ہمارے سدھرنے کی راہ میں رکاوٹ آخر کون ہے؟

ہمارے سدھرنے اور ترقی کرنے کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ دراصل ذاتی اور اجتماعی حیثیت میں ہم خود ہی ہیں۔ یہ سطر میں نے اپنے حاصل شعور کے حتمی تجزیے کی بناء پر بڑی احتیاط سے یہاں لکھی ہے۔ ہمارا یہ خیال بالخصوص آج پیش آنے والے ایک تجربے پر کھڑا ہے۔ زندگی کے انیک رنگوں کو دیکھتے ہوئے آپکا نیازمند اس رواں سال کے آخر میں اپنی زندگی کے تئیس برس پورے کرتے ہوئے یونیورسٹی کی چار سالہ تعلیم بھی مکمل کرلے گا۔ تعلیم کے ضمن میں یونیورسٹی کا یہ آخری سیمسٹر ہے اور اب اسکے بس کچھ آخری دن! کل یعنی پانچ نومبر کو یونیورسٹی سے واپسی پر گورنر ہاؤس سندھ کی طرف سے پورے سندھ کی یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات کیلئے 'اعلی تعلیم اور اسکالرشپس کے حصول' سے متعلق سیشن بارے اشتہار دیکھا جسے ہماری یونیورسٹی کے رجسٹرار کی طرف سے جاری کیا گیا تھا جس میں یونیورسٹی کے ہر ڈپارٹمنٹ کے فوکل پرسن کو فائنل ائیر میں سے دس ٹاپ اسٹوڈنٹس کی لسٹ بھیجنے کی ہدایت کی گئی تھی جنہیں یونیورسٹی کی معاونت اور پوائنٹ بس کے ذریعے وہاں سیشن کیلئے لے جانا تھا۔ اپنے ڈپارٹمنٹ کے فوکل پرسن کی ہدایت پر ہم نے اپنا نام بمع ضروری معلومات بھیج انکو دیں۔ پھر کچھ اہم کام نپٹایا اور رات کو واک کرنے کے بعد اس خیال سے کہ یہ معلومات ضروری ہے کے باہر ملکوں میں تعلیمی مواقع کیسے حاصل کئے جاسکتے ہیں' ہم نے بذریعہ یونیورسٹی کراچی گورنر ہاؤس سیشن میں شرکت کا ارادہ باندھا، ضروری تیاری کی اور جلد ہی آرام کے لئے چلے گئے۔ صبح جلدی ہی نیند سے اٹھے، یونیورسٹی کیلئے تیاری کی اور معمول کے مطابق وہاں ہم پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے پر پتا چلا کہ یونیورسٹی سے بارہ ایک بجے کے قریب نامزد طلبا کی روانگی ہوگی جس کے لیے انکی لسٹ بھی یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریشن سیکشن میں جمع کراتے ہوئے وہی سے روانگی کیلیے پوائنٹ بس میں چڑھا جائے گا۔ کچھ ہمارے ساتھی بتائے ہوئے ایڈمنسٹریشن کامپلیکس پر وقت سے کچھ پہلے ہی پہنچ گئے تھے اور ہم دوسرے دوستوں کے ساتھ وہاں جانے کی غرض سے پہنچے مگر ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں معاملہ کچھ اور بن چکا تھا۔ ہماری سندھ یونیورسٹی کے کم از کم بھی کوئی پانچ درجن کے قریب شعبے ہیں اور جیسے عرض کیا کہ دس طلباء کیلئے ہدایت کی گئی تھی۔ اگر وہاں اصل تعداد کے حساب سے چھ سو میں سے ایک تہائی حصہ بھی پہنچ جائے تو آپ خود اندازہ کریں کہ گورنر ہاؤس کے اس سیشن میں کیا صرف سندھ یونیورسٹی مدعو ہوگی؟ پورے سندھ کی یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات وہاں مدعو کئے گئے ہیں۔ اسی ضمن میں عین وقت پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب کسی ایک آدھ طالب علم کو ہر ڈپارٹمنٹ سے لیا جائے گا کیونکہ وہاں سیشن میں دس پندرہ سے زیادہ کی شرکت ممکن نہیں ہوسکے گی۔ حیرت ہوئی کہ یہ تو اب پہلے سے نہیں بتایا گیا تھا۔ ایسا وہاں انکی جانب سے کیا بھی گیا اور شروعاتی طور پر انہوں نے ہمارے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کی ان طالبات کو موقع دیا جو پوزیشن کے اعتبار سے اوپر کی رینک پر تھیں۔ کچھ وقت کے بعد ہمیں بھی اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف سے سیشن میں شرکت کیلئے شامل کرلیا گیا۔ آپ یقین نہیں کرسکتے کہ ہمارے محترم قمر ننگراج صاحب جو شاید رجسٹرار کی طرف سے اس سیشن کی انتظامی کاروائی کے ذمہ دار بھی تھے' کیا ان پر بیت رہی ہوگی؟ ذہنی طور پر وہ بچارے اس طرح کے تجربے سے ایسے بوکھلا گئے کہ یہاں کیا ہی لکھا جائے۔ قمر صاحب جانی پہچانی شخصیت ہیں اور یونیورسٹی کے اہم معاملات پر مختلف ذریعوں سے طالب علموں کو گاہے بگاہے آگاہ بھی کرتے رہتے ہیں لیکن جو حتمی لسٹ بنانے کا مرحلہ تھا وہ انکے لئے ناقابلِ برداشت تھا مگر انہوں نے پوری کوشش کرتے ہوئے تیس سے چالیس کے قریب بہتر پوزیشن رکھنے والے اسٹوڈنٹس کو نامزد تو کرلیا لیکن انکے لئے صبر کا امتحان آگے تھا جب ان اسٹوڈنٹس کو شناخت کے بعد پوائنٹ بس میں بٹھانے کا مرحلہ آیا۔ نامزد کردہ سب طلبہ یونیورسٹی کی آفیشل بس میں بٹھا تو دیے گئے مگر وہاں موجود وہ طلبہ جو جانے والوں کی حتمی لسٹ میں شامل نہیں تھے اور نتیجتاً روانگی کی گاڑی میں نہ بیٹھ سکے تھے انہوں نے وہاں آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مختلف شعبوں کے بیشتر طلبہ ہونگے جن میں مگر ہمارے اپنے ہم جماعت ساتھی بھی شامل تھے۔ وہ کبھی ہماری کوسٹر کے آگے زمین پر بیٹھ جاتے، کبھی اس میں اندر گھسنے کی کوشش کرتے تو کبھی محترم قمر صاحب کے آگے شور کرتے۔ کافی یہ التماس کرتے بھی دیکھے گئے کہ بیشک کوسٹر بس میں سیٹ نہ دیں' ہم کھڑے ہوکر ہی چلے چلیں گے۔ بہر حال ایک سے دو بج چکا تھا مگر ہماری روانگی رہ جانے والے طلبہ کے ضد کی وجہ سے اٹکی رہی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ یونیورسٹی کی کوسٹر کراچی کوئی ہمیں باہر ملک پڑھنے کے متعلق کسی معلوماتی سیشن میں نہیں لے جارہی پر یہ ابھی کہیں امریکہ، یورپ، خلیجی ممالک کی طرف چلنے کو گامزن ہوجائیگی جہاں سب طلبہ کا پہنچنا اشد ضروری ہے ورنہ یہاں رہتے ہوئے تو کچھ نہیں ہونا۔ آپ آخر اندازہ تو لگائیے کہ یونیورسٹی کا ایڈمنسٹریشن کامپلیکس ہو' فائنل ائیر کے طلبہ ہوں' انتظامیہ بے بس ہو اور کیا تماشہ وہاں لگا ہوا ہوگا؟ وہاں جو بچارے انتظامیہ کہ لوگ تھے ایسی حالت انکی بنائی گئی کہ الامان الحفیظ۔ بالاآخر طلبہ کہ مطالبے پر کوسٹر سے نسبتا ایک بڑی پوائنٹ بس آئی۔ احتجاجی طلبہ بھاگے گئے اور جا بیٹھے، جو پہلے لسٹ کے مطابق بٹھائے گئے وہ اس ضد پر تھے کہ اسی گاڑی میں جائیں گے اور باقاعدہ یونیورسٹی کی نامزدگی سے وہاں شرکت کریں گے۔ ہم نے شروعات میں کافی دفعہ قمر صاحب، بس کے ڈرائیور اور ان صاحب کو جو ناموں کی بنیاد پر سیٹ دے رہے تھے کہا کہ آپ پریشر نہ لیں اور مہربانی کرکے ڈرائیور کو کہیں کہ گاڑی چلائے کیونکہ جو میرٹ پر آپ نے بٹھائے ہیں وہ وہاں شرکت کی مناسبت سے بھی پوری تعداد میں ہیں۔ دلچسپ طور پر ڈرائیور کی تو وہاں کوئی ادائیں دیکھتا کہ موصوف نہ چلانے پر حد درجہ بضد تھے کہ خود ہی دوسری گاڑی کا بندوست ہوگا اور میری جان چھوٹے گی۔ ان ذمہ داریوں سے جانیں چھڑاتے تو ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں اور غلط سمت ہے کہ جس کی جانب ہم بڑی بہادری سے چلے ہی جارہے ہیں۔ کچھ نہ ہوا اور کوسٹر میں بیٹھے نامزد طلبہ کو بھی اترنا پڑا۔ نئی آنے والی بڑی گاڑی میں جو ہمت کرکے جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے وہ تو بیٹھ گئے باقی چونکہ وہاں بڑی تعداد انکی تھی جو جلد کراچی پہنچنے اور باہر ملکوں میں اترنے کے متمنی تھے وہ قدم جمائے ہوئے بیٹھے تھے۔ یقین کریں کہ یہ بلکل انہی بحری کشتیوں والا منظر تھا جس میں لوگ جانوں کو داؤ پر لگا کر سمندروں کے راستے غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں میں پہنچنے کی کوششوں میں ہوتے ہیں۔ کوئی پندرہ بیس لوگوں کو جگہ نہ ملی جس میں ہم بھی شامل تھے اور یہ سارے وہی تھے جو پہلے سے نامزد تھے۔ محترم قمر صاحب نے اعلان کیا کہ گورنر ہاؤس جایا جائے گا اور وہ کوئی معمولی جگہ نہیں کہ سب کو اندر جانے دیا جائے لہذا جاکر اپنا شوق پورا کرلیں اور امید ہی کی جاسکتی ہے کہ آپ کے ایسے رویے اور اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر وہاں آپ کو اندر داخلہ بھی کوئی دے! ایسی حالت میں ہم نے بس سے اترنے ہی میں عافیت جانی کہ بیشک ہم نامزد تھے اور جانے کا موقع بھی ہے لیکن چونکہ یہ ہر اخلاقی قدر سے منافی عمل تھا۔ کراچی میں پندرہ دن انٹرن شپ کے تجربے سے ہم گزرے ہیں اور وہاں کے اداروں میں ہم نے اپنی جامعات بارے کوئی اچھا تاثر نہیں پایا۔ آخر وہاں کے لوگوں میں ہمارے لئے تعصب بھی ہوگا تو وہ کتنا ہوگا؟ بالاآخر تو ہم خود اپنی حالت کے ذمہ دار ہیں۔ وقت گزرا ہے مگر ہم لوگ واقعتاً تبدیل نہ ہوسکے۔ عقلوں پر جو تالے ہیں وہ اب بھی اتنے ہی بھاری اور سخت ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے۔ اس تماشے نے تو ہم جیسے خول میں بند لوگوں کا دماغ کھول دیا ہے کہ جو حالتیں ہم نے اپنے لئے پیدا کی ہیں اور جو انکے پیچھے ہمارے ایسے رویے ہیں جن کے بارے میں اب تک پڑھا اور سنا ہی تھا' آج انکی جھلک عملی طور پر دیکھ بھی لی۔ جہاں اس سیشن کی مناسبت سے یونیورسٹی کو پہلے ہی نامزدگی کرتے ہوئے حتمی لسٹ بنا کر جاری کر دینی چاہیے تھی تاکہ کم از کم اس طرح کا کوئی میلہ نہ سجتا تو دوسری طرف اب سوچ رہا ہوں کہ اس دوسرے حصے میں دوسرے طرف کی غلطی یعنی ہمارے اپنے ساتھی طلبہ کی احتجاجی کیفیت کو کیسے واضح کروں؟ بہر حال حتمی فیصلہ انتظامیہ کا ہوتا ہے کہ وہ جو فیصلہ کرے۔ اس معاملے میں انہوں نے بہترین طریقے سے اکثریت میں قابل طلبہ کو نامزد کردیا تھا۔ اسکے بعد ہمارے طلبہ اگر تدبر کا مظاہرہ کرتے تو وہ انکے شان میں اضافہ کردیتا مگر اب یہ اس طرح کی نصیحتوں کا ذکر یہاں فضول ہوچکا کہ چلیں رجعت پسندی کے قائل لوگ تو ہمیشہ اپنے پرانے خیالات پر تنقید کا ہدف بنتے ہی ہیں مگر یہ یونیورسٹیوں کے 'جامعات' کے اذہان بھی ترقی پسند اور باکردار ہونے کی سوچ کو کس طرح دھندلا رہے ہیں اسکا آپکا یہ نیازمند آج کے اس تجربے سے بالخصوص اور اپنی شعوری زندگی کے حاصل کردہ تجربات سے بالعموم واقف ہے۔ ہم گھر واپس آچکے اور یہ حروف تحریر ہورہے ہیں۔ سب پوچھیں تو نوجوانوں کے آج کیا تو نیک جذبات تھے کہ کراچی دیکھ لیا جائے کہ کبھی زندگی میں شاید انہوں نے نہیں دیکھا۔ جیسے اوپر عرض کیا کہ ویسا ہی قصہ تھا جس طرح ہر صورت میں ملک چھوڑ کر بھاگنے والوں کا ہوتا ہے۔ انہی ہمارے دوستوں نے چند دنوں بعد گریجویٹ ہوکر سامنے آنا ہے اور باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔ ایسی فطرت کے حامل تو اختیار ملنے پر اسی طرح کی کارکردگی دکھاتے ہیں جس طرح کی یہاں پون صدی سے زائد عرصے میں سامنے آئی ہے کہ سابق وائس چانسلر این ای ڈی یونیورسٹی سروش حشمت لودھی صاحب کہ بقول کہ ہم ترقی یافتہ دنیا سے اتنے سال پیچھے ہیں جتنے سال آپ اپنے ذہن میں سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ روز قدم بہ قدم آگے کو بڑھ رہے ہیں اور ہم پوری طاقت سے پیچھے کی جانب سفر طے کررہے ہیں۔

یہ ناخوشگوار تجربہ تو یوں اپنی جگہ مگر گھر واپسی پر خود کو تسلی دیتے رہے کہ کم از کم ایسی حالت دیکھ کر مایوس نہ ہوا جائے بلکہ اسے بھی لوگوں کے رویوں میں سے سیکھنے اور اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی خاطر سیکھنے کا ایک ذریعہ ہی سمجھا جائے۔ یہی وہ پہلی اور پختہ حقیقت ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو تاعمر ایک طالبعلم یعنی کے جستجو سے سیکھنے والے انسان کی حیثیت سے دریافت کرلیا ہے۔ ماضی میں تلخ ترین تجربات سے گزرے ہیں اور ان میں چند ایسے بھی جو انتہائی حد تک ناقابلِ یقین! ان تمام اندر کی برائیوں اور کمزوریوں کو وقت کے ساتھ ختم کرنے اور دور کرنے کی کوششوں میں پچھلی ایک دہائی شعوری عمر صرف کی ہے۔ یہ عرصہ شاید بڑا لگے مگر ہم تو جب تک آخری سانس لیں گے سیکھتے، تبدیل ہوتے اور پوری صلاحیت سے آگے بڑھتے رہیں گے۔ ہر دن غلطیوں پر نظر رکھتے ہیں اور جیسے عرض کیا کہ ایک بڑا وقت یوں شعوری طور پر گزار لیا مگر یہ حقیقت ہے کہ آج بھی کبھی کبھی عقل کو اونگھ آجاتی ہے جس سے نتیجتاً بقول ایک مشہور مصور کہ عفریت جنم لیتی ہے۔ آج بھی کبھی ہم جذبات میں آکر کچھ ادھر ادھر کو بھٹک جاتے ہیں۔ مگر کوشش یہی ہوتی ہے کہ بہتر سے بہتر بنیں اور پرانی پگڈنڈیوں پر دوبارہ کبھی پاؤں نہ چلے۔ اسی سوچ نے ہمارے اندر امید اور شکر گزاری جیسی عظیم نعمتوں کو جنم دیا ہے کہ شروعات ہماری چاہے کیسی بھی ہوئی ہو اور چاہے کیسی لغویات میں وقت بسر ہوتا رہا ہو' بدل تو چکے ہیں جس پر آسمانوں کے شکر گزار ہیں اور جو کچھ رہتا ہے اس بارے امید ہے کہ یہ بھی خال جلد پورا کردیں گے۔ آخر میں اس بات کا شکر کہ کم از کم ناخوشگوار ہی سہی کوئی واقعہ ہاتھ آیا جس پر ہمیں کالم ہی لکھنے کا موقع ملا اور آپ محبت کرنے والے اور پڑھنے والوں سے تعلق دوبارہ جڑا۔ ساتھ امید بھی کہ یہ سلسلہ جاری ہی رہے گا کیونکہ ہمارے پاس محض تعلیم و تدریس ہی ہے جس سے ہم کچھ معاشرے کو دے سکتے ہیں۔ ڈنڈا، شور و غوغا، جذباتیت، گالی اور بدتہذیبی ہماری شان نہیں۔ ہم نوجوان اپنے گھرانوں اور قوموں کا اثاثہ ہوتے ہیں لہذا ہمیں ان پر کبھی بوجھ نہیں بننا چاہیے۔ ہم ہی تو ہیں جنہوں نے بہتر دنیا کی تشکیل کرنی ہے مگر مجھ جیسا پر امید انسان بھی آج اپنے ہمعصروں کو دیکھنے کے بعد پریشان ہے کہ آخر ہم کیوں نہیں سدھر سکتے؟ اس سوال کا جواب شاید دقیق ہو لہذا وہ میں آپ جیسے صاحب علم لوگوں کے ذمے چھوڑے جارہا ہوں۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ کونسی رکاوٹیں ہیں؟ اس نقطے پر مگر لازمی سوچئے گا کہ کیا ان رکاوٹوں میں سے سب سے بڑی رکاوٹ کہیں ہم خود تو نہیں ہیں؟ یہ طالبعلم ان سوالوں کے ذریعے اپنی تربیت کا منتظر رہے گا۔

 

محمد حمزہ ٹالپر
About the Author: محمد حمزہ ٹالپر Read More Articles by محمد حمزہ ٹالپر: 3 Articles with 1013 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.