ہم نے قرآن کو صرف ثواب کی کتاب کیوں سمجھا؟
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
| یہ تحریر بتاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو صرف ثواب اور عبادت کی کتاب بنا کر اس کے اصل پیغام—عقل، علم، تحقیق، انصاف اور انسانیت—کو نظرانداز کر دیا۔ مذہبی طبقوں نے سوال کو گناہ اور سوچ کو خطرہ بنا کر دین کی وسعت کو محدود کر دیا، جبکہ قرآن بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ نتیجتاً مسلمان زوال کا شکار ہوئے۔ مصنف کا پیغام ہے کہ قرآن کو خود سمجھیں، عقل و علم کا راستہ اپنائیں اور دین کی اصل روح کو دوبارہ زندہ کریں۔ |
|
|
ہم نے قرآن کو صرف ثواب کی کتاب کیوں سمجھا؟ |
|
ہم نے قرآن کو صرف ثواب کی کتاب کیوں سمجھا؟ علی عباس کاظمی (روپوال،چکوال) مولوی حضرات برسوں سے ہمیں ایک ہی بات سمجھاتے آ رہے ہیں “انسان صرف عبادت کے لیے پیدا ہوا ہے، اس دنیا میں اس کا کوئی دوسرا مقصد نہیں۔” ان کے نزدیک ہمارے نبی کریم ﷺ بھی بس اسی پیغام کے لیے مبعوث ہوئے کہ لوگوں کو عبادت کی ترغیب دیں اور انہیں جنت و جہنم کی خبریں سناتے رہیں۔ مگر یہ سارا بیانیہ نہ صرف سطحی ہے بلکہ اس عظیم دین کے اصل پیغام، اس کی وسعت، اس کی آفاقیت اور اس کی انقلابی روح سے میل ہی نہیں کھاتا۔ سچ یہ ہے کہ مذہب کا یہ کمزور اور تنگ تصور انہی لوگوں نے تشکیل دیا جنہیں نہ عبادت کا مفہوم سمجھ آیا اور نہ تاریخ کا گہرا شعور نصیب ہوا۔ وہ لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ حضور ﷺ کس دور میں آئے، انسانیت کس حالت میں تھی، معاشرے کس ظلم کے شکنجے میں تھے۔ وہ زمانہ ایسا تھا کہ طاقت ہی قانون تھی۔ جنگل کا اصول چلتا تھا، جس کے پاس قوت تھی وہی راج کرتا تھا اور جو کمزور تھا وہ اپنی زندگی بھیڑ بکری کی طرح طاقتور کے قدموں میں گزارنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ بت پرستی نے عقل کا قتل کر رکھا تھا، یونانی فلسفہ میں خداؤں کی قطار، ہندومت میں اوتاروں کی بھرمار اور عرب معاشرت میں بتوں کی پرستش۔۔۔ ان سب نے انسان کو اس کی انسانیت سے محروم کر دیا تھا۔ بادشاہ خود کو خدا مانتے تھے، مذہبی پیشوا طاقتوروں کے ساتھ مل کر ظلم کو “مقدس” بنا دیتے تھے اور معاشرہ جہالت کی دلدل میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسی سیاہ رات جیسے دور میں نبوتِ محمدی ﷺ کی پہلی کرن نے انسانیت کو راہ دکھائی۔۔ آپ ﷺ نے انسان کو انسان بنایا، اس کی سوچ کو آزاد کیا، غلامی کے بت توڑے، نسل و برتری کے دعوے مٹائے، علم کو اصل طاقت قرار دیا اور معاشرے کو عدل و انصاف کی بنیاد پر کھڑا کیا۔ آپ ﷺ نے عبادت کو محض جسمانی اعمال تک محدود نہیں کیا بلکہ اسے ایک ہمہ گیر نظامِ حیات بنایاجس میں فرد بھی شامل ہے اور معاشرہ بھی، عبادت بھی شامل ہے اور علم بھی، عاجزی بھی شامل ہے اور تحقیق بھی۔ افسوس! جب دین اپنی مکمل شکل میں ہمارے پاس پہنچ چکا تھا، تب ہمیں چاہیے تھا کہ ہم اسی پر مضبوطی سے قائم رہتے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ دین تو ایک ہی تھا، مگر ہم اسے فرقوں میں بانٹتے گئے۔ ہر گروہ نے ایک نئی تعبیر کھڑی کی، ہر مسلک نے دوسرے کو کافر قرار دیا اور یوں مذہب ایک جنگی مورچہ بن گیا۔ جس دین کا پیغام انسانیت کو وحدت میں باندھنا تھا، جب وہی تفرقے کا سبب بن جائے تو زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہی زوال ہمیں آج اپنی پوری شدت کے ساتھ گھیرے ہوئے ہے۔ وہ امت جس نے کبھی سائنس، فلسفہ، ریاضی، طب، جغرافیہ اور فلکیات کی بنیادیں رکھیں، آج سوال کرنے سے ڈرتی ہے، سوچنے سے گھبراتی ہے، تحقیق کو گناہ سمجھتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تنزل کا بڑا حصہ انہی مذہبی پیشواؤں کے کھاتے میں جاتا ہے جنہوں نے قرآن کی اصل روح کو محدود کر دیا۔ وہ اس کتابِ عظیم کو صرف جنت و جہنم کے خاکوں تک لائے اور انسانیت، عقل، سائنس، کائنات اور تحقیق جیسے بڑے موضوعات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ مولوی کہتے ہیں: “قرآن ضابطۂ حیات ہے”، مگر اس ضابطے کی زندگی کہاں گئی؟ انہوں نے اس کتاب کو صرف اخلاقی نصیحتوں، چند حلال و حرام کے فتوؤں اور عبادت کے چند طریقوں تک محدود کر دیا۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ قرآن کائنات کا علمی منشور ہے، انسان کے تخلیقی سفر کا رہنما ہے اور دنیا کے ہر علم کا دروازہ اسی کی آیات سے کھلتا ہے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ سوال کریں تو جواب نہیں ملتا۔ مولوی سوال کو “گناہ” بنا دیتے ہیں، بحث کو “گمراہی” قرار دیتے ہیں اور علم کو “خطرہ” سمجھتے ہیں۔ اس رویے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ بہت سے مذہبی پیشوا دین کے علمی پہلو سے واقف ہی نہیں ہوتے، انہیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر سوالات بڑھ گئے تو ان کی کم علمی کھل جائے گی۔ دوسری وجہ یہ کہ اگر عوام قرآن کو تحقیق کی نظر سے سمجھ لیں، تو وہ ان کے حلقۂ اثر سے باہر نکل جائیں گے۔ یہی وہ خوف ہے جس نے مذہب کو چند افراد کی ذاتی جاگیر بنا دیا ہے۔ حالانکہ قرآن تو ہر صفحے پر عقل کی طرف بلاتا ہے۔ وہ کہتا ہے: “کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟ کیا تم دیکھتے نہیں؟” یہ کتاب تحقیق کا حکم دیتی ہے، علم کی فضیلت بیان کرتی ہے اور انسان کو کائنات میں بکھری ہوئی نشانیاں پڑھنے کا حکم دیتی ہے۔ لیکن مدرسوں میں آج بھی یہی پڑھایا جاتا ہے کہ “دین میں عقل کی گنجائش نہیں۔” حالانکہ قرآن خود اعلان کرتا ہے کہ“بدترین مخلوق وہ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے”۔ حیرت ہے کہ قرآن عقل کا حکم دے رہا ہے اور مولوی عقل کو جرم بنا رہے ہیں۔ یہی تو وہ فکری تضاد ہے جس نے مسلمان ذہن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، ایک حصہ جو سوال کرتا ہے مگر ڈرتا ہے اور دوسرا حصہ جو جواب نہیں دے سکتا مگر دھمکاتا ہے۔ اسلام دین ہے۔۔۔ وسیع، کھلا، روشن، پرسکون، سوال کی اجازت دینے والا، علم کو فروغ دینے والا۔ جبکہ مذہب۔۔۔ بطور ادارہ۔۔۔اکثر تنگ، بند، خوف زدہ، طاقت کا بھوکا اور سوال سے خائف ہوتا ہے۔ یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں دین اور مذہب میں فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر آج مسلمان زوال کا شکار ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآن کا علم چھوڑ دیا، تحقیق کو ترک کر دیااور مذہب کے نام پر خوف کو اپنا دین بنا لیا۔ اے مسلمان! وقت ہے کہ تم جاگ جاؤ۔ ان پیروں، ملاؤں اور مذہبی تاجروں سے آزاد ہو جاؤ جنہوں نے تمہاری عقل پر تالے لگا رکھے ہیں۔ قرآن خود پڑھو، علم کے راستے پر چلو، سوال کرو، تحقیق کرواور دین کو اس کی اصل وسعت کے ساتھ سمجھو۔ اسلام تنگ نہیں۔۔۔تنگ صرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسے تنگ بنا رکھا ہے۔ اگر ہم نے ایک دن کسی سائنسدان یا محقق سے قرآن پڑھا ہوتا، تو شاید ہماری دنیا کچھ اور ہوتی، ہمارا سفر کچھ اور ہوتا، اور ہمارا مقام بہت بلند ہوتا۔ راستہ آج بھی کھلا ہے۔۔۔بس قدم اٹھانے کی دیر ہے۔ |
|