*ہم کہاں غلط ہیں*



*ہم کہاں غلط ہیں*



انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ



پاکستان میں جمہوری ادارے کیوں مضبوط نہیں ہوئے جبکہ پاکستان میں انتخابات باقاعدگی کے ساتھ ہمیشہ سے چاہے جماعتی ہوں یا غیر جماتی ہوتے رہے ہیں مگر ہمارے مُلک میں جمہوری طرز فکر اور حکمرانی کا شفاف نظام ابھی تک مکمل طور پر تو کیا ہونا تھا پاکستان میں % 30 بھی رائج نہیں ہو سکا ۔
دنیا میں جمہوریت کا مطلب صرف ووٹ ڈالنا نہیں بلکہ قانون کی بالادستی اور اداروں کی خود مختاری اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر اور پاکستان دونوں میں جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ مستقل اداروں کی مضبوطی، شفافیت اور تعلیم یافتہ عوام سے جڑا ہوا ہونا ہے.

اس وقت ملک میں جمہوریت کو بچانے کے لیے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی برداشت مکالمہ میڈیا کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کے لیے آگے بڑھ کر اس کے لیے کام کرنا ہوئیگا۔ ہر سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی جماعتوں میں پڑھے لکھے مڈل کلاس کے نوجوان نسل کو روشناس کرانا اس کے ساتھ ساتھ ان نوجوانوں کو اپنی جماعتوں میں آگے لانا اور ان کو جمہوری اقدار سیاسی شعور اور شہری ذمہ داریوں سے بھی روشناس کرانا اب ناگزیر ہوتا جارہا ہے.

آج کل جس طرح کی سیاست چل رہی یا چلائی جارہی اس کی وجہ سے اس پر عوام کا اعتبار ہمارے جمہوری اقدار پر کم ہوتا جارہا ہے کہیں عوام کا اعتبار بالکل ہی ختم نہ ہوجائے کیونکہ جب عوام کا اپنے جمہوری اداروں سے اعتماد ختم ہوتا ہے تو وہ اپنا احتجاج ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں اپنا پروٹیسٹ کرتے ہیں عوام کی اکثریت ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں الیکشن میں دیکھا گیا ہے مگر پھر حکومتیں تو بن جاتی ہیں مگر عوام کی بغیر پزیرائی کے وہ حکومتیں نہ عوام میں اپنا اثرورسوخ رکھتی ہیں نہ ہی دنیا بھر میں اپنا کوئی امیج بنا پاتی ہیں اور نام نہاد الیکشن سے بننے والی پارلیمنٹ بھی اپنا وقار دن بدن کھوتی جارہی ہیں اور اس کا خمیازہ مُلک میں آمرانہ مزاج ہر ادارے و عوام میں تقویت پکڑتا جارہا ہے. جس کی مثال عوام کو آئے دن کسی بھی سرکاری ادارے یا پرائیوٹ اداروں میں نظر آرہا ہوتا ہے۔ جمہوری نظام یا حکومت کو اس وقت کاری ضرب لگتی ہے جب منتخب جمہوری حکومت کو اپنے سیاسی مفادات اور اپنے مفادات کے لیے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں مل کر ملک میں جمہوری آمریت مسلط کر دیتے ہیں ۔ اور جمہوری طاقت اور اختیار چند ہاتھوں میں مرہون منت ہو کر رہ جاتا ہے.

کبھی دنیا بھر میں جمہوری نظام پر اعتماد کیا جاتا تھا مگر اب وہ ہر مُلک میں مرحلہ وار زوال پذیر ہے ۔ اس وقت دنیا کے جمہوری ملکوں میں ان کی عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد کمزور ہوتا جارہا ہے ۔ اس سے یہی انتباہ کیا گیا ہے کہ اس زوال کو اگر روکا نہ گیا تو غیر جمہوری قوتیں غالب آ جائیں گی ۔اس وقت تقریبا دنیا کے 38 مُمالک میں پارلیمنٹ پر عوام کی بے اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے جن کی مختلف نیوز چینل و اخبارات و رسائل و تحقیق سے واضع ہے ان ملکوں میں برازیل، ارجنٹائن، فرانس، اٹلی، اسپین، ساؤتھ کوریا، آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ اور لاطینی امریکہ شامل ہیں ۔ پاکستان میں تقریبا 77 سال سے مقبول و مشہور سیاسی جماعتیں چونکہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام و رسوا رہی ہیں اس لیے پاکستانی عوام کی نظروں میں پارلیمنٹ سمیت پاکستان کے تمام اداروں کا وقار بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ پاکستان میں جمہوری حکومتیں بالکل دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکیں اور اس میں بری طرح ناکام رہی ہیں جبکہ سیلاب ہو یا دوسرے کوئی قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی بحالی بھی پاکستان کی حکومتوں کی کارگردگی کبھی بھی ماضی اور حال میں اطمینان بخش نہیں رہی۔ اس وقت پاکستان میں 77 سال بعد بھی گڈ گورننس آج بھی محض ایک خواب ہی لگتا ہے.

جب کہ اکثریت پاکستانی سیاست کے سئنیر تجزیہ نگار، و سینئر صحافی حضرات کا یہی مُشاہدہ پاکستان کے لیے ہے کہ شدید مشکلات کے باوجود عوام آج بھی جمہوری نظام کو آمریت سے بہتر سمجھتے ہیں.

جبکہ 2024ء کے انتخابات میں مختلف پاکستانی و انٹرنیشنل جرائد کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں قابل ذکر اضافہ نظر آیا جبر خوف اور سیاسی انتقام کے باوجود 60.6 ملین یعنی چھ کروڑ 60 لاکھ افراد نے اپنے ووٹ کا حق رائے دہی استعمال کیا ۔ 2024ء کے انتخابات میں 2018ء کے انتخابات کی نسبت 55 لاکھ ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے.

اس وقت جمہوریت کے زوال کو روکنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی جماعتوں کے اندر جمہوری عمل کو یقینی بنانے اور سیاسی کارکنوں کو پارٹی عہدے داروں اور انتخابی امیدواروں کا چناؤ کرنے کا حق تقریبا %30 حصہ دینا چاہیے ۔ تاکہ جمہوریت کو خاندانی وراثت نہیں بلکہ شراکتی اور سماجی بنایا جا سکے ۔ مُلک میں قانون کی حکمرانی اور سستے و فوری انصاف کی فراہمی اور سماجی انصاف کے بغیر جمہوریت کے نظام کو مستحکم اور باوقار نہیں بنایا جا سکتا.

پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی اور زوال کی بڑی وجہ یہ ہیکہ جمہوریت کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے ۔ پاکستان میں جمہوری حکمرانوں وہ مُلک میں جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں وہ جماعتیں اور ان کے لیڈران نے لوکل باڈیز کے انتخابات اور مقامی حکومتوں کے قیام سے ہمیشہ گریز کیا ہے جس کے بغیر دنیا کے کسی ملک میں جمہوریت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ جمہوریت پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے لازم ہے کہ لوکل باڈیز اور مقامی حکومتوں کے نظام کو اسی طرح آئینی تحفظ دیا جائے جس طرح قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو دیا گیا ہے.

لوکل باڈیز کا شیڈول آئین میں شامل کرنا چاہیے جس میں اس کے اختیارات کا اندراج ہو اور 90 روز کے اندر انتخابات کو یقینی بنانے کی گارنٹی دی گئی ہو ۔ متناسب نمائندگی کے اصول پر انتخابات کرانے سے پاکستان کی جمہوریت زیادہ نمائندہ، معیاری اور شراکتی بن سکتی ہے کیونکہ اس نظام میں ہر جماعت کو عوامی ووٹوں کے تناسب سے نشستیں ملتی ہیں جس سے چھوٹی سیاسی جماعتوں اور مختلف طبقات کی آواز بھی پارلیمان میں شامل ہو جاتی ہے۔

پاکستان کے جمہوری نظام میں سینٹ کے اراکین اور خواتین کی خصوصی نشستوں کو متناسب نمائندگی کی اصول پر ہی منتخب کیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے باقی اراکین کو متناسب نمائندگی کے اصول پر منتخب کیوں نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار اور جاگیردار الیکٹیبلز کو اسمبلیوں میں نمائندگی دی جا سکے تاکہ ان کی اجارہ داری ریاست پر قائم رہے ۔ جمہوریت کو مکمل زوال سے بچانے کے لیے میرٹ میں شفافیت، انصاف، احتساب، عوامی خدمت اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا ۔آ

 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 494 Articles with 331864 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.