چین کی معیشت پر عالمی اداروں کا اعتماد
(SHAHID AFRAZ KHAN, Beijing)
|
چین کی معیشت پر عالمی اداروں کا اعتماد تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
سال 2025 کے اختتام کے قریب آتے ہی بین الاقوامی معاشی اداروں، مالیاتی تنظیموں اور تحقیقاتی اداروں کی جانب سے چین کی اقتصادی کارکردگی کے بارے میں اندازوں میں مسلسل بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اگرچہ جغرافیائی سیاسی کشیدگی، عالمی تجارتی رکاوٹیں اور بیرونی غیر یقینی عوامل اپنی جگہ برقرار ہیں، تاہم مجموعی طور پر یہ ادارے اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ چین کی مضبوط معاشی بنیادیں، مؤثر پالیسی ٹولز اور ساختی تبدیلیاں آئندہ برسوں میں ملکی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھیں گی۔
معروف مالیاتی ادارے گولڈمین ساکس نے نومبر کے آخر میں جاری اپنی رپورٹ میں چین کی 2025 کے لیے حقیقی جی ڈی پی کی پیش گوئی 4.9 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگلے دو برسوں میں اس شرح میں مزید اضافے کا امکان ہے، جو کہ چین کی اندرونی طلب، صنعتی اپ گریڈیشن اور برآمدات کی مضبوط کارکردگی کی عکاسی کرتا ہے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ آنے والے چند برسوں میں چین کی حقیقی برآمدات کی بڑھوتری کا اندازہ 5 سے 6 فیصد سالانہ تک لگایا جا رہا ہے، جو کہ اس سے قبل 2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع کی گئی تھی۔ اس بہتری کی وجہ عالمی منڈیوں میں چینی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مسابقت اور برآمدی ڈھانچے میں ٹیکنالوجی پر مبنی جدت کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اکتوبر میں ہونے والے کلیدی پارٹی اجلاس میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے 2026 سے 2030 تک کے لیے 15ویں پنج سالہ منصوبے کی سفارشات منظور کیں۔ رپورٹس کے مطابق اس منصوبے میں روایتی صنعتوں جیسے دھات سازی، کیمیکلز اور ٹیکسٹائل کی جدید کاری کے ساتھ ساتھ نئی ابھرتی ہوئی صنعتوں، بالخصوص نئی توانائی، کے فروغ پر زور دیا گیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ مرکزی اور مقامی دونوں سطحوں پر حکومت کی جانب سے درکار مالیاتی، انتظامی اور لاجسٹک معاونت فراہم کی جائے گی، جو مجموعی طور پر برآمدات کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔
معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم نے بھی اپنی تازہ رپورٹ میں چین کی 2025 کی جی ڈی پی کی پیش گوئی 4.9 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کر دی، جبکہ عالمی معاشی نمو کا تخمینہ 3.2 فیصد پر برقرار رکھا۔ تنظیم کے مطابق چین کی توسیعی مالیاتی پالیسی، آمدنی میں اضافے کے اقدامات اور صارفین کی کھپت بڑھانے کے لیے متعارف کردہ پروگرام ،خصوصاً گاڑیوں اور گھریلو آلات کے پرانے کے بدلے نیا پروگرام ،اقتصادی استحکام کے لیے مثبت اثرات پیدا کر رہے ہیں۔
متعدد بین الاقوامی مالیاتی ادارے چین کے پالیسی ٹول کٹ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ ڈیویچے بینک حکام نے کہا کہ چین کی جانب سے مالیاتی پالیسی میں تیزی، خاص طور پر 500 ارب یوآن مالیت کے نئے پالیسی بیسڈ مالیاتی آلے کا اجرا، گھریلو طلب کو مضبوط معاونت فراہم کرے گا، جس کے اثرات 2025 کی آخری سہ ماہی اور 2026 کی ابتدا میں واضح طور پر دیکھے جا سکیں گے۔
مورگن اسٹینلے نے اپنی تازہ رپورٹ میں پیش گوئی کی کہ 2026 میں چین کی اقتصادی کارکردگی معتدل مگر مستحکم رہے گی، جبکہ اس کارکردگی کی بنیاد اہدافی پالیسی نرمی، معاشی توازن کی جانب بتدریج پیش رفت اور سماجی و معاشی اصلاحات ہوں گی، جن میں "اینٹی انوولوشن" مہم بھی شامل ہے۔
ملکی سطح پر بھی مالیاتی ادارے اس مثبت رجحان کی توثیق کر رہے ہیں۔ماہرین کے نزدیک چین کی وسیع ترین داخلی منڈی اور مضبوط صنعتی نظام باہمی ہم آہنگی کے ذریعے معاشی نمو کے لیے بھرپور گنجائش فراہم کرتے ہیں، جبکہ میکرو پالیسی ٹول باکس بھی وسیع اور مؤثر ہے۔چین کا بیرونی تجارتی ڈھانچہ بتدریج بہتر ہو رہا ہے، جہاں ٹیکنالوجی اور لاگت میں کمی نے برآمدی کمپنیوں کے منافع کو مستحکم کرنے میں مدد دی ہے۔ اسی طرح صارفین کی نئی طلب پر مبنی شعبے ،جیسے آئی پی ٹرینڈ کھلونے اور مقامی برانڈز ،نئے ترقیاتی انجن کے طور پر ابھر رہے ہیں اور ان کی عالمی موجودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی کمپنیوں کا بڑھتا اعتماد بھی چین کی معاشی سمت کے حوالے سے مثبت اشارے فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، رواں سال شنگھائی میں منعقدہ امپورٹ ایکسپو میں ایک سالہ متوقع معاہدوں کی مالیت 83.49 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جو گزشتہ برس سے 4.4 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح گوانگ جو میں 138ویں کینٹن فیئر میں 3 لاکھ 10 ہزار سے زائد غیر ملکی خریدار شریک ہوئے، جہاں آن سائٹ متوقع برآمدی معاہدوں کی مالیت 25.65 ارب ڈالر رہی۔
چین کے پالیسی ساز پرامید ہیں کہ ملک کی معیشت کی مستحکم کارکردگی، اعلیٰ معیار کی ترقی میں پیش رفت اور مضبوط لچک و بے پناہ امکانات جیسے بنیادی عوامل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، یہی عوامل آئندہ مدت میں بھی چین کی اقتصادی ترقی کے لیے بنیادی ستون کے طور پر برقرار رہیں گے۔ |
|