علامہ اقبال اور مغربی تہذیب
(Khurram Shahzad, Fateh Jang)
علامہ اقبال اور مغربی تہذیب سب سے اہم کام جو علامہ اقبال نے انجام دیا ، وہ یہ تھا کہ انہوں نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی ۔ اگرچہ یہ کام اس وقت کے علمائے دین اور اہل مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے، مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفے اور مغربی تہذیب و تمدن سے واقفیت نہیں رکھتے ۔۔۔ لوگ ان اہل علم کی بات کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے جو اگر چہ دین سے تو واقف تھے، لیکن مغربی علوم، مغربی فلسفے ، مغربی تہذیب اور مغربی زندگی سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ ان کے برعکس اقبال وہ شخص تھا کہ وہ اس سے زیادہ مغرب کو جانتا ہے اور اس سے زیادہ مغرب کے فلسفے اور مغربی علوم سے واقف ہے ، اس لیے جب اقبال نے مغربیت، مغربی مادہ پرستی ، مغربی فلسفے اور مغربی افکار پر چوٹ لگائی، تو مسلمانوں میں مغرب کی جو مرعوبیت طاری تھی وہ کافور ہونے لگی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اس مرعوبیت کو توڑنے میں اکیلے اقبال کا کارنامہ سب سے بڑھ کرہے۔ اگر چہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی جسمانی غلامی توڑنے کے لئے بھی کوشش کی اور ان کو آزادی کا سبق بھی دیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کا ذہن اگر غلام ہو تو خواہ اس کا جسم آزاد بھی ہو جائے تب بھی وہ قوم آزاد نہیں رہ سکتی۔ اس وجہ سے اقبال نے مسلمانوں کی اس ذہنی غلامی کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جو ان پر طاری ہوگئی تھی۔۔۔۔ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا یہ خودی کا فلسفہ جس کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی چیستان یا معمہ ہے، یہ در حقیقت اس بات کے لئے تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں کہ وہ کیا ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو بھول گئے تھے ان کو اپنی تاریخ سے شرم آتی تھی ، وہ اپنی روایات، اپنی تہذیب، اپنے عقیدے اور اپنی اخلاقی اقدار کے بارے میں شدید احساس کمتری کا شکار ہو چکے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر دنیا کی تاریخ میں کوئی قابل قدر چیز ہے تو وہ صرف اہل مغرب کی پیش کی ہوئی ہے۔ یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ اُن کا اپنا سر ما یہ کیا ہے۔ اس موقع پر اقبال مرحوم نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ تم دنیا بھر میں سب سے زیادہ قابل فخر تہذیب رکھتے ہو۔ تمہارے پاس دنیا کا بہترین نظام حیات ہے اور تم سب سے زیادہ صیح اور اعلیٰ اخلاقی اقدار رکھتے ہو۔ اپنی خودی کو پہچانو اور اپنے آپ کو جانو کہ تم کیا ہو۔ تم نے اپنے آپ کو کھو دیا ہے اور اپنی حقیقت کو گم کر دیا ہے۔ اپنے قومی تشخص کو سمجھو اور اپنی تہذیبی سر بلندی کے لئے سرگرم عمل ہو جاؤ۔ اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ اسلام کوئی پرانا اور اذکار رفتہ نظام نہیں ہے جو اس زمانے میں کام نہ کر سکتا ہو انہوں نے اپنے شعر سے بھی اور اپنی نثرسے بھی یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی کہ اسلام ازلی اور ابدی اصولوں کا حامل ہے۔ اسلام کسی وقت بھی پرانا نہیں ہو سکتا۔ اس کے اصول ہر زمانے میں یکساں قابل عمل ہیں۔ اگرچہ اسلام کی حقانیت کی شہادت اس وقت علمائے دین منبروں پر بھی دے رہے تھے اور مدرسوں میں بھی لیکن جب اس مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائے ہوئے اور مغربی فلسفے پر عبور رکھنے والے آدمی نے اٹھ کر اسلام کی حقانیت کی شہادت دی تو مسلمانوں کے قلوب واذہان پر اس کا نہایت گہرا اور پائیدار اثر پڑا۔ اس وقت مختلف فتنوں کی یلغار کے درمیان مسلمانوں کی جو نسل گمراہ ہو رہی تھی اس کو بچانے کے لئے اہل منبر وہ کام نہیں کر سکتے تھے جو مغربی تعلیم یافتہ اور مغربی علوم میں مہارت کا ملہ رکھنے والا یہ آدمی انجام دے سکتا تھا اور واقعہ یہ ہے کہ جب اس نے ایک باوقار پر اعتمااد اور مجتہدانہ شان کے ساتھ اسلام کی حقانیت کی شہادت دی تو نئی نسل کے اندر ایک نیا اسلامی شعور پیدا ہوا۔ (کتاب شخصیات سے اقتباس)
|
|