قلبِ سلیم
(سیف علی عدیل, Gujranwala)
| عمران عباس چدھڑ ایسے ہی دردمندانہ دل رکھنے والے قابلِ فخر آفیسر اور قابلِ احترام انسان ہیں |
|
قلبِ سلیم تحریر سیف علی عدیل انسان کی تخلیق کا راز صرف اس کی عقل زبان یا علم میں پوشیدہ نہیں بلکہ اُس دل میں چھپا ہے جو کسی اور کے دکھ پر دھڑک اٹھتا ہے عبادتیں بے شمار ہیں کوئی سجدوں میں اپنا نصیب تلاش کرتا ہے کوئی ذکر کے موتیوں سے دل کو روشن کرتا ہے کوئی روزوں کی بھوک سے روح کو جِلا دیتا ہے مگر خدا کے ہاں سب سے مقبول عبادت وہ ہے جو دل کے نرم گوشے سے جنم لیتی ہے کسی دوسرے کا درد محسوس کرنا اور اسے بانٹ لینا
یہی عبادت انسان کو انسان بناتی ہے یہی وہ لمحہ ہے جب بندہ خالق سے قریب ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر کے “میں” کو توڑ کر کسی دوسرے کے آنسو میں اپنے ہونے کا ثبوت ڈھونڈتا ہے دل کا وہ کرب جو کسی یتیم کے چہرے سے جھلک اٹھے وہ اضطراب جو کسی بیمار کے پہلو میں محسوس ہو وہ سکون جو کسی مجبور کے آنسو پونچھنے سے ملے یہی تو اصل عبادت ہے
خدا نے انسان کو صرف اپنے لیے پیدا نہیں کیا بلکہ اپنی مخلوق کے لیے رحمت بننے کو کہا عبادت اگر محض رسم بن جائے تو وہ ایک عادت بن کر رہ جاتی ہے مگر جب عبادت میں دل کی تپش انسانیت کی خوشبو اور کسی کے درد کو بانٹنے کی حرارت شامل ہو جائے تو وہ بندگی سے بڑھ کر رحمت بن جاتی ہے قرآن نے بارہا کہا کہ نیکی صرف نماز روزہ اور زکوٰۃ میں نہیں بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم دوسروں کے کام آؤ بھوکوں کو کھلاؤ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھو اور دکھ میں گھِرے دلوں کو سہارا دو یہی وہ عبادت ہے جسے فرشتے بھی فخر سے دیکھتے ہیں
کسی مفلس کے دروازے پر دستک دینا کسی غم زدہ کے شانے پر ہاتھ رکھنا کسی بیمار کی دوا بن جانا یہ سب بندگی کے رنگ ہیں یہ وہ عبادت ہے جس میں سجدہ نہیں مگر خدا کی خوشنودی چھپی ہے یہ وہ دعا ہے جو زبان سے نہیں دل سے نکلتی ہے اور خدا دل کی زبان کو سب سے زیادہ سنتا ہے
انسان کے دکھ کو محسوس کرنا محض نیکی نہیں بلکہ یہ خدا کی صفت کا عکس ہے رحم کرنا مخلوق پر شفقت کرنا کسی کے لیے آسانی پیدا کرنا یہ سب وہ اعمال ہیں جو بندے کو خالق کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں
جب کسی کے آنسو آپ کے دل کو بھگو دیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ کا دل زندہ ہے اور جس کا دل زندہ ہے وہی بندگی کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہے ہم میں سے اکثر عبادت کرتے ہیں مگر دل کو شامل نہیں کرتے زبان تسبیح پڑھتی ہے مگر دل خاموش رہتا ہے جبکہ سچی عبادت وہ ہے جس میں دل بھی سجدہ کرتا ہے اور دل کا سجدہ تب مکمل ہوتا ہے جب وہ کسی دوسرے کے دکھ میں جھک جائے
کبھی آپ نے غور کیا اللہ نے اپنی صفات میں سب سے پہلا تعارف رحمان اور رحیم کے الفاظ سے کرایا گویا خدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ بندگی کی اصل بنیاد رحم ہے اور جب بندہ کسی کے لیے نرم دل ہوتا ہے تو دراصل وہ اللہ کی صفت کو اپنے اندر زندہ کرتا ہے اسی لیے اولیاء اللہ انبیاء کرام اور اہلِ دل ہمیشہ یہی کہتے رہے بندگی محبت کے بغیر ممکن نہیں اور محبت درد محسوس کیے بغیر پیدا نہیں ہوتی
ایسی عبادتیں جو صرف رسم بن جائیں انسان کو مغرور بنا دیتی ہیں مگر وہ عبادت جو کسی کے دکھ کو محسوس کر کے کی جائے انسان کو خدا کے قریب کر دیتی ہے کبھی کسی یتیم بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں کبھی کسی بیمار کی دوا بن کر دیکھیں کبھی کسی پریشان دل کو تسلی دے کر دیکھیں آپ محسوس کریں گے کہ دل کے اندر ایک انوکھی روشنی جلتی ہے وہ روشنی ایمان کی محبت کی اور خدا کی رضا کی ہے
یہ دنیا اگر آج بھی قائم ہے تو ان دلوں کی بدولت جو دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں اگر ہر انسان صرف اپنے دکھوں میں مگن ہو جائے تو زمین قبرستان بن جائے مگر جو دل دوسروں کے لیے دھڑکتا ہے وہ زمین کو جنت بنا دیتا ہے اسی دل کو قرآن قلبِ سلیم کہتا ہے یعنی وہ دل جو پاک ہے نرم ہے احساس سے لبریز ہے یہی وہ مقام ہے جہاں عبادت محبت بن جاتی ہے اور محبت بندگی کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے
زندگی کا حسن صرف خوشی میں نہیں چھپا بلکہ اس لمحے میں پوشیدہ ہے جب انسان کسی دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ لیتا ہے یہی احساس بندگی کو انسانیت کے مرتبے پر پہنچاتا ہے دنیا میں علم و دولت رکھنے والے بے شمار ہیں مگر وہ لوگ بہت کم ہیں جن کے پاس دل کا علم ہو وہ جو کسی ٹوٹے دل کو سہارا دیتے ہیں جو کسی مایوس روح میں امید جگاتے ہیں جو کسی مجبور انسان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہیں وہی دراصل اس کائنات کے اصل وارث ہیں
اگر غور کریں تو انسان کی سب سے بڑی کمائی یہ نہیں کہ اس نے کتنی عبادتیں کیں بلکہ یہ ہے کہ کتنے دلوں کو اس نے راحت دی کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا لمحہ ہی سب سے بڑی نیکی ہے کوئی سجدہ اتنا قیمتی نہیں جتنا کسی بے بس کی آنکھ سے بہنے والا آنسو پونچھنے کا عمل یہ وہ مقام ہے جہاں عبادت بندگی کے درجے سے نکل کر عشقِ الٰہی کا رنگ اختیار کر لیتی ہے
خدا کے محبوب بندے وہی ہیں جو مخلوق کے دکھوں میں خدا کا جلوہ دیکھتے ہیں اولیاء اللہ نے ہمیشہ یہی فرمایا کہ مخلوق کی خدمت خالق کی عبادت ہے جو انسان دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے وہ دراصل زمین پر خدا کی رحمت کا مظہر بنتا ہے جب وہ کسی بھوکے کو کھانا دیتا ہے تو دراصل وہ اپنے دل کی بھوک مٹاتا ہے جب وہ کسی یتیم کے آنسو پونچھتا ہے تو اس کی اپنی روح کو سکون ملتا ہے
آج کے زمانے میں یہ احساس کم ہوتا جا رہا ہے ہر شخص اپنی دوڑ میں ہے ہر دل اپنے ہی بوجھ تلے دب گیا ہے کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں مگر ایسے ہی بے حسی کے اندھیروں میں جب کوئی دردمند انسان کسی کے لیے روشنی بن جائے تو وہ چراغ صرف ایک دل نہیں بلکہ کئی روحوں کو منور کر دیتا ہے وہ ایک انسان نہیں رہتا ایک احساس بن جاتا ہے
درد محسوس کرنا کمزوری نہیں بلکہ یہ دل کی طاقت ہے جو دوسروں کے لیے رو سکتا ہے وہی اصل میں جیتا ہے انسان کے اندر جب رحم زندہ ہوتا ہے تو خدا اس کے قریب ہو جاتا ہے وہ دل جس میں دوسروں کے لیے جگہ ہو وہی خدا کا مسکن ہے اور وہ دل جو صرف خود کے لیے دھڑکے وہ قید خانہ ہے
دوسروں کے دکھ میں شریک ہونا دراصل اپنے اندر کے خلوص کو جاگنے دینا ہے یہ وہ مقام ہے جہاں عبادت خدمت میں بدل جاتی ہے اور خدمت محبت میں محبت وہ قوت ہے جو زمانے بدل دیتی ہے ایک نرم دل انسان ہزاروں خطبوں سے زیادہ اثر رکھتا ہے وہ خاموشی سے محبت بانٹتا ہے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے اور اس کی مسکراہٹ میں خدا کی رحمت بولتی ہے
معاشرے کی بقا ان ہی لوگوں کے دم سے ہے اگر کچھ دل ایسے نہ ہوں جو دوسروں کے لیے دھڑکتے ہیں تو زمین خشک ہو جائے انسانیت کے اس سفر میں ہمیشہ ایسے چراغ جلتے آئے ہیں جنہوں نے اپنے سکون کو دوسروں کے درد کے بدلے قربان کیا یہی لوگ خدا کے خاص بندے ہیں یہی دل خدا کے دربار میں سب سے محبوب ہیں
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ جو ایک انسان کی جان بچاتا ہے گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا اس آیت میں محض جسم کی زندگی نہیں بلکہ دل کی زندگی کی بات ہے کسی کو مایوسی سے بچانا کسی ٹوٹے ہوئے دل میں امید ڈالنا یہ بھی انسان کی جان بچانے کے مترادف ہے
ایسے ہی قیمتی اور درد شناس لوگوں میں ایک روشن نام ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ کا ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے خدمتِ انسانیت کے مشن پر گامزن ہیں وہ پولیس کے محکمے میں ایک منظم اور باوقار عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اپنی شناخت ایک دردمند دل رکھنے والے خادمِ خلق کے طور پر بنائے ہوئے ہیں ان کی قیادت میں گوجرانوالہ ریجن میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے مسلسل بلڈ کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں خون کے بیگ جمع کیے جاتے ہیں جن کے ذریعے بے شمار مریضوں کو زندگی کی نئی سانسیں ملتی ہیں کہا جاتا ہے کہ اب تک وہ لاکھوں بلڈ بیگز جمع کروا چکے ہیں جو سینکڑوں بچوں اور نوجوانوں کے چہروں پر امید کی کرن بنے
عمران عباس چدھڑ کا طرزِ عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر نیت خالص ہو تو وردی بھی رحمت بن جاتی ہے اور عہدہ بھی عبادت۔ وہ عوام کے درمیان رہ کر خدمت کو اپنی عبادت کا درجہ دیتے ہیں اور انسانیت کو اپنی پہچان۔ ان کی کاوشیں محض کسی محکمے کی کارکردگی نہیں بلکہ اس دل کی گواہی ہیں جو دوسروں کے لیے دھڑکتا ہے ان کی نرم گفتاری عاجزی اور خدمت گزاری ان کی اصل پہچان ہیں
ایسے انسان معاشرے کے لیے امید کی کرن ہوتے ہیں وہ یہ سکھاتے ہیں کہ طاقت اختیار یا مقام کی اصل قیمت تب ہے جب وہ کسی کمزور کے کام آئے جو شخص دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کرتا ہے وہی اصل میں خدا کے قریب ہے
عمران عباس چدھڑ ایسے ہی دردمندانہ دل رکھنے والے قابلِ فخر آفیسر اور قابلِ احترام انسان ہیں |
|