محصورین پاکستانی کی بنگلہ دیش سے پاکستان منتقلی

بنگلہ دیش کے محصورین
قوم کے لاوارث فرزند اور ہماری آخری ذمہ داری

تحقیقی جائزہ : ٖفیض خان
یہ مسئلہ پچاس برس پرانا ضرور ہے، مگر اس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں، سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جن لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، پاکستانی فوج کا ساتھ دیا، اور خود کو ’’پاکستانی‘‘ کہہ کر دشمن کا پہاڑ اپنے سر پر اٹھا لیاوہی لوگ آج دنیا کی سب سے بڑی اسٹیٹ لیس کمیونٹی بن کر ڈھاکہ کے کیمپوں میں سسک رہے ہیں۔
سوال صرف یہ نہیں کہ انہوں نے پاکستان کے حق میں کیوں فیصلہ کیا… سوال یہ ہے کہ ہم نے ان کے حق میں کیا کیا؟
کامیاب ترین اور سب سے مؤثر سیاسی کوشش — (MQM/مہاجر قومی موومنٹ / ایم کیو ایم پاکستان
تاریخی ریکارڈ پر سب سے زیادہ دباؤ، سب سے زیادہ آواز اور سب سے زیادہ عملی کوشش اگر کسی جماعت نے کی تو وہ MQM تھی۔
کیوں؟
1988 سے 2000 اور پھر 2008–2016 تک ہر بار قومی اسمبلی، سینٹ اور میڈیا میں یہی جماعت تھی جو اس مسئلے کو باخبر، باقاعدہ اور مسلسل اجاگر کرتی رہی۔
1990 کی دہائی میں وہ واحد جماعت تھی جس کے وفود نے کراہنڈی، میرپور، پروف اللہ کیمپ، شہباز نگر، اور جاہور کیمپوں تک جا کر محصورین کی فہرستیں حاصل کیں اور انہیں پاکستانی دفترِ خارجہ تک پہنچایا۔
2008 میں MQM نے قومی اسمبلی میں ریپیٹری ایشن پالیسی کی باقاعدہ قرارداد پیش کی جو کسی اور جماعت نے نہ کی۔
ایم کیو ایم کی جدوجہد جذباتی بھی تھی، دستاویزی بھی، اور سیاسی بھی سب سے نمایاں، سب سے مسلسل، اور سب سے توانا۔
جماعتِ اسلامی
اصولی، نظریاتی اور انسانی کردار
اگر کوئی جماعت ہے جس نے ضمیر کی بنیاد پر یہ مقدمہ لڑا تو وہ جماعتِ اسلامی ہے۔
جماعت اسلامی نے سب سے پہلے 1972 میں یہ معاملہ اٹھایا۔
1974، 1980 اور 2002 میں بنگلہ دیشی حکومت سے رابطے کیے کہ ’’یہ لوگ پاکستان کے وفادار ہیں، انہیں واپس لینے دیں‘‘۔
الخدمت سمیت جماعت اسلامی نے ہمیشہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آواز اٹھائی، کبھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کی۔
ہاں، وزن MQM جتنا نہیں تھا، مگر کردار ناقابلِ انکار ہے۔
پاکستان مسلم لیگ
خاموش مگر موجود کردار
مسلم لیگ کے کردار کو مکمل صفر نہیں کہا جاسکتا۔
2003 میں حکومتِ پاکستان نے روہنگیا اور دیگر اسٹیٹ لیس گروپس کے ساتھ محصورین کے مسئلے پر ایک ورکنگ پیپر تیار کیا، جس میں اس وقت کی PML-Q حکومت کا ہاتھ موجود تھا۔
نواز شریف نے اپنے ایک 1997 کے خطاب میں اس مسئلے کو ’’قوم کی اخلاقی ذمہ داری‘‘ کہا۔
تاہم عملی دباؤ، مؤقف اور پارلیمانی جدوجہد میں مسلم لیگ پیچھے رہی—آواز موجود تھی مگر کمزور تھی، نیشنل پریشر نہیں بنایا۔
ون کون اس کی مخالفت کرتا رہا؟
یہ وہ سچ ہے جسے پاکستانی سیاست ہمیشہ نرم لہجے میں بولتی رہی، مگر حقیقت یہ ہے:
۱۔ صوبائی قوم پرست جماعتیں
، قومی عوامی پارٹی، اور کئی بلوچ قوم پرست دھڑے مسلسل یہ اعتراض اٹھاتے رہے کہ ’’اگر محصورین واپس آئے تو سندھ یا بلوچستان کا ڈیموگرافک ڈھانچہ بدل جائے گا‘‘۔
سندھ میں کچھ قوم پرست گروپوں نے اس کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
۲۔ کچھ سیکولر لبرل حلقے
ان کا موقف تھا کہ ’’بنگلہ دیش اب الگ ملک ہے، وہاں کی نئی نسل کو ادھر لانا غیر عملی ہے‘‘۔
۳۔ بیوروکریسی اور ریاستی ادارے
سفارتی وجوہات، بجٹ کا بوجھ، اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات یہ تینوں نکات ہمیشہ خاموش مزاحمت بنے رہے۔
ایمانداری سے پوچھیں تو… اصل مسئلہ کیا ہے؟
اصل مسئلہ ’’قانونی‘‘ نہیں… ’’سیاسی‘‘ بھی نہیں…
اصل مسئلہ دل کا ہے، ارادے کا ہے، اخلاقی ذمہ داری کا ہے۔
یہ لوگ پاکستان سے وفادار رہے
پاکستان کو اپنا وطن سمجھتے رہے
پاکستان کے نام پر مر مٹتے رہے
اور پھر…
پاکستان نے ان کے دروازے پر تالا ڈال دیا۔
یہی سچ ہے، تلخ مگر سچ۔
اب اس مسئلے کے حل کیلئے کیا حکمتِ عملی ہونی چاہئے؟
یہاں تحقیقی بھی، جذباتی بھی، اور حقیقت پسند بھی بات کی گئی ہے
1۔ قومی سطح پر "ریپیٹری ایشن کمیشن" کا قیام
پارلیمنٹ، دفترِ خارجہ، مذہبی و سماجی تنظیمیں، اور تمام صوبوں کے نمائندوں پر مشتمل مستقل کمیشن—جس کا ایک ہی مقصد ہو:
محصورین کی مرحلہ وار واپسی۔
2۔ واپسی کو ’’سندھ کا مسئلہ‘‘ نہ سمجھا جائے قومی مسئلہ بنایا جائے
ہمیں اعلان کرنا ہوگا کہ یہ صرف کراچی یا سندھ کی ذمہ داری نہیں۔
پورا پاکستان ذمہ دار ہے۔
تمام صوبوں کو ری سیٹلمنٹ میں حصہ دینا ہوگا۔
3۔ پہلے مرحلے میں صرف "پاکستانی اولڈ ڈاکومنٹس ہولڈرز" کو بلایا جائے
کیمپوں میں ہزاروں ایسے خاندان موجود ہیں جن کے پاس 1970 کی دہائی کے پاکستانی دستاویزات موجود ہیں۔
انہیں لانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔
4۔ دوسرے مرحلے میں ’’نئی نسل‘‘ کو شہریت کے حصول کا سادہ طریقہ دیا جائے
جیسے کئی ممالک جنگوں کے بعد اپنے شہریوں کی دوسری نسل کو بھی باآسانی شہریت دیتے ہیں۔
5۔ سیاسی جماعتوں کے مشترکہ اعلامیے کی ضرورت
ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، اور ANP اگر اکٹھا ہو کر ایک مشترکہ پریس کانفرنس کریں
تو یہ مسئلہ ایک سال کے اندر زندہ اور فعال ہوسکتا ہے۔
6۔ میڈیا پر مسلسل مہم کہ یہ قومی سلامتی کا نہیں، انسانیت کا مسئلہ ہے

کیونکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ میڈیا جب چاہے کسی مسئلے کو زندہ رکھ سکتا ہے
اور کسی کو دفنا بھی سکتا ہے۔
7۔ ڈائسپورا پاکستانیوں کو شامل کیا جائے یعنی ان لوگوں کوجو پاکستا ن سے نکل کر دنیا کے مختلف ممالک جس میں
کنیڈا ،ٓمریکہ،برطانیہ،سعودی عرب و متحدہ عرب امارات منتقل
ہوچکے ہیں وہ تمام کمیونٹیز ری سیٹلمنٹ فنڈ میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
آخر میں… ایک تلخ مگر ناگزیر سوال
جب پاکستانیوں کے بچوں نے پاکستان کے لیے اپنی وفاداریاں قربان کر دیں…
تو اب پاکستان کب وہ قرض اتارے گا جو ان کے خوابوں، ان کے گھروں، اور ان کی نسلوں پر واجب الادا ہے؟
ہم کب تک تاریخ کے اس باب کو ادھورا چھوڑیں گے؟
اور کب تک وہ بچے جنہوں نے پاکستان کو کبھی دیکھا نہیںپاکستان کو صرف اپنے باپ کی آنکھوں کے آنسوؤں میں تلاش کرتے رہیں گے؟
یہ مسئلہ آج نہیں… پانچ دہائیوں پہلے حل ہوجانا چاہئے تھا۔
اب بھی وقت ہے۔
اگر ہم نے اب بھی نہ کیا
تو پھر مذید پچاس سال تک اس شرمندگی کا بوجھ اٹھاتے رہیں۔
لہذا اردو بولنے والے راہے عامہ ہموار کریں اور متذکرہ سیاسی جماعتوں کو اس اہم مسئلے کی حل کیلئے ایک ٹیبل پر بیٹھنے پر مجبور کردیں
اور عوام مشترکہ ڈیڑھ اینٹ کی اپنی اپنی خود ساختہ محراب و منبر سے نکل کر اجتماعیت دکھائیں۔

 

Faiz Khan
About the Author: Faiz Khan Read More Articles by Faiz Khan: 2 Articles with 27 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.