چین کی ترقیاتی معاونت

چین کی ترقیاتی معاونت
تحریر: شاہد افراز خان ، بیجنگ

گلوبل ساوتھ کی ترقی، استحکام اور پائیدار نمو کے حوالے سے جاری بین الاقوامی مباحث میں چین کا کردار مسلسل نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف عالمی فورمز پر ہونے والی گفتگو اور شائع ہونے والی رپورٹس اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ بیجنگ نے گزشتہ برسوں میں نہ صرف ترقیاتی تعاون کے دائرے کو وسعت دی ہے بلکہ صحت، تجارت، گرین ٹرانزیشن اور عالمی طرزِ حکمرانی کے میدانوں میں بھی قابلِ ذکر اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات نے چین کو ترقی پذیر ممالک کے ایک مؤثر شراکت دار کے طور پر مستحکم کیا ہے۔

گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کے تحت معاونت

چین نے "گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو" کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی معاونت کے سلسلے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ اس پلیٹ فارم کے تحت 23 ارب ڈالر سے زائد وسائل متحرک کیے گئے جن کا مقصد گلوبل ساوتھ میں اقتصادی ترقی، معاشرتی استحکام اور دیرپا ترقیاتی اہداف کی تکمیل میں مدد فراہم کرنا تھا۔ مختلف خطوں میں شروع کیے گئے 1,800 سے زیادہ تعاون منصوبے زرعی ترقی، غربت کے خاتمے، صنعتی صلاحیت میں اضافے اور ڈیجیٹل معیشت کے فروغ جیسے شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

بین الاقوامی مبصرین کے مطابق اس پہلو نے چین کو اُن ممالک کے لیے قابل اعتماد ترقیاتی شراکت دار کے طور پر پیش کیا ہے جو بہتر معاشی مواقع اور سماجی بہتری کے لیے نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کے لیے طبی تعاون

چین کی جانب سے فراہم کی جانے والی طبی معاونت کئی دہائیوں پر محیط ہے۔چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، 1963ء سے اب تک قریب 30 ہزار چینی طبی ماہرین کو 77 ممالک اور خطوں میں بھیجا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 43 ممالک کے 48 ہسپتالوں کے ساتھ باقاعدہ شراکت داریاں قائم کی گئی ہیں جن کے تحت جدید طبی آلات، مہارت کی منتقلی اور تربیتی پروگراموں کی فراہمی شامل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت کے میدان میں چین کی مدد نے کئی ترقی پذیر معاشروں میں بنیادی طبی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، خصوصاً اُن خطوں میں جہاں مقامی وسائل محدود تھے۔

عالمی مبصرین کے مطابق چین کا "گلوبل گورننس انیشی ایٹو" نہ صرف ترقی پذیر دنیا کی خواہشات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر انصاف اور مساوات کے فروغ کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔

تاہم ،گلوبل گورننس انیشی ایٹو موجودہ عالمی نظام کی جگہ لینے کے لیے نہیں بلکہ اسے زیادہ متوازن، مستحکم اور ہمہ گیر بنانے کے لیے ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تصور گلوبل ساوتھ کے اُن ممالک کے لیے کشش رکھتا ہے جو بین الاقوامی فیصلوں میں زیادہ شرکت اور مؤثر نمائندگی کے خواہاں ہیں۔

گرین ڈیولپمنٹ اور ماحولیاتی تعاون

عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں چین کی گرین ڈیولپمنٹ پالیسیوں کو بھی سراہا جا رہا ہے۔دنیا تسلیم کرتی ہے کہ شدید ماحولیاتی چیلنجوں کے باعث مشترکہ عالمی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں، اور چین کی سبز تبدیلی ترقی پذیر ممالک کے لیے نئے مواقع فراہم کرتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی قابل تجدید توانائی کی صنعت، الیکٹرک وہیکل ٹیکنالوجی، توانائی کے مؤثر استعمال اور کم کاربن معیشت کی جانب منتقلی نے کئی ممالک کو تکنیکی تعاون اور سرمایہ کاری کے نئے امکانات مہیا کیے ہیں۔

چین۔آسیان اقتصادی روابط

آسیان خطے کے ممالک کے لیے چین تجارت، سرمایہ کاری اور صنعتی تعاون کا اہم ترین شراکت دار بن چکا ہے۔ چین۔آسیان فری ٹریڈ ایریا نے دونوں جانب اقتصادی تعلقات کو واضح سمت فراہم کی ہے۔یہ توقع بھی ظاہر کی گئی ہے کہ آنے والے برسوں میں آسیان ممالک چین کے ساتھ گرین انڈسٹری میں تعاون کو مزید مضبوط کریں گے اور سپلائی چین کے تسلسل کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات اپنائیں گے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آسیان ممالک میں صنعتی ڈھانچے کی بہتری، تکنیکی ترقی اور پائیدار تجارت کے فروغ میں چین کے ساتھ تعاون کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

عالمی تعاون کے نئے افق

تجزیاتی حلقوں کے مطابق چین کی ترقیاتی معاونت، طبی خدمات، سبز تبدیلی اور پالیسی سطح پر پیش کردہ گلوبل انیشی ایٹوز ایسے رجحانات کو جنم دے رہے ہیں جو مستقبل کے عالمی نظام پر دیرپا اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ ان اقدامات نے چین کے کردار کو نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر ترقی کے محرک کے طور پر تقویت دی ہے۔

گلوبل ساوتھ کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات ایک ایسے بین الاقوامی معاشی و سفارتی ماحول کی تشکیل کے لیے اہم ہیں جہاں مشترکہ ترقی، تعاون اور ہم آہنگی بنیادی اصول کے طور پر ابھرتی نظر آتی ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ رجحان آئندہ برسوں میں مزید واضح ہوتا جائے گا، خصوصاً جب ترقی پذیر ممالک عالمی نظام میں زیادہ جامع نمائندگی اور عملی اشتراک کے خواہاں ہوں گے۔ 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1726 Articles with 989809 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More