طارق ظفر۔ ٹورنٹو نوبل پرائز برائے فزکس ۲۰۲۵ء الیکٹرک سرکٹ میں "میکروسکوپک کوانٹم مکینیکل ٹنلنگ اور انرجی کوانٹائزیشن" کی دریافت نوبل کمیٹی برائے فزکس کے سربراہ اولے ایرکسن کہتے ہیں: " حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک صدی سے زیادہ پرانی کوانٹم میکینکس مسلسل نئے سرپرائز پیش کرتی چلی آ رہی ہے اور آج ہم اس کا جشن منا رہے ہیں۔ یہ بہت زیادہ مفید بھی ہے، کیونکہ کوانٹم میکینکس تمام ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بنیاد ہے۔"۔۔۔۔ اس بظاہر مشکل اور ذہنی ورزش پہ مجبور کر دینے والے مضمون کو سمجھنے کے لیے اس کی تاریخی پیش رفت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ۔۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوانٹم ٹنلنگ کا عمل بہت پہلے سےمائکروسکوپک یعنی ایٹمی ذرات کی سطح پر دریافت شدہ تھا ۔ اس کی تاریخی تفصیل آگے بیان کی جائے گی جو کوانٹم ٹنلنگ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس سال کا نوبل پرائز اسی کوانٹم ٹنلنگ کا مظاہرہ ایک بلند سطح پر ، جیسے کمپیوٹر چپ میں دو کنڈکٹر کے درمیان، کرکے یہ ثابت کرنے پر دیا گیا کہ مائکرسکوپک سطح پر ہونے والا قدرتی عمل میکروسکوپک یعنی بڑے پیمانے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔اس کا اطلاق خاص طور پر کمپیوٹر اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بہت دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔ کوانٹم ٹنلنگ سادہ الفاظ میں اس عمل کو کہتے ہیں جس میں کوئی ذرہ ۔جیسے الیکٹرون۔ کم توانائی رکھنے کے باوجود ایک ایسی رکاوٹ کو پار کر جاتا ہے جسے پار کرنے کے لیےزیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی رکاوٹ کو پوٹنشیل بیریئر کہا جاتا ہے۔اس مشاہدے کی وضاحت کلاسیکی فزکس یا مکینکس سے نہیں کی جا سکتی، لہذہ تحقیقات کرنے سے معلوم ہوا کہ ذرہ کبھی ٹھوس اور کبھی موجی خصوصیات کا مظاہرہ کرتا ہے۔نیز ذرے کا کسی خاص جگہ پہ موجود ہونا یقینی نہیں ہے بلکہ امکانی ہے۔ یہ مشاہدہ اگرچہ ہمارے وجدان کے لیے ناقابل قبول ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔ یہاں سے فزکس کے میدان میں اس حیرت کدے کا دروازہ کھلتا ہے جو عقل انسانی کو پچھلی ایک صدی سے حیران کرتا چلا آ رہا ہے۔ کوانٹمی نظریہ کا پس منظراور تاریخی پیش رفت: کوانٹم مکینکس کی دریافت ۱۸۷۵ء میں طبیعیات داں،یوحنا فلپ کا غلط خیال اور ان کے شاگرد میکس پلانک کے تصوّر۔کوانٹا ۔کو ملنے والا ۱۹۱۸ ء کا نوبل پرائز ۔ ایک دلچسپ کہانی: ایک سو پچاس سال پہلے ایک معزز طبیعیات دان کا خیال کہ ، "فزکس مکمل ہو چکی ہے اور اب اس میدان میں کچھ کرنے کو نہیں رہ گیا ہے"! Johann Philipp Gustav von Jolly (ستمبر 1809 - 24 دسمبر 1884) ایک جرمن تجرباتی طبیعیات دان تھا۔ میونخ یونیورسٹی میں فزکس کا پروفیسر تھا۔۔ فلپ وون جولی کے طالب علموں میں سے ایک میکس پلانک تھا، جسے جان فلپ نے ۱۸۷۸ء میں نظریاتی طبیعیات میں نہ جانے کا مشورہ دیا۔ کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ فزکس کے مضمون میں اب کچھ نہیں رکھا ، جو کچھ دریافت ہونا تھا ہو چکا۔اس مشورے کے با وجود، پلانک نے فزکس میں پڑھائی جاری رکھی اور اس کا بعد کا کام فزکس کی ایک جدید شاخ کوانٹم میکینکس کی دریافت کا باعث بنا۔ انہیں ۱۹۱۸ ء میں طبیعیات کا نوبل انعام ملا ۔۔ بعد کی زندگی میں پلانک نے لکھا : ''جب میں نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم شروع کی تو میں نے اپنے قابل احترام استاد فلپ وون جولی سے اپنے منتخب کردہ مطالعہ کے میدان فزکس کے حالات اور امکانات کے بارے میں مشورہ طلب کیا۔ اس نے طبیعیات کو ایک انتہائی ترقی یافتہ، تقریباً مکمل طور پر پختہ سائنس کے طور پر بیان کیا کہ توانائی کے تحفظ کے اصول کی دریافت کی اہم کامیابی کے ذریعے یہ جلد ہی اپنی حتمی مستحکم شکل اختیار کر لے گی۔ نظریاتی طبیعیات نمایاں طور پر اسی حد تک اپنی تکمیل کے قریب پہنچ رہی ہے جس طرح جیومیٹری صدیوں پہلے تھی۔'' فزکس کے مکمل ہونے کے خیال کا خاتمہ: فلپ کا خیال کلاسیکی طبیعیات کی حد تک درست مانا جا سکتا تھا ، اس وقت ماڈرن فزکس یا ۔۔کوانٹا ۔۔ کا کوئی تصور تک کسی کے ذہن میں نہیں تھا۔ بیسویں صدی کے شروع میں میکس پلانک ذہانت اورمحنت کے نتیجے میں ماڈرن فزکس کےموجد قرار پائے۔ماڈرن فزکس میں کوانٹم نظریہ کی دریافت سے ایک نئے اور حیرت انگیز دور کا آغاز ہوا۔ انہیں ۱۹۱۸ ء میں طبیعیات کا نوبل انعام ملا۔ پلانکس کے نام سے منسوب کونسٹینٹ۔۔ ħ۔۔، اب کوانٹم مکینکس کے اکثر فارمو لوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پلانک کا نظریہ، جسے پلانک کا کوانٹم نظریہ بھی کہا جاتا ہے، یہ خیال ہے کہ توانائی مسلسل نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے ۔۔کوانٹا ۔۔نامی مجرد پیکٹوں کی شکل میں خارج یا جذب ہوتی ہے۔ ہر کوانٹا کی توانائی ۔۔تابکاری کی فریکوئنسی ۔۔کے براہ راست متناسب ہے، ایک ایسا تعلق جسے اس فارمولے سے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔۔۔hν=E اس طرح فزکس کے مکمل ہونے کے خیال کا خاتمہ ہوا اور ایک نئے میدان میں ترقی کی منازل طے ہونے لگیں جس نے ایک نئی دنیا دریافت کی اور دنیا کو ایک حیرت انگیز نئی ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا۔پلانک کی کوانٹمی نظریہ کی دریافت کے بعد اس میدان میں سائنسدانوں نے تجربات کے ذریعے خاطر خواہ خاصی ترقی دی جو ہنوز جاری ہے۔ کوانٹم مکینیکل ٹنلنگ )probability wave function) یہ وضاحت ضروری ہے کہ کوانٹم ٹنلنگ سے جو ابہام پیدا ہوتا ہے کہ یہ کوئی سرنگ ہے جس میں سے گزر کر کوئی ذرہ رکاوٹ کی دوسری طرف پہنچ جاتا ہے، ۔۔ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ذرہ ایک امکانی موج کی شکل میں برتاوء کرتا ہے ، جس میں ایک خفیف امکان رکاوٹ کے دوسری جانب بھی ذرے کےپائے جانے کا ہوتا ہے، یہ امکان حقیقی ہے اور اس کا مشاہدہ عملی طور پر کیا جا چکا ہے۔ گویا ذرہ دو جگہوں پر بیک وقت موجود ہوتا ہے۔ کوانٹم ٹنلنگ ایک ایسا رجحان ہے جس میں ذرات ایک ممکنہ توانائی کی رکاوٹ کو عبور کر لیتےہیں جس کی اونچائی ذرات کی کل توانائی سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ مظہر دلچسپ اور اہم ہے کیونکہ یہ کلاسیکی میکانکس کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس کاگراف اس طرح پیش کیا گیا ہے۔
A graph of the probability of a wave function crossing a barrier (quantum tunneling) shows that the probability density, , decreases exponentially inside the barrier and remains finite but small on the other side, allowing transmission even if the particle's energy is less than the barrier height. Key graphs often plot the probability density versus position, illustrating the wave function's smooth, non-zero nature within and after the barrier, unlike the abrupt drop to zero predicted by classical physics.
۱۹۳۳ءکا نوبل پرائز برائے طبیعیات Schrödinger Equation بیسویں صدی کے آغاز میں، تجرباتی شواہد سے پتہ چلا کہ جوہری ذرات بھی فطرت میں موج کی طرح ہیں۔ مثال کے طور پر، روشنی کی لہروں کی طرح ڈبل سلٹ سے گزرنے پر الیکٹران انکسار نورکا نمونہ دیتے ہوئے پایا گیا ۔ لہذا، یہ فرض کرنا مناسب تھا کہ لہر کی مساوات جوہری ذرات کے رویے کی وضاحت کر سکتی ہے۔شروڈنگر پہلا شخص تھا جس نے 1926ء میں ایسی لہر کی مساوات لکھی جس پر اسے 1933ء میں نوبل انعام سے نوازہ گیا۔قارئین کی دلچسپی کے لیے وہ مساوات یہ ہے، اسکی وضاحت اس مضمون کےدائرہ کار سے باہر ہے:- ۱۹۲۶ء میں ارون شروڈنگر کی مساوات کی اشاعت کے فوراً بعد ، مساوات کے وہ حل تلاش کیے گئے جس سے ذرہ کےاس خطے میں بھی موجود ہو نے کا امکان ہوجس میں ویو فنکشن کے لیے کلاسیکی طور پر داخل ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے، یعنی جہاں ذرہ کی کل توانائی اس ممکنہ توانائی سے کم ہوتی ہےجو رکاوٹ کو عبور کرنے کے لیے درکار ہے۔۔یعنی اگرچہ ویو فنکشن اپنی محدود توانائی کی وجہ سے ، رکاوٹ کے نیچے تیزی سے زوال پذیر ہوتا ہے۔لیکن ویو فنکشن رکاوٹ کے دوسری طرف بھی موجود ہوتا ہے۔ حالا نکہ کلاسیکی طور پر اس میں اتنی توانائی نہیں ہوتی ہے کہ اس ذرہ کے رکاوٹ کو عبور کرنے کا امکان ہو۔ دوسرے الفاظ میں ذرہ یا ویو فنکشن رکاوٹ کے رونوں طرف بیک وقت ہونے کا امکان صرف ریاضی کی رو سے نہیں بلکہ حقیقی صورت میں موجود ہے۔ اگرچہ وجدانی طور پر ذہن اس حقیقت کو قبول کرنے پہ تیار نہیں ہوتا لیکن یہ مظہر قدرت پایہء ثبوت تک پہنچ چکا ہے۔اس قدرتی عمل کی وضاحت ذیل کی تصویر سے بخوبی کی گئی ہے جو سویئڈش سائنس اکیڈمی نے شائع کی ہے: کوانٹم ٹنلنگ صرف تابکار ی کے لیے اہم نہیں ہے بلکہ سرکٹ اور سپر کنڈکٹر میں بھی رو بعمل ہوتی ہے: 1972 کا نوبل پرائزبرائے طبیعیات John Bardeen, Leon N. Cooper and Robert Schrieffer گیاور کے 1960ء کے تجربات نے سپر کنڈکٹرز میں انرجی گیپ( توانائی کے خلا) کے وجود کی تصدیق کی، جس کی جان بارڈین، لیون این کوپر اور رابرٹ شریفر نے 1957ء میں پیش گوئی کی تھی۔اسےبی سی ایس تھیوری کہتے ہیں، اس نظریہ کو 1972 میں فزکس میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ، جن کی نظریاتی پیشین گوئیاں اس سال کے انعام کے لیے بھی، ضروری ہیں۔ 1973 کا نوبل پرائزبرائے طبیعیات Leo Esaki and Ivar Giaever انعام نصف لیو ایساکی اور ایوار گیاور کو ان کی تجرباتی دریافتوں، بالترتیب سیمی کنڈکٹرز اور سپر کنڈکٹرز میں الیکٹران ٹنلنگ مظاہر کے لیے دیا گیا۔1973 کا باقی نصف نوبل 2 (13) فزکس میں انعام برائن جوزفسن کو دیا گیا۔ 1984 اور 1985 میں، جان کلارک، مشیل ایچ ڈیوریٹ اور جان ایم مارٹنیس نے ایک الیکٹرانک سرکٹ کے ساتھ تجربات کا ایک سلسلہ کیا جو سپر کنڈکٹرز سے بنا تھا، ایسے موصل جن میں بغیر کسی برقی مزاحمت کے کرنٹ بہہ سکتا ہے۔ سرکٹ میں، سپر کنڈکٹنگ موصل کو غیر موصل مواد کی ایک پتلی پرت کے ذریعے الگ کیا گیا تھا، اس سیٹ اپ کو جوزفسن جنکشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان سائنسدانوں نے اپنے سرکٹ کی تمام مختلف خصوصیات کو اتنا بہتر بنایا کہ وہ ان مظاہر کو کنٹرول کرنے ، اس کی کھوج کرنے اور ان کی پیمائش کرنے کے قابل ہو گئے ، جو سپر کنڈ کٹر میں کرنٹ گزرنے کے وقت پیدا ہو ئے۔سپر کنڈکٹر کے ذریعے حرکت کرنے والے چارج شدہ ذرات ایک ساتھ مل کر، ایک ایسے نظام پر مشتمل تھے جس کا برتاؤ ایسا تھا جیسے وہ ایک ہی ذرہ اور ایک ہی ویو فنکشن ہو جس نے پورے سرکٹ کو بھر دیا ہو۔یہ میکروسکوپک پارٹیکل نما نظام ابتدائی طور پر ایسی حالت میں ہوتا ہے جس میں کرنٹ بغیر کسی وولٹیج کے بہتا ہے۔ نظام اس حالت میں پھنسا ہوا ہے، جیسے وہ کسی رکاوٹ کے پیچھے ہے جسے وہ عبور نہیں کر سکتا۔ تجربے میں نظام اپنی کوانٹمی خصوصیت ٹنلنگ کے ذریعے صفر وولٹیج کی حالت ختم کرکے ظاہر کرتا ہے۔ وولٹیج کے ظاہر ہونے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سسٹم بدل گیا ہے۔ اس حیرت انگیز تجربے کی وضاحت رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنس نے ان دو تصاویر سے کی ہے:
نوبل پرائز برائے فزکس ۲۰۲۵ء John Clarke, Michel H. Devoret, John M. Martinis https://www.nobelprize.org/prizes/physics/2025/press-release/ ۷اکتوبر ۲۰۲۵ء رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے فزکس کا نوبل انعام ۲۰۲۵ء ۔۔ان سائنسدانوں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔۔ جان کلارک،یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے، امریکہ، مشیل ایچ ڈیوریٹ،ییل یونیورسٹی، نیو ہیون، سی ٹی اوریونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سانتا باربرا، امریکہ جان ایم مارٹنیس،یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سانتا باربرا، امریکہ ایک چپ پر ان کے تجربات سے معلوم ہوا کہ کوانٹم فزکس میں کوانٹم ٹنلنگ کا عمل ذراتی یا مائکروسکوپک سطح سے اوپر بڑے میکروسکوپک لیول پر بھی قابل عمل اور قابل استعمال ہے۔ طبیعیات میں ایک اہم سوال ایک نظام کا زیادہ سے زیادہ سائز ہے جو کوانٹم میکانیکل اثرات کو ظاہر کر سکتا ہو۔ اس سال کے نوبل انعام یافتہ افراد نے ایک الیکٹریکل سرکٹ کے ساتھ تجربات کیے جس میں انہوں نے کوانٹم مکینیکل ٹنلنگ اور کوانٹم انرجی لیول دونوں کا مظاہرہ ایک ایسے سسٹم میں کیا جو اتنا بڑا ہے کہ ہاتھ میں پکڑا جا سکتا ہے،کوانٹم میکانکس ایک ذرّہ کو ٹنلنگ نامی عمل کا استعمال کرتے ہوئے، ایک رکاوٹ میں سے سیدھا منتقل ہونے دیتا ہے۔ جیسے ہی بڑی تعداد میں ذرات شامل ہوتے ہیں، کوانٹم مکینیکل اثرات عمومی طور پر غیر معمولی ہو جاتے ہیں۔ انعام حاصل کرنے والوں کے تجربات نے ثابت کیا کہ کوانٹم مکینیکل خصوصیات کا میکروسکوپک پیمانے پر بھی ناقابل تردید شہادت موجود ہے۔سائنسی اور ریاضیاتی تفصیلات میں دلچسپی رکھنے والے قارئین اس لنک پر جا کرمزید مطالعہ کر سکتے ہیں: https://www.nobelprize.org/uploads/2025/10/advanced-physicsprize2025.pdf قدرتی مظاہر کی وضاحت اور ایجادات پر اطلاق ۱۔ کوانٹم ٹنلنگ کا ابتدائی کامیاب اطلاق الفا پارٹکل ڈیکے کی وضاحت تھی، الفا پارٹیکل نیوکلئس میں ایک ممکنہ رکاوٹ ( پوٹنشیل بیریئر)کے ذریعے محدود ہے، لیکن اس کا ایک محدود امکان موجود ہے کہ کوانٹم ٹنلنگ کے ذریعے وہ اس رکاوٹ کو عبور کرتا ہے۔ ۲۔ہمارے سورج میں جہاں درجہ حرارت اور دباؤ کلاسیکی طور پر دو پروٹون کو کولمب ریپلشن پر قابو پانے کی اجازت دینے کے لیے دراصل بہت کم ہے کہ وہ ایک ہیلیم نیوکلئس بنائیں۔ وہاں فیوژن ہونے کے لیے سرنگ یا ٹنلنگ کا اصول ہی لاگو ہے۔ ۳۔ ٹرانزسٹرز ہمارے ارد گرد موجود کوانٹم ٹیکنالوجی کی ایک مثال ہیں۔ ۴۔ بشمول کمپیوٹر مائیکرو چپس میں موجود کوانٹم کرپٹوگرافی، کوانٹم کمپیوٹرز، اور کوانٹم سینسر ۵۔ ایپلی کیشنز کی ایک وسیع رینج ہے، جیسے سکیننگ ٹنلنگ مائکروسکوپ اور ٹنل ڈائیوڈ اس سال کے فزکس کے نوبل انعام نے کوانٹم ٹیکنالوجی کی اگلی نسل تیار کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں، ۔
|