اللہ ہی کافی ہے

اللہ ہی کافی ہے

✍🏻 : علی عباس کاظمی(روپوال،چکوال)


“اللہ اپنے بندے کو آزماتا ضرور ہے، مگر رسوا کبھی نہیں کرتا۔”
ایمان کا مطلب یہی ہے کہ رب پر یقین رکھو، پھر سب کام خود بخود سنور جاتے ہیں۔زندگی کے ہنگامے میں سب کچھ مل سکتا ہے، مگر سکون نہیں۔ یہ وہ دولت ہے جو بازاروں میں نہیں بکتی اور دولت مندوں کے گھروں میں بھی نہیں ملتی۔ سکون اُس دل کا مہمان بنتا ہے جس میں یقین، صبر اور اللہ پر بھروسہ بسا ہو۔ دنیا کی چمک دمک انسان کو چند لمحوں کا فریب تو دے سکتی ہے مگر دل کی ویرانی کو روشنی میں نہیں بدل سکتی۔
ہم روزانہ زندگی کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں عزت، روزگار، تعلقات، کامیابی، شہرت مگر کبھی خود سے یہ سوال نہیں کرتے کہ آخر یہ سب کیوں؟ ہماری جدوجہد کا مرکز اگر صرف دنیا بن جائے تو دل ہمیشہ خالی رہتا ہے۔ کیونکہ انسان جب خالق سے رشتہ کمزور کر لیتا ہے تو مخلوق کے رویے اس کے لیے اذیت بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ کبھی رزق میں کمی سے، کبھی رشتوں کے امتحان سے، کبھی صحت یا اولاد سے۔ یہ سب وہ مرحلے ہیں جو انسان کو مضبوط بنانے کے لیے آتے ہیں۔ جو ان میں صبر سے گزرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے۔ جو بے صبری کرتا ہے وہ دل کا سکون کھو دیتا ہے۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ ہی القادر، القدیر اور المقتدر ہے۔ یعنی اختیار اور قدرت صرف اسی کے پاس ہے۔وہ قادرِ مطلق ہے، لمحہ بھر میں کائنات کا رنگ بدل دے تو کوئی رکاوٹ نہیں۔ مگر وہ ایسا نہیں کرتا، کیونکہ اس کی ہر تاخیر میں ایک حکمت، ایک سبق چھپا ہوتا ہے۔ ہم جلدباز بندے ہیں، دعا کے فوراً بعد نتیجہ چاہتے ہیں، اور وہ ہمیں صبر کے ذریعے یقین کا درس دیتا ہے۔
ہم اکثر شکوہ کرتے ہیں کہ قسمت ساتھ نہیں دے رہی۔ مگر دراصل مسئلہ قسمت کا نہیں یقین کا ہے۔ جب یقین پختہ ہو جائے کہ میرا رب میرے ساتھ ہے تو کوئی مخلوق نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ انسان جب دل سے مان لیتا ہے کہ ’’میرا رب بہتر جانتا ہے‘‘، تب دل کے سارے طوفان تھم جاتے ہیں۔اللہ والوں کی خاص پہچان ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ان کا دل نرم، نیت صاف اور زبان سچی ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کے سامنے نہیں، اللہ کے سامنے جھکتے ہیں۔ وہ دنیا سے داد نہیں مانگتے بلکہ رب سے قبولیت چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ کم بولتے ہیں مگر ان کی خاموشی بھی دعا بن جاتی ہے۔
آج کا المیہ یہ ہے کہ ہم نیکی بھی دکھاوے کے لیے کرتے ہیں، عبادت بھی مقابلے میں اور اخلاق بھی وقتی ضرورت کے تحت۔ ہم اللہ کے بجائے لوگوں سے خوش ہونے کی امید رکھتے ہیں۔ یہی روحانی زوال کی جڑ ہے۔اگر ہم سمجھ جائیں کہ عزت، رزق، اور سکون صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے تو ہم مخلوق کے سامنے جھکنا چھوڑ دیں۔ انسان کی محتاجی ہی انسان کو کمزور کرتی ہے۔ لیکن جس نے اپنی امید صرف اللہ سے باندھی، وہ کبھی محروم نہیں ہوا۔
ایمان صرف نماز، روزہ اور عبادت کا نام نہیں۔ ایمان ایک طرزِ زندگی ہے، ایک سوچ ہے، ایک یقین ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے، وہ امید ہے جو ناممکن میں بھی امکان پیدا کرتی ہے۔ہماری زندگی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم نے ایمان کو رسومات میں بدل دیا ہے۔ مسجد میں سجدہ تو کرتے ہیں مگر دل کسی اور کے خوف میں جھکا ہوتا ہے۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ ہم دعا مانگتے ہیں مگر یقین نہیں رکھتے کہ رب سن رہا ہے۔ ۔ ۔یہی ہماری کمزوری ہے۔اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے کسی لمبے سفر کی ضرورت نہیں، صرف دل کے رخ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جب نیت صاف ہو جائے تو راستے خود بخود روشن ہو جاتے ہیں۔اگر نیت میں دکھاوا ہو تو عبادت بھی ریا بن جاتی ہے۔ مگر نیت خالص ہو تو معمولی سا عمل بھی عبادت بن جاتا ہے۔نیکی کا معیار لوگوں کی تعریف نہیں بلکہ اللہ کی رضا ہے۔ کبھی چھوٹے سے عمل کو حقیر مت جانو۔ دل کے اخلاص سے کیا گیا ایک چھوٹا سا کام، سالوں کی عبادت سے زیادہ وزنی ہو سکتا ہے۔حرام رزق دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ وہ برکت چھین لیتا ہے، جس کے بغیر دولت بھی بوجھ بن جاتی ہے۔ حلال روزی کم ہو سکتی ہے، مگر وہ دل کو سکون دیتی ہے۔اللہ اپنے بندے کو آزماتا ضرور ہے، مگر رسوا نہیں کرتا۔ کبھی وہ دے کر آزماتا ہے، کبھی روک کر۔ کبھی وہ فوراً سن لیتا ہے، کبھی انتظار میں خیر رکھ دیتا ہے۔ انسان اگر شکر کرنا سیکھ لے تو ہر امتحان آسان ہو جاتا ہے۔
شکر صرف زبان سے کہنا نہیں، بلکہ دل سے ماننا ہے کہ ’’جو میرے پاس ہے وہ میری ضرورت کے لیے کافی ہے۔‘‘ صبر کا مطلب یہ نہیں کہ درد نہ ہو، بلکہ یہ ہے کہ شکایت نہ ہو۔ یہی ایمان کا درجہ ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اللہ سے رشتہ کمزور کر کے دنیا سے تعلق مضبوط کر لیتے ہیں۔ ہم انسانوں سے انصاف چاہتے ہیں مگر خود انصاف نہیں کرتے۔ ہم رزق میں برکت مانگتے ہیں مگر کم تولتے ہیں۔ ہم دعا مانگتے ہیں مگر دل میں بدگمانی رکھتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں چلنے کے لیے یہ سب بدلنا ہوگا۔اللہ کی محبت انسان کو خودی سکھاتی ہے۔ وہ بندے کو عاجز بھی بناتی ہے مگر کمزور نہیں۔ جب دل اللہ سے جڑ جائے تو دکھ چھوٹے لگنے لگتے ہیں، حالات نرم ہو جاتے ہیں اور راستے خود بننے لگتے ہیں۔زندگی کا اصل حسن یہ ہے کہ انسان اللہ کے فیصلوں پر مطمئن رہے۔ ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ ہر خواب کا موسم آنا ہے۔ بس تھوڑا صبر، تھوڑا یقین اور تھوڑا شکر چاہیے۔
اللہ کے دوست وہی بنتے ہیں جو تنہائی میں بھی رب سے بات کرتے ہیں، جو روتے ہیں مگر گلہ نہیں کرتے، جو گرتے ہیں مگر ٹوٹتے نہیں۔ ایسے لوگ دنیا کے ہجوم میں بھی مطمئن رہتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔آج کی دنیا میں ’’اللہ والا‘‘ بننا شاید مشکل لگتا ہے مگر یہی سب سے آسان راستہ ہے۔ اللہ والا وہ ہے جو دل سے نرم، بات میں سچا اور نیت میں صاف ہو۔ کیونکہ جب انسان خود سے نہیں، رب سے توقع رکھتا ہے تو مایوسی ختم ہو جاتی ہے۔اللہ کبھی دیر نہیں کرتا، وہ صرف وقت کو بہترین بناتا ہے۔ وہ بندے کو آزماتا ہے تاکہ اس کا دل مضبوط ہو، اور روکتا ہے تاکہ وہ بہتر عطا کرے۔
بس ایک شرط ہے ۔ ۔ ۔دل صاف ہو، نیت سچی ہو اور یقین پختہ ہو۔پھر نہ قسمت سے ڈر لگتا ہے، نہ دنیا سے۔ کیونکہ جو اللہ والا ہو جاتا ہے، وہ کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔

 

Ali Abbas Kazmi
About the Author: Ali Abbas Kazmi Read More Articles by Ali Abbas Kazmi: 16 Articles with 3117 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.