خلائی تحقیق میں چین کا ایک نیا سنگ میل

خلائی تحقیق میں چین کا ایک نیا سنگ میل
تحریر: شاہد افراز خان ، بیجنگ

چین نے جمعہ کے روز شینژو۔21 نامی انسانی خلائی جہاز کامیابی کے ساتھ خلا میں روانہ کیا، جس کے ذریعے تین خلا نوردوں کو ملک کے مدار میں گردش کرنے والے خلائی اسٹیشن پر چھ ماہ کے طویل مشن کے لیے بھیجا گیا۔ یہ خلائی جہاز لانگ مارچ۔2 ایف راکٹ کے ذریعے شمال مغربی چین کے جیوچھوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے رات 11 بج کر 44 منٹ (بیجنگ وقت) پر روانہ ہوا۔

روانگی کے تقریباً دس منٹ بعد شینژو۔21 راکٹ سے علیحدہ ہو کر اپنے مقررہ مدار میں داخل ہو گیا۔ چین کی مینڈ اسپیس ایجنسی کے مطابق، تینوں خلا نورد مکمل طور پر صحت مند ہیں اور مشن کی روانگی مکمل کامیابی کے ساتھ انجام پائی۔ مدار میں داخل ہونے کے بعد خلائی جہاز نے خودکار انداز میں تیزی سے خلائی اسٹیشن کے مرکزی ماڈیول "تھیان حہ" کے سامنے والے پورٹ کے ساتھ رابطہ اور جوڑ قائم کیا، جو کہ بیجنگ کے وقت کے مطابق صبح 3 بج کر 22 منٹ پر مکمل ہوا۔

چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی کے مطابق یہ پورا عمل تقریباً ساڑھے تین گھنٹے میں مکمل ہوا۔ شینژو۔21 کے خلا نورد اب تھیان حہ ماڈیول میں داخل ہوں گے، جہاں شینژو۔20 کے خلا نورد ان کے استقبال کے لیے تیار ہیں۔ شینژو۔21 کے عملے میں شامل خلابازوں کے گروپ میں ژانگ لو، وو فے اور ژانگ ہونگ چھانگ شامل ہیں، جن کی کمانڈ ژانگ لو کریں گے۔یہ تینوں بالترتیب خلائی پائلٹ، فلائٹ انجینئر، اور پے لوڈ اسپیشلسٹ کے طور پر خدمات انجام دیں گے، جو چین کے موجودہ خلائی پروگرام میں شامل خلا نوردوں کی تینوں اقسام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ژانگ لو اس سے قبل شینژو۔15 مشن کا حصہ رہ چکے ہیں، جبکہ وو فے اور ژانگ ہونگ چھانگ دونوں اپنی پہلی خلائی پرواز پر ہیں۔

شینژو۔21 مشن نے ایک نیا سنگِ میل قائم کیا ہے، کیونکہ اس نے شینژو مشنز کی تاریخ میں سب سے تیز رفتار ملاقات اور جوڑ کا ریکارڈ بنایا ہے۔ چائنا ایروسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کارپوریشن کے مطابق، "اس عمل کا کل دورانیہ پچھلے شینژو۔20 مشن کی نسبت نمایاں طور پر کم ہے، جو اسی عمل کو مکمل کرنے میں چھ گھنٹے تیس منٹ لیتا تھا۔" ان کے مطابق یہ کامیابی کئی پہلوؤں سے فائدہ مند ہے — یہ خلا نوردوں کے لیے پرواز کا تجربہ بہتر بناتی ہے، توانائی کی پابندیوں کو کم کرتی ہے تاکہ لانچ میں زیادہ لچک پیدا کی جا سکے، اور ہنگامی حالات میں فوری ردِعمل کی صلاحیت بڑھاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق کم وقت میں رابطہ اور جوڑ ہمیشہ ترجیحی ہوتا ہے، کیونکہ اس سے خلا نوردوں کے سفر میں دباؤ کم ہوتا ہے اور سفر زیادہ ہموار رہتا ہے۔ تاہم، صرف ساڑھے تین گھنٹے میں ملاقات اور جوڑ حاصل کرنا زیادہ تکنیکی چیلنجز پیدا کرتا ہے، کیونکہ اس کے لیے مدار کی حرکات پر انتہائی درست کنٹرول درکار ہوتا ہے اور پرواز کے پورے عمل کو نئے سرے سے تشکیل دینا پڑتا ہے تاکہ ایک زیادہ مؤثر اور مربوط نظام بنایا جا سکے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے چین نے وسیع پیمانے پر سمیولیشنز، درجنوں آزمائشی پروازیں اور بار بار نظام کی جانچ اور ازسرنو ترتیب انجام دی۔اس مشن میں واپسی کیپسول کے ڈیزائن کو بھی بہتر بنایا گیا ہے تاکہ خلائی اسٹیشن سے زیادہ تحقیقی نمونے واپس لائے جا سکیں۔یہ بہتری خلائی اسٹیشن کے موجودہ ترقیاتی مرحلے میں سائنسی تحقیق کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرتی ہے۔


اس مشن کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ شینژو۔21 کے ساتھ چار چوہے بھی خلا میں بھیجے گئے ہیں۔ یہ دو نر اور دو مادہ چوہے چین کے خلائی اسٹیشن میں پانچ سے سات دن تک رکھے جائیں گے، جو چین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ممالیہ جانداروں پر خلا میں تجربے کا آغاز ہے۔ چائنا اکیڈمی آف سائنسز کے ٹیکنالوجی اینڈ انجینئرنگ سینٹر فار اسپیس یوٹلائزیشن کے مطابق "چوہے حیاتیاتی سائنس میں اہم نمونہ جانور سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان کا جینیاتی ڈھانچہ انسانوں سے خاصا مشابہ ہے، ان کا جسم چھوٹا ہوتا ہے، تولیدی چکر مختصر ہے، اور جینیاتی تبدیلی کے لیے موزوں ہیں۔"

یہ خصوصیات انہیں خلا میں جانداروں کی جسمانی و بیماریوں سے متعلقہ تبدیلیوں کے مطالعے، نمو، نشوونما اور تولید کے مشاہدے کے لیے بہترین بناتی ہیں۔ یہ منصوبہ شنگھائی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل فزکس اور انسٹی ٹیوٹ آف زولوجی کے اشتراک سے انجام دیا جا رہا ہے، اور خلاء میں ان چوہوں کی رہائش کے دوران ان کی مسلسل کثیر جہتی ویڈیو نگرانی کی جائے گی۔ انسٹی ٹیوٹ آف زولوجی کے مطابق، "چوہوں کے تجرباتی ماڈیول میں روشنی کا نظام زمین جیسا رکھا گیا ہے — صبح سات بجے لائٹس آن اور شام سات بجے آف ہوں گی تاکہ حیاتیاتی گھڑی وہی رہے۔ ان کا کھانا غذائیت سے متوازن اور نسبتاً سخت بنایا گیا ہے تاکہ چبانے سے ذرات کم بنیں اور دانت گھسنے کی عادت پوری ہو۔ اس ماڈیول میں ہوا کا رخ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ چوہوں کے بال، فضلہ اور کچرا ایک خاص کنٹینر میں جمع ہو کر ماحول کو صاف رکھے۔

یہ تجربہ سائنس دانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ کم کششِ ثقل میں جانداروں کے رویے، دباؤ اور موافقت کے نظام کس طرح کام کرتے ہیں۔ مشن مکمل ہونے کے بعد یہ "چوہے خلا نورد" شینژو۔20 کے ذریعے زمین پر واپس لائے جائیں گے تاکہ مزید تجزیہ کیا جا سکے۔ یہ نتائج طویل المدتی انسانی بقا اور تولید کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے نہایت اہم ہوں گے اور ممکن ہے کہ زمین پر انسانی صحت کے لیے بھی قیمتی معلومات فراہم کریں۔ اس سے قبل چین نے خلائی تجربات میں زیبرا مچھلی اور فروٹ فلائیز (چھوٹی مکھیوں) کو استعمال کیا تھا۔

شینژو۔21 کے خلا نورد اپنے قیام کے دوران مجموعی طور پر 27 نئے تجربات کریں گے جن میں خلائی حیاتیات اور بایوٹیکنالوجی، خلائی طب، مادی سائنس، مائیکرو گریوٹی میں سیال حرکیات اور احتراق، اور نئی خلائی ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔ ان تجربات میں جینیاتی کوڈز کی ابتداء اور کائریلیٹی کے درمیان تعلق، خلائی استعمال کے لیے لیتھیئم آئن بیٹریز، اور ذہین کمپیوٹنگ پلیٹ فارمز جیسے تحقیقی منصوبے بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ خلا نورد بیرونی سرگرمیاں انجام دیں گے، سامان کی ترسیل و تنصیب، ملبے سے بچاؤ کے آلات کی تنصیب، اور بیرونی تجرباتی آلات کی تعیناتی اور بازیابی بھی کریں گے۔ وہ سائنسی تعلیم اور عوامی آگاہی سے متعلق سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں گے۔ یہ مشن چین کے خلائی اسٹیشن کے ایپلی کیشن اور ترقیاتی مرحلے کا چھٹا انسانی مشن اور مجموعی طور پر چین کے انسان بردار خلائی پروگرام کی 37ویں پرواز ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1676 Articles with 962163 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More