اقبالؒ کےشاہین کہاں گئے؟

اقبالؒ کےشاہین کہاں گئے؟

اقبالؒ کےشاہین کہاں گئے؟

✍🏻 : علی عباس کاظمی
09 نومبر 2025ء

ہر سال جب 9 نومبر آتا ہے تو ہم اقبالؒ کے اشعار سن کر، تصویریں دیکھ کر اور نغمے گنگنا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شاید ہم نے اپنا فرض پورا کر لیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اقبالؒ کو سمجھتے ہیں؟ کیا ہم ان کے خواب کے وارث ہیں، یا صرف نعرے لگانے والے؟ اقبالؒ کا پیغام محض تقریروں یا پوسٹروں میں نہیں، بلکہ سوچ اور عمل میں زندہ ہوتا ہے۔ وہ خواب دیکھنے والے شاعر نہیں تھے، خواب جگانے والے مفکر تھے۔ ان کا خواب ایک ایسی امت کا تھا جو علم، ایمان، کردار اور خودی سے دنیا میں روشنی پھیلائے ۔ ۔ ۔ مگر آج کے نوجوان کے خواب موبائل، سوشل میڈیا، اور چند لمحوں کی شہرت تک محدود ہیں۔
اقبالؒ کی شاعری محض نعرے بازی نہیں تھی، بلکہ ایک مکمل نظریہ اور طرزِ فکر تھی۔ ان کے اشعار میں وہ حرارت تھی جو انسان کے دل کو جوش اور دماغ کو شعور دیتی تھی۔ افسوس کہ ہم نے اس فکر کی آگ کو صرف نعروں کی آواز تک محدود کر دیا۔“خودی کو کر بلند اتنا ۔ ۔ ۔” ہم ہر جگہ پڑھتے ہیں، مگر خودی کو پہچاننے کی زحمت نہیں کرتے۔ اقبالؒ کی شاعری دراصل ایک دعوت ہے ۔ ۔ ۔ سوچنے، اٹھنے اور بدلنے کی۔ وہ ہمیں جھنجھوڑ کر کہتے ہیں "محض مسلمان پیدا ہو جانا کافی نہیں، مسلمان بننا پڑتا ہے!"
اقبالؒ کے کلام میں سب سے گہرا رنگ امتِ مسلمہ کا درد ہے۔ وہ اپنی قوم کے زوال پر روئے، مگر کبھی مایوس نہ ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان ایمان، علم اور کردار میں مضبوط ہو جائے تو دنیا کی قیادت اس کے قدموں میں ہو۔ لیکن آج کے مسلمان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی تاریخ سے کٹا ہوا، اپنے مقصد سے بھٹکا ہوا اور اپنی روح سے بیزار ہے۔ اقبالؒ کی تڑپ یہی تھی کہ امت پھر سے وہی شان حاصل کرے جو مدینہ کے دنوں میں تھی۔ مگر آج ہم نے ان کے درد کو سمجھنے کے بجائے اسے "یادگار دن" کا موضوع بنا دیا۔
اقبالؒ کےمردِ مومن کا تصور کسی کتابی کردار کا نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی مثال کا ہے۔ وہ شخص جو اپنے رب پر یقین رکھتا ہے، جو نڈر، باعمل، باکردار اور خوددار ہوتا ہے۔ مردِ مومن وہ ہے جو ظلم کے سامنے ڈٹ جائے، سچ بولنے سے نہ گھبرائے، اور عمل سے دنیا بدل دے۔ مگر آج کے معاشرے میں مردِ مومن کا کردار تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہم نے اقبالؒ کے اس کردار کو صرف علامت بنا دیا، حقیقت نہیں۔ اقبالؒ کا مردِ مومن خواب دیکھنے والا نہیں، خواب پورا کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ شکایت نہیں کرتا، قدم اٹھاتا ہے۔
اقبالؒ کی شاعری میں صر ف سوچ نہیںدل کی دھڑکن، درد کی شدت اور دعا کی نرمی بھی ہے۔ ان کی نظم “شکوہ” امت کی محرومیوں کا نوحہ ہے اور “جوابِ شکوہ” امید کی روشنی۔ ان کی دعا “لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری” صرف بچوں کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے کہ دل میں خلوص ہو تو چھوٹے خواب بھی بڑی حقیقت بن جاتے ہیں۔ اقبالؒ کا ہر شعر انسان کو جگانے کی صدا ہے، اس کی روح میں آگ بھرنے کا پیغام ہے۔
اقبالؒ تعلیم کو صرف روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ فکر و کردار کی تربیت سمجھتے تھے۔ وہ ایسے تعلیمی نظام کے خواہاں تھے جو غلام ذہن نہیں، آزاد روح پیدا کرے۔ مگر آج ہماری تعلیم نے ڈگری تو دی ہے، سوچ چھین لی ہے۔ نوجوان ذہین ہیں مگر منزل نہیں جانتے۔ اقبالؒ کا پیغام تھا کہ علم کا اصل مقصد انسان کو بہتر بنانا ہے، محض کامیاب نہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان علم کے ساتھ بصیرت بھی حاصل کرے ایسا علم جو کردار سنوارے، نہ کہ صرف جیب بھرے۔ وہ جانتے تھے کہ زنجیروں کی غلامی سے زیادہ خطرناک ذہنوں کی غلامی ہے۔ ہم نے سوچنے کی طاقت دوسروں کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ اقبالؒ کہتے تھے "غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں" یعنی جب انسان خود سوچنا چھوڑ دے تو پھر کسی ہتھیار سے آزادی نہیں ملتی۔ آج ہمیں پھر وہی فکری آزادی درکار ہے جس کی بنیاد خودی پر تھی۔
اقبالؒ کا پیغامِ عمل ہماری رگوں میں دوڑنا چاہیے تھا، مگر ہم نے اسے تقریروں میں دفن کر دیا۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ قومیں نعرے سے نہیں، عمل سے بنتی ہیں۔ ہم باتیں بہت کرتے ہیں، مگر قدم نہیں بڑھاتے۔ ہم خواب دیکھتے ہیں، مگر جاگنے سے ڈرتے ہیں۔ اقبالؒ کے نزدیک عمل وہ چنگاری ہے جو مردہ دلوں کو زندہ کر دیتی ہے۔ مگر ہم نے عمل کو “بعد میں دیکھیں گے” کا بہانہ بنا دیا ہے۔
آج اگر اقبالؒ ہمارے درمیان ہوتے تو شاید پوچھتے:
“کہاں ہیں وہ شاہین جن کی نگاہ بلند اور پرواز آزاد تھی؟ کہاں ہے وہ مردِ مومن جو دنیا کو بدل دیتا تھا؟ کیا تم وہی قوم ہو جس کے لیے میں نے خواب دیکھے تھے؟”
اور شاید ہم سر جھکا کر خاموش رہ جاتے، کیونکہ ہم نے اقبالؒ کے خواب کو خواب ہی رہنے دیا۔
اقبالؒ کا مسلمان وہ تھا جو ایمان میں مضبوط، کردار میں سچا، اور عمل میں مصروف ہو۔ مگر ہم نے ایمان کو رسومات، علم کو امتحان اور کردار کو مصلحت بنا دیا۔ اقبالؒ کے نزدیک شاہین وہ پرندہ ہے جو بلند پرواز کرتا ہے، بلندیوں میں رہتا ہے، مگر زمین پر نہیں رینگتا۔ مگر آج ہم نے اپنی پرواز چھوڑ دی ہے۔ ہم نے آسانیاں چن لیں، قربانیاں نہیں۔یومِ اقبالؒ ہمیں صرف یہ یاد نہیں دلاتا کہ وہ کب پیدا ہوئے، بلکہ یہ بھی کہ ہم کب جاگیں گے۔ یہ دن ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر ہم نے خودی، عمل اور علم کو اپنا شعار بنا لیا تو اقبالؒ کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔ جب یاد صرف تقریروں کے شور اور تصویروں کے فریم تک رہ جائے، تو قومیں خواب نہیں دیکھتیں، صرف نعرے دہراتی ہیں۔ ہم اقبالؒ کے وارث نہیں بنیں گے، اگر ان کے فلسفے کو عمل کی زبان نہ دیں۔
اقبالؒ کا ایمان تھا کہ امید کبھی مر نہیں سکتی۔ وہ کہتے ہیں:
“نہیں ہے ناامید اقبالؒ اپنی کشتِ ویراں سے،
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!”
یہی امید آج بھی زندہ ہے۔ اگر ہم اپنے اندر کی مٹی کو نم کر لیں، نیت کو خالص کر لیں اور اقبالؒ کے پیغام کو اپنی سوچ میں جگہ دے لیں تو ہم پھر سے وہی قوم بن سکتے ہیں جو خواب نہیں دیکھتی، خواب پورے کرتی ہے۔اور شاید تب ہم سچ میں اقبالؒ کے خواب کے وارث کہلانے کے قابل ہو جائیں وہ وارث جو صرف بولتا نہیں ۔ ۔ ۔ عمل بھی کرتا ہے۔

 

Ali Abbas Kazmi
About the Author: Ali Abbas Kazmi Read More Articles by Ali Abbas Kazmi: 18 Articles with 3437 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.