*زندگی کے آخری حصے کی خاموش سچائیاں*



*زندگی کے آخری حصے کی خاموش سچائیاں*


انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ



جب انسان ساٹھ برس کی دہلیز پر آتا ہے تو اسے پہلی بار محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا سفر اب اوپر کی جانب نہیں، واپسی کی طرف مڑ رہا ہے۔ روشنی مدھم ہوتی ہے اور منظر بدل جاتے ہیں۔ انسان کی اصل آزمائش یہی ہے کہ انسان ان مناظر کو پہچان کر خود کو اپنے اندر سے تیار کر لے۔

پہلا منظر یہ ہے کہ ساتھ چلنے والے کم ہوتے جاتے ہیں۔ والدین رخصت ہو چکے ہوتے ہیں، بھائی بہن اپنی ذمہ داریوں میں کھو جاتے ہیں، بچے اپنی دنیا بنا لیتے ہیں۔ میں نے ایسے بزرگ دیکھے ہیں جن کی جوانی دوستوں کے شور میں گزری، مگر بڑھاپا خاموش کمروں میں۔ یہ حقیقت ہے کہ تنہائی اس مرحلے میں ناگزیر ہوتی ہے۔ ہمیں تنہا جینا اور تنہائی سے دوستی کرنا سیکھنی پڑتی ہے۔

دوسرا منظر یہ ہے کہ معاشرہ توجہ ہٹا لیتا ہے۔ چاہے انسان نے بڑے عہدے رکھے ہوں یا معروف رہا ہو، بڑھاپے میں کوئی دروازے پر پھول لے کر نہیں آتا۔ میں نے ایک ریٹائرڈ ڈائریکٹر کو صبح پارک میں عام سی کرسی پر بیٹھے دیکھا، جنھیں کبھی لوگ کھڑے ہو کر سلام کرتے تھے۔ وہ مسکرا کر کہتے تھے کہ اصل وقار تب ہوتا ہے جب انسان اپنی موجودگی کا چراغ خود تھام لے، دوسروں کی روشنی کا انتظار نہ کرے۔

تیسرا منظر جسمانی خطرات کا ہے۔ ایک ہلکی سی ٹھوکر بھی مہینوں کا درد بن جاتی ہے۔ بیماری راستے میں کھڑے درختوں کی طرح ہیں جن سے بچنا نہیں، ان کے سائے میں چلنا سیکھنا ہے۔ ایک بزرگ خاتون کہتی تھیں کہ بیماری نے مجھے کمزور نہیں کیا، اس نے مجھے برداشت سکھا دی۔

چوتھا منظر بستر کی واپسی ہے۔ بچپن میں ماں ہمیں اٹھا کر سلایا کرتی تھی، مگر بڑھاپے میں یہ سہارا اکثر اجرتی ہاتھوں کے پاس ہوتا ہے۔ وہ سچّے دل سے خدمت کریں یا جلدی میں، ہمیں شکر گزار رہنا ہوتا ہے۔ اس عمر میں عاجزی انسان کی سب سے بڑی حفاظت ہوتی ہے۔

پانچواں منظر فریب کا ہے۔ میں نے خود ایسے واقعات دیکھے ہیں جہاں فون کالوں اور جعلی اسکیموں نے بزرگوں کی جمع پونجی کو نشانہ بنایا۔ دنیا جانتی ہے کہ بزرگ نرم دل ہوتے ہیں، اس لیے زیادہ محتاط رہنا ضروری ہے۔ پیسہ بچانا بڑھاپے کی حفاظت ہے، لالچ اور معجزاتی دعووں سے بچنا عقلمندی ہے۔

چھٹا منظر ساتھ چلنے والے ساتھی کا ہے۔ اس عمر میں بچے مصروف ہو جاتے ہیں اور آخر میں صرف شریکِ حیات یا قریبی ساتھی ہی ساتھ رہ جاتا ہے۔ میں نے ایک بزرگ جوڑے کو دیکھا جو جھگڑنے کے دن بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ساٹھ کے بعد محبت ضرورت نہیں، سہارا بن جاتی ہے۔

یہ سب مناظر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی کا آخری حصہ کمزور ہونے کا نہیں بلکہ سمجھدار ہونے کا وقت ہے۔ معاشرے کو بدلنے کی خواہش چھوڑ دیں، بچوں کی زندگی میں مداخلت کم کر دیں، غرور کو دل سے نکال دیں۔ اس عمر میں اصل سکون تب ملتا ہے جب انسان خود کو اور دوسروں کو آسانی دینے لگے۔

رات آہستہ اترتی ہے، مگر ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اس سفر کو نرمی سے قبول کریں۔ زندگی کے آخری پڑاؤ پر وقار، سکون اور خدا سے مضبوط تعلق ہی اصل دولت ہے۔

اللہ تعالی سب کو جو اپنے عمر کی چھ دہائیوں کو پہنچ گئے اور اور بہت سے ہمارے رشتہ دار و دوست احباب کچھ سال اور کچھ ابھی پہنچنے جارہے ہیں ان سب کو اپنی حفظ و ایمان پر قائم رکھے.
آمین 
انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 495 Articles with 335206 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.