کولہو کے بیل
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
| یہ تحریر دراصل پاکستانی قوم کی اجتماعی بے حسی، غلامانہ سوچ اور خود ساختہ خاموشی پر ایک گہری تمثیلی تنقید ہے۔ علی عباس کاظمی نے قوم کو "کولہو کے بیل" سے تشبیہ دی ہے — جو دن بھر چلتا رہتا ہے مگر وہیں رہتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ اسی طرح پاکستانی عوام بھی ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں پھنس چکی ہے، جہاں وہ ظلم، ناانصافی، رشوت، اور جھوٹ کو معمول سمجھ کر جی رہی ہے۔ |
|
|
کولہو کے بیل |
|
✍🏻 : علی عباس کاظمی(روپوال، چکوال)
ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ میں غلامی صرف ماضی کا باب نہیں بلکہ حال کی روزمرہ عادت بن چکی ہے۔ کبھی تاجروں کی غلامی، کبھی حکمرانوں کی اور اب اپنے ہی نظام کی۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہمیں غلامی میں بھی آہستہ آہستہ سکون ملنے لگا ہے۔ ہم اپنی زنجیروں کے شور کو موسیقی سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنی بے بسی کو تقدیر کا فیصلہ ۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم صدیوں سے ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں ۔ ۔ ۔ بالکل کولہو کے بیلوں کی طرح۔ کولہو کا بیل صبح سے شام تک چلتا رہتا ہے مگر جہاں سے چلنا شروع کیا تھا شام کو بھی وہیں ہوتا ہے۔ زمین اس کے قدموں تلے تھک جاتی ہے مگر اس کے قدموں کی سمت نہیں بدلتی۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے تاکہ وہ یہ نہ دیکھ سکے کہ وہ کہیں پہنچ نہیں رہا۔ آج کی پاکستانی عوام بھی اسی بیل کی مانند ہے۔ آنکھوں پر میڈیا، سیاست، مذہبی جذبات اور جھوٹی آسوں کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ صبح اٹھتا ہے، کام پر جاتا ہے، مہنگائی کو کوستا ہے پھر چپ ہو جاتا ہے۔ اگلے دن ۔ ۔ ۔ پھر وہی دائرہ، پھر وہی چکر۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم اتنے خاموش کیوں ہیں؟ کیا ہمارے دلوں میں درد نہیں رہا؟ یا ہم نے اپنے دکھوں سے سمجھوتہ کر لیا ہے؟ شاید ہم اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر بول پڑے تو کہیں روٹی چھن نہ جائے، نوکری خطرے میں نہ پڑ جائے، یا کسی طاقتور کی نظروں میں گستاخ نہ ٹھہریں۔ یہی وہ خوف ہے جو ہمیں انسان سے کولہو کے بیل بنا چکا ہے۔ ہماری قوم کے بیل اب صرف کولہو نہیں چلاتے، بلکہ ووٹ کے نام پر بھی ایک کولہو گھومتا ہے ۔ ۔ ۔ ہر پانچ سال بعد ہم اپنے مالک بدلتے ہیں مگر رسّی وہی رہتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید نیا مالک ہمیں آزادی دے گا، مگر وہ بھی ہمیں صرف مزید تیز چلانے آتا ہے۔ اور ہم خوش ہیں کہ ہمیں “جمہوریت” مل گئی۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ یا ایک نیا کولہو جس میں بیلوں کو صرف نعرے لگانے کی اجازت ہے؟ ہم اپنی محنت سے دنیا کو روشن کرتے ہیں مگر خود اندھیرے میں رہتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں مگر خود جہالت کے قیدی ہیں۔ ہم نظام کو برا کہتے ہیں مگر اسی نظام کو سہارا بھی دیتے ہیں۔ ہماری زبانیں شکایت کرتی ہیں مگر ہاتھ کبھی حرکت نہیں کرتے۔ہماری خاموشی نے منافقت کو روایت بنا دیا ہے۔ ہم ہر ظلم کو “چلو جی، سب یہی کرتے ہیں” کہہ کر جواز دے دیتے ہیں۔ رشوت، سفارش، ناانصافی، جھوٹ ۔ ۔ ۔ سب کچھ معمول بن چکا ہے۔ اور ہم پھر بھی فخر سے کہتے ہیں “ہم بہت صابر قوم ہیں۔” نہیں صاحب ۔ ۔ ۔ یہ صبر نہیں، یہ بے حسی ہے۔ یہ وہ سناٹا ہے جو قوموں کی موت سے پہلے چھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ اگر خدا کسی قوم پر رحم کرنا چاہے تو سب سے پہلے اس کی سوچ بدلتا ہے۔ مگر ہماری سوچ سو چکی ہے۔ ہم نے سچ بولنے والوں کو دیوانہ اور سوال کرنے والوں کوباغی اور غدار کہہ دیا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھنا بند کر دیا ہے کیونکہ دیکھنے سے دل دُکھتا ہے اور دل دُکھنے سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ ہم اب تکلیف سے بچنے کے لیے خود ساختہ اندھا پن اختیار کر چکے ہیں۔ کولہو کا بیل اگر ایک دن رک جائے، تو مالک فوراً کوڑا اٹھا لیتا ہے۔ ہماری زندگی میں بھی وہی کوڑا ہے ۔ ۔ ۔ بجلی کے بل، ٹیکس، مہنگائی، بے روزگاری۔ جیسے ہی ہم رکنے لگتے ہیں، یہ کوڑا ہمیں پھر دائرے میں گھما دیتا ہے۔ اور ہم سوچتے ہیں کہ یہ زندگی کا اصول ہے۔ نہیں ۔ ۔ ۔ یہ اصول نہیں ۔ ۔ ۔ یہ جبر ہے۔ مگر ہم نے اس جبر کو عبادت سمجھ لیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کے ایک بیل نے پٹی اتاری ۔ ۔ ۔ باقیوں کو بھی روشنی دکھائی۔ ایک شخص جب “کیوں” پوچھنے لگتا ہے تو پورے نظام کی بنیاد ہل جاتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں “کیوں” پوچھنا گستاخی بن چکا ہے۔ ہم نے بچوں کو سوال کرنے سے پہلے ہی ڈانٹ دیا، نوجوانوں کو بولنے سے پہلے ہی شرمندہ کر دیا اور سچ بولنے والوں کو تنہا چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب سچ صرف خواب بن چکا ہے۔ اگر ہم نے یہ خواب پھر سے دیکھنے کا حوصلہ نہ کیا تو ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی کولہو میں جکڑی رہیں گی۔ شاید وہ بھی ایک دن یہی کہیں گے: “بس قسمت میں یہی لکھا تھا۔” مگر قسمت لکھی نہیں جاتی ۔ ۔ ۔ بدلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ اُن ہاتھوں سے جو بندھے نہ ہوں ۔ ۔ ۔ اُن دماغوں سے جو سوچنے کی جرات رکھتے ہوں ۔ ۔ ۔ اور اُن زبانوں سے جو سچ بولنے کی ہمت کریں۔ ہمیں اپنے کولہو سے باہر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بدل چکی ہے، مگر ہم ابھی تک اسی پرانی رسی سے بندھے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زندگی صرف جینے کا نام نہیں ۔ ۔ ۔ سمت کے ساتھ جینے کا نام ہے۔ اگر ہم نے اپنی سمت خود نہ چنی تو کوئی اور ہمیشہ ہمارے لیے چنتا رہے گا۔اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے ۔ ۔ ۔ یا تو ہم کولہو کے بیل بنے رہیں، اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے، دائرے میں چکر لگاتے ۔ ۔ ۔ اور ایک دن خاموشی سے مٹی میں مل جائیں۔ یا پھر ایک دن پٹی اتار کر کہہ دیں " بس ۔ ۔ ۔ اب نہیں"۔ یہ ایک جملہ ہی کافی ہے انقلاب کی ابتدا کے لیے ۔ ۔ ۔ کیونکہ جب ایک بیل رک جاتا ہے ۔ ۔ ۔ تو پورا کولہو رُک جاتا ہے۔ |
|