”گاڑی کا کیا قصور تھا؟“ – جب سیاحت اتھارٹی بن گئی ’کار اتھارٹی‘
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخوا کی کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی، نام ہی کتنا خوبصورت ہے۔ ایک ایسا محکمہ جو دنیا کو خیبر پختونخوا کی خوبصورتی دکھانے کا دعوے دار ہے۔ لیکن اس بار لگتا ہے کہ اتھارٹی نے پہاڑ، جھیل یا ثقافت کو نہیں بلکہ چار پہیوں والی ثقافت کو فروغ دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ جی ہاں، وہی گاڑیاں جنہیں "کلچرل امبیسیڈر" بنا کر مشیروں، افسروں، اور شاید ان کے رشتہ داروں تک کے حوالے کر دیا گیا۔آڈٹ رپورٹ نے جب یہ راز کھولا کہ سیاحت اتھارٹی کے پاس موجود کئی گاڑیاں "سیاحوں" کے بجائے "سیاحتی افسران" کے ذاتی دوروں پر تھیں، تو بس ایک ہی جملہ یاد آیا:”گاڑی کا کیا قصور تھا؟“
رپورٹ کے مطابق، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے سیاحت نے دو عدد گاڑیاں لے رکھیں: ایک Toyota Fortuner اور دوسری Toyota Revo۔ بظاہر وہ شاید سمجھ بیٹھے ہوں کہ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے خود روزانہ "سفر" کرنا ضروری ہے۔فرق صرف اتنا تھا کہ سفر دفتر سے گھر تک اور پھر گھر سے بازار تک ہی محدود تھا۔اسی دوران سابق ڈی جی سیاحت (جو اب سیکریٹری ہیں) نے بھی دو گاڑیاں اپنے پاس رکھیں۔ پتہ نہیں یہ افسران سیاحت کو کہاں کہاں لے جانا چاہتے تھے، لیکن یہ طے ہے کہ سرکاری گاڑیاں گھوم پھر کر بہت تجربہ کار ہو چکی ہیں۔
آڈٹ ٹیم جب سیاحت اتھارٹی کے دفتر پہنچی تو ان کے مطابق وہاں کی فضا بالکل کسی کار شو روم جیسی تھی۔ بس فرق یہ تھا کہ یہاں پر گاڑیاں "سیل" نہیں ہوتیں بلکہ "سینئر افسران کے نام" پر "سیل آوٹ" ہوتی تھیں۔ایک گاڑی پر DG کا اسٹیکر، دوسری پر Advisor کا، تیسری کسی Additional Secretary کے زیرِ سایہ۔ حیرانی یہ نہیں کہ گاڑیاں تھیں، حیرانی یہ ہے کہ یہ سب گاڑیاں سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال ہو رہی تھیں – بس سیاحوں کے بغیر۔
جب آڈٹ والوں نے پوچھا: "یہ سب گاڑیاں کن کے زیر استعمال ہیں؟" تو ایک صاحب نے ہنستے ہوئے کہا،"سر! یہ سب گاڑیاں عوامی خدمت کے لیے ہیں۔" آڈٹ ٹیم نے پھر پوچھا: "عوام کہاں ہیں؟" جواب ملا: "گاڑیوں کے آگے پیچھے نظر نہیں آتے، لیکن فائدہ ان ہی کو پہنچ رہا ہے!"رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کچھ گاڑیاں رجسٹریشن ریکارڈ میں تو ہیں، مگر اتھارٹی کے پاس ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔مثلاً ایک Toyota Surf 1993، جس کا پتا نہیں کہ اب Surf کر رہی ہے یا Scrape ہو گئی۔ ایک Honda Civic 2008 ہے جو اتنی پرانی ہے کہ اب خود ریٹائرمنٹ کی درخواست دینا چاہتی ہوگی۔ اور ایک Revo 2023 جو شاید اب کسی "ریویو" کے انتظار میں ہے۔
رپورٹ کے مطابق، صرف پٹرول اور مرمت پر 43 لاکھ 77 ہزار روپے خرچ کیے گئے۔ اب اگر یہی پیسہ کسی مقامی ثقافتی میلے پر لگا ہوتا تو شاید پشاور کے لوگ بھی خوش ہوتے اور محکمہ بھی کچھ "سیاحتی" دکھائی دیتا۔لیکن نہیں، یہاں تو پٹرول کا سفر "عوامی خدمت" سے ہوتا ہوا "ذاتی خدمت" تک پہنچ گیا۔ گاڑیاں اتنی مصروف تھیں کہ لگتا ہے ایک دن آڈٹ رپورٹ بھی ان سے لفٹ مانگنے پر مجبور ہو گئی ہوگی۔مشیرِ سیاحت نے شاید یہ سوچا ہوگا کہ اگر میں خود سفر کروں گا تو سیاحت بڑھے گی۔ Fortuner میں بیٹھ کر اگر سڑکوں پر چکر لگاو¿ں تو لوگ کہیں گے:"دیکھو، حکومت سیاحت کو کتنی سنجیدگی سے لے رہی ہے!" حالانکہ عوام کے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے: "سیاحت بڑھی یا Revo کی مائلیج؟"
محکمہ ثقافت و سیاحت کا نام بدل کر "محکمہ کلچر آف کارز" رکھ دینا چاہیے۔ ایک طرف عوام سوات، کالام، چترال کے خوبصورت مناظر دیکھنے کی امید رکھتے ہیں، اور دوسری طرف افسران اپنی گاڑیوں کے "نئے فیچرز" دیکھنے میں مصروف ہیں۔ جہاں ایک طرف ریاستی فنڈز سے میلے ملتوی ہو رہے ہیں، وہاں دوسری طرف گاڑیوں کے ٹائر، انجن اور بیٹریاں تازہ دم رہتی ہیں۔آڈٹ ٹیم نے 18 ستمبر 2024 کو محکمے سے جواب طلب کیا، پھر 4 دسمبر اور 31 دسمبر کو یاد دہانیاں بھیجیں۔ لیکن DAC اجلاس نہیں ہوا۔ وجہ غالباً یہ ہوگی کہ متعلقہ افسران انہی گاڑیوں پر آڈٹ سے "سیر و تفریح" کے لیے نکل گئے ہوں گے۔ اگر کبھی اجلاس ہوا تو شاید کسی ہوٹل کے پارکنگ ایریا میں ہوگا، تاکہ "سب گاڑیاں ایک جگہ جمع ہو سکیں۔" یہ ساری کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ سیاحت کو فروغ دینے کے بجائے گاڑیوں کی گردش زیادہ فعال ہے۔ گاڑیوں نے وہ آزادی حاصل کر لی ہے جو آج کے عام سرکاری ملازم کو بھی نصیب نہیں۔ ان پر نہ ٹوکن کا خوف، نہ چالان کا ڈر، نہ آڈٹ کا اثر۔ محکمہ چاہے DAC بلائے یا PAC، گاڑیوں کا جواب ایک ہی ہے: "ہم تو سفر پر نکلے ہیں، لوٹ کر آنا ممکن نہیں!"اب اگر حکومت واقعی احتساب چاہتی ہے تو ان گاڑیوں کو ضبط نہ کرے بلکہ انہیں "سیاحتی گائیڈ" بنا دے۔ یہی وہ گاڑیاں ہیں جنہیں خیبر پختونخوا کی سڑکوں، دفاتر اور بنگلوں کا مکمل علم ہے۔ ان سے بہتر کوئی "ٹور گائیڈ" نہیں مل سکتا۔
سیاحت کا محکمہ اب گاڑیوں کے سہارے چل رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ڈرائیور افسر ہیں، منزل نہیں!
#TourismComedy #AuditSatire #KPKVehicles #PublicFundsHumor #MusarratUllahJanColumn #GovernmentLuxury #KPKTourismComedy #VehicleScandal #SatireColumn #MusarratUllahJanWrites #AuditLaughs |