خانقاہی کلچر

خانقاہی کلچر
---------------------------------------------

تصوف کا ظہور اسلامی فکر کی روحانی توسیع کے طور پر ہوا۔ جب اسلام عرب سے نکل کر ایران، وسطی ایشیا اور برصغیر میں داخل ہوا تو اس نے مقامی ثقافتوں، زبانوں اور رسوم کے ساتھ ایک فطری امتزاج پیدا کیا۔ ہندوستان میں چشتیہ، سہروردیہ، قادریہ اور نقشبندیہ سلاسل نے خانقاہی نظام کی بنیاد رکھی۔
برصغیر جنوبی ایشیا کی تہذیبی و روحانی تاریخ میں خانقاہی نظام کو ایک بنیادی و کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ نظام محض عبادت و ذکر تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے برصغیر کے مذہبی، سماجی، فکری اور سیاسی خدوخال کو بھی گہرائی سے متاثر کیا۔ برطانوی استعمار سے قبل اور بعد کے ادوار میں صوفیاء کی خانقاہیں امن، علم، اصلاح اور اخوت کے مراکز کے طور پر ابھریں۔
برصغیر میں اسلام کی تبلیغ و ترویج میں اگر کسی شخصیت نے سب سے ہمہ گیر اور موثر کردار ادا کیا تو وہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ تھے۔ اجمیر شریف کی خانقاہ نے "محبت سب کے لیے، عداوت کسی سے نہیں" کے پیغام کے ذریعے مذہبی و نسلی تعصبات کو مٹا کر انسانیت کے رشتے کو مضبوط کیا۔ اس خانقاہی نظام فکر میں حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت بہاؤالدین زکریاؒ، حضرت لال شہباز قلندرؒ، حضرت علی ہجویریؒ جیسے اولیاء شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں تصوف کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔
یہ خانقاہیں صرف روحانی تربیت کے مراکز نہیں تھیں بلکہ تعلیم، اصلاحِ معاشرت، خدمتِ خلق، اور سماجی ہم آہنگی کی بنیاد بھی بنیں۔ یہی وہ روحانی روایت تھی جس نے بعد کے ادوار میں برصغیر کی سیاست، سماج اور کلچر میں امن و محبت کی فضا قائم کی۔
انہی مراکز میں سے ایک عظیم خانقاہ خانقاہِ سیال شریف (ضلع سرگودھا، پنجاب) ہے، جس نے نہ صرف روحانیت بلکہ سیاسی بیداری اور قومی یکجہتی کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
خانقاہِ سیال شریف برصغیر کی روحانی تاریخ کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو نہ صرف تصوف و طریقت کی روشنی سے منور ہے بلکہ فکری، ادبی، سماجی اور سیاسی جہات سے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خانقاہ دراصل اجمیر شریف کی خانقاہ کا تسلسل ہے، جہاں سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے برصغیر کی سرزمین پر عشقِ الٰہی، محبتِ رسول ﷺ، رواداری، امن اور انسان دوستی کا پیغام عام کیا۔ اجمیر شریف سے اٹھنے والی روحانی روشنی مختلف خانقاہوں کے ذریعے پورے برصغیر میں پھیلی، اور اسی سلسلے کی ایک عظیم کڑی خانقاہ سیال شریف ہے جس نے پنجاب کی روحانی اور فکری زندگی کو نئی جہت عطا کی۔
حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ، نے تیرھویں صدی ہجری میں سیال شریف میں اس خانقاہ کی بنیاد رکھی۔ آپ کی تعلیمات کا مرکز تزکیۂ نفس، اصلاحِ باطن، عشقِ رسول ﷺ اور خدمتِ خلق تھا۔ آپ نے نہ صرف مریدین کی روحانی تربیت فرمائی بلکہ دینِ اسلام کے معاشرتی اصولوں کو عملی طور پر نافذ کیا۔ آپ کے دربار میں آنے والا ہر شخص اس بات کا مشاہدہ کرتا کہ تصوف محض خانقاہ کی چار دیواری میں محدود نہیں بلکہ انسان کے اخلاق، کردار اور طرزِ عمل میں جلوہ گر ہونا چاہیے۔ یہی وہ روح تھی جو اکابرین سلاسل جیسے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ اور دیگر اکابر صوفیاء کے پیغام کی اساس تھی۔ خانقاہِ سیال شریف نے اسی پیغام کو پنجاب کی روح میں سرایت کر دیا۔ تذکرۃ الاولیاء میں جن اوصاف کو روحانیت کا کمال قرار دیا گیا ہے، وہی اوصاف خاکساری، صبر، خدمت، علم، اور بے لوث محبت اس خانقاہی ماحول میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
سیال شریف کے خانقاہی کلچر نے دینی و علمی سطح پر بھی بے مثال خدمات انجام دیں۔ یہاں قرآن و سنت کی تعلیم، تصوف و فقہ کی درس و تدریس، اور طلبا و مریدین کی روحانی و اخلاقی تربیت کا ایک منظم نظام قائم کیا گیا۔ خانقاہ میں روزانہ مجالسِ ذکر، دروسِ قرآن، اور اخلاقی خطبات ہوتے رہے جن میں دین کے حقیقی پیغام کو عام فہم انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس خانقاہ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ طریقت کا راستہ شریعت سے جدا نہیں، بلکہ شریعت ہی روحانیت کی بنیاد ہے۔ علم و عرفان کے یہ دروس نہ صرف مذہبی بیداری پیدا کرتے بلکہ افراد کے اندر باطنی سکون، اجتماعی شعور اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیال شریف جلد ہی روحانی مرکز سے بڑھ کر ایک علمی و فکری تحریک میں ڈھل گئی۔
اس خانقاہ کا کردار برصغیر کی سیاسی تاریخ میں بھی نہایت اہم ہے۔ حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالویؒ نے اپنے بزرگوں کے مشن کو جاری رکھا اور تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن بنے۔ انہوں نے نوجوانوں کو متحرک کیا، سیاسی اجتماعات میں شرکت کی اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نظریے کی ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، مگر ان کی جدوجہد تحریکِ آزادی کی تاریخ میں امر ہو گئی۔ حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالویؒ نے ایک نہایت نازک سیاسی دور میں قیادت کی۔ اُس وقت پنجاب میں ٹوانہ خاندان کی زیرِ قیادت یونینسٹ پارٹی انگریزوں کی حمایت میں سرگرم تھی اور مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کام کر رہی تھی۔ خواجہ محمد قمر الدین سیالویؒ نے قائداعظمؒ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر مسلم لیگ کے مؤقف کو تقویت بخشی اور اپنی سیاسی بصیرت و عوامی حمایت کے ذریعے پورے خطے میں مسلم لیگ کے اثر و رسوخ کو مستحکم کیا۔ آپ پورے سرگودھا ڈویژن کے مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔ یوں سیال شریف کی خانقاہ محض روحانیت کا مرکز نہیں رہی بلکہ آزادی و خودمختاری کی تحریک میں ایک فعال روحانی و سیاسی قوت بن گئی۔
سماجی سطح پر خانقاہ سیال شریف نے ہمیشہ انسانیت کی خدمت کو اپنی بنیاد بنایا۔ یہاں کا لنگرِ عام صدیوں سے بلا امتیاز مذہب و مسلک ہر آنے والے کو کھانا فراہم کرتا رہا ہے۔ خانقاہ کے دروازے غریبوں، یتیموں، مسافروں اور ضرورت مندوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہے۔ اسی طرح تعلیم، صحت، اور فلاحِ عامہ کے مختلف منصوبے اس خانقاہ کے زیرِ اہتمام چلتے رہے۔ خانقاہی روایت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہاں خدمتِ خلق کو عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ تصوف کے نظریے میں ’’محبتِ انسانیت‘‘ کو ایمان کا جزو کہا گیا ہے، سیال شریف اس کی زندہ مثال ہے۔ یہی وہ خانقاہی طرزِ فکر ہے جس نے برصغیر کے بکھرے ہوئے سماج میں محبت، اخوت اور یکجہتی پیدا کی۔
ادبی اعتبار سے بھی سیال شریف کی خانقاہ ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ یہاں تصوف، نعت، منقبت، اور حمدیہ شاعری کی ایک گہری روایت موجود ہے۔ مشائخِ سیال شریف کے ملفوظات، مکتوبات اور بیانات میں اردو و فارسی ادب کا وہی ذوق اور روحانی تاثیر ملتی ہے جو ہمیں حضرت علی ہجویریؒ کی ’’کشف المحجوب‘‘ یا فرید الدین عطارؒ کے ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں محسوس ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں اور اقوال میں عشقِ رسول ﷺ، معرفتِ الٰہی، اور انسان دوستی کے ایسے نکات ملتے ہیں جنہوں نے ادب اور روحانیت دونوں کو جلا بخشی۔ یہی روحانی و فکری روایت بعد کے ادوار میں سیال شریف کے وابستگان اور مریدین کے ذریعے آگے بڑھتی رہی، اور اردو صوفی ادب کے کئی گوشے اسی فکر سے متاثر ہو کر روشن ہوئے۔
عصرِ حاضر میں جب دنیا ڈیجیٹل ترقی کی سمت گامزن ہے اور انسان روحانی خلا کا شکار ہے، خانقاہ سیال شریف نے اپنے پیغام کو جدید ذرائع کے ذریعے عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اب یہ خانقاہ نہ صرف مریدین بلکہ پوری دنیا کے اہلِ ایمان کے لیے ایک فکری اور روحانی رہنمائی کا مرکز بن چکی ہے۔ آن لائن دروس، مذہبی لیکچرز، ڈیجیٹل خطبات اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہاں کی تعلیمات لاکھوں افراد تک پہنچ رہی ہیں۔ سیال شریف کے مشائخ جدید دور کے فکری چیلنجز کو سامنے رکھ کر نسل نو کی تربیت کر رہے ہیں۔ وہ انہیں یہ باور کرا رہے ہیں کہ تصوف کا مطلب گوشہ نشینی نہیں بلکہ عملی زندگی میں تقویٰ، اخلاق، اور خدمت کا فروغ ہے۔ شاید اسی سیاق و تناظر میں علامہ اقبال نے کہا تھا۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبيري
کہ فقر خانقاہي ہے فقط اندوہ و دلگيري
اس خانقاہ نے مذہب کو شدت پسندی سے نکال کر محبت، رواداری اور برداشت کے پُرامن تصور میں ڈھالا ہے۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں خانقاہ سیال شریف ایک ایسی روحانی و فکری پناہ گاہ ہے جو ماضی کی روایت کو حال کی ضرورت کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔ یہاں سے اب بھی وہی آواز بلند ہوتی ہے جو حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے اجمیر شریف سے دی تھی: ’’محبت سب کے لیے، عداوت کسی سے نہیں۔‘‘ خانقاہ سیال شریف کی یہی تعلیم عصرِ حاضر کے انسان کے لیے سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس خانقاہ نے صدیوں پر محیط اپنی تاریخ میں کبھی صرف ماضی کی یادگار بننے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ہر دور میں اپنے وقت کے فکری، سماجی، مذہبی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے رہنمائی فراہم کی ہے۔ آج بھی یہ خانقاہ تصوف، علم، اخلاق، محبت اور خدمت کی وہ روشن مثال ہے جو برصغیر کی روحانی تہذیب کی اصل روح کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
عصرِ حاضر میں جب مادیت پرستی، نفس پرستی اور اخلاقی زوال نے انسان کو روحانی طور پر بے سکون کر دیا ہے، خانقاہی نظام فکر اور صوفیا کے سلاسل کی تعلیمات نئی معنویت کے ساتھ سامنے آتی ہیں۔ آج کا انسان سائنسی ترقی اور مادی آسائشوں کے باوجود دل کے سکون سے محروم ہے۔ ایسے میں چشتیہ، قادریہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ جیسے صوفیانہ سلاسل کی خانقاہیں دراصل روحانی یونیورسٹیاں ہیں، جہاں علمِ باطن، تزکیۂ نفس، خدمتِ خلق، اور محبتِ الٰہی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں انسان کو یہ شعور ملتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف دنیاوی کامیابی نہیں بلکہ اخلاق، خلوص، اور خدا سے تعلق کی بلندی ہے۔ اگر ان خانقاہوں کی اصل روح، یعنی علم و عمل، حکمت ذکر و فکر، محبت و رواداری، اور انسان دوستی ، کو عصرِ حاضر کے معاشرتی اور تعلیمی نظام میں دوبارہ زندہ کیا جائے تو یہ موجودہ فکری اور اخلاقی بحران کا بہترین علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ صوفیا کا پیغام وقت اور سرحدوں سے ماورا ہے، یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی اصل پہچان اس کے کردار، نیت اور خدمت میں ہے۔ آج بھی اگر ہم خانقاہی کلچر کے ان روحانی اصولوں کو اپنائیں تو معاشرہ نفرت، انتہا پسندی اور خودغرضی سے نکل کر محبت، امن، اور روحانیت کی سمت گامزن ہو سکتا ہے ، وہی معاشرہ جس کا خواب صوفیاء نے اپنی خانقاہوں میں دیکھا اور جس کی بنیاد انہوں نے اپنے کردار اور قربانیوں سے رکھی۔

 

Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 26 Articles with 8490 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.