جگہ پہنچنا چاہیے جہاں ہماری شناخت سانس لیتی ہے۔“ رانا شاہد جاوید کا سب سے بڑا وصف ان کی مستقل مزاجی، تنظیمی تجربہ، اور اردو کے لیے خلوص پر مبنی سرگرمیاں ہیں۔ وہ آسٹریلوی معاشرے میں اردو کو تعلیم کا معاون ذریعہ، ثقافت کا ترجمان، بین نسلی رابطے کا آلہ، اور فکری اظہار کا ذریعہ بنانے میں کوشاں ہیں۔رانا شاہد جاوید (میلبورن) آسٹریلیا میں اردو زبان کی عصری اہمیت کا وہ عملی پہلو ہیں جو زبان کو صرف کلام کا ذریعہ نہیں، بلکہ شناخت، شعور، اور تعلق کا وسیلہ بناتے ہیں۔ ان کا وژن اردو زبان کو”نئی نسل کی متحرک اور باوقار زبان“کے طور پر دنیا کے سامنے لانے کی کوشش ہے۔ آسٹریلیا میں اردو زبان کی عصری اہمیت کو اجاگر کرنے والوں میں طارق مرزا (سڈنی) ایک مؤثر ادبی، فکری، اور صحافتی شخصیت کے طور پر نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی خدمات اردو زبان کے لیے نہ صرف عملی و تحریری ہیں بلکہ فکری، ادبی، اور صحافتی زاویوں کو بیک وقت محیط ہیں۔ وہ مختلف اردو اخبارات و جرائد کے ذریعے اردو قارئین کو عصری مسائل، بین الاقوامی حالات، اور مقامی کمیونٹی کے امور سے جوڑتے رہے ہیں۔ ان کے کالم اردو زبان میں فکری گہرائی اور عصری شعور کی مثال ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک اردو زبان صرف ماضی کا سرمایہ نہیں بلکہ حال کا آئینہ اور مستقبل کا رابطہ ہے۔ سڈنی میں ہونے والی مختلف ادبی محافل، اردو کانفرنسوں، اور اردو تنظیموں کے سیمینارز میں ان کی شرکت اور میزبانی زبان و ادب کے تسلسل کی علامت رہی ہے۔طارق مرزا (سڈنی) آسٹریلیا میں اردو زبان کی عصری اہمیت کے ایک باوقار، باخبر، اور فکری نمائندے ہیں۔ ان کا علمی و ادبی کام اس امر کا مظہر ہے کہ اردو زبان آج بھی: بین الاقوامی مکالمے کی زبان بن سکتی ہے، میڈیا اور صحافت میں ایک موثر مقام رکھتی ہے،• اور عصری معنویت کے ساتھ نوجوان نسل سے رشتہ جوڑ سکتی ہے۔ان کے بقول: ”اردو اگر دل کی زبان ہے تو عقل کی دلیل بھی بن سکتی ہے — بس ہمیں اسے وقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔“ زبانِ اردو آسٹریلیا میں اپنی جڑیں مضبوطی سے گاڑ رہی ہے۔ یہ نہ صرف برصغیر کے تارکینِ وطن کی لسانی اور تہذیبی شناخت کا ذریعہ ہے بلکہ آسٹریلیا کے کثیرالثقافتی معاشرے میں باہمی احترام، رابطے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے والی ایک موثر زبان بھی بن چکی ہے۔ بالکل، اردو زبان کی عصری اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے اردو ریڈیو کے کردار کو شامل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ نہ صرف معلوماتی، تعلیمی اور تفریحی ذریعہ ہے بلکہ اردو زبان کی ترویج و بقا کا ایک مؤثر پلیٹ فارم بھی ہے۔
|