بنگلہ دیش کے اردو بولنے والے مہاجر

بنگلہ دیش کے اردو بولنے والے
ادھوری شناخت مسلسل انتظار
فیض خان
ہجرت صرف سرحد پار کرنے کا نام نہیں۔
یہ یادوں، دکھوں اور امیدوں کا ایک طویل سفر بھی ہے۔
بنگلہ دیش میں بسنے والے اردو بولنے والے مہاجرین شاید آج بھی اسی سفر کے کسی موڑ پر کھڑے ہیں
جہاں منزل کا نشان تو نظر آتا ہے، مگر راستہ صاف دکھائی نہیں دیتا۔
چار نسلیں گزر گئیں۔
بچے بڑے ہوئے، بڑے بوڑھے بنے،
مگر سوال وہی پرانا ہے:
کیا ہم یہاں کے شہری ہیں یا اب بھی مہاجر؟
یہ سوال صرف قانونی نہیں، سماجی بھی ہے۔
جسم بنگلہ دیش میں ہے، لیکن دل وہ ابھی تک قبولیت کے انتظار میں ہے۔
مسئلہ کاغذ کا نہیں دلوں کا ہے
شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نے شاید کاغذی مسئلہ حل کر دیا ہو،
لیکن انسان کاغذ نہیں ہوتا۔
اسے عزت چاہیے، جگہ چاہیے،
اور سب سے بڑھ کر قبولیت چاہیے۔
اردو اسپیکنگ نوجوان آج بھی یہ سب تلاش کر رہے ہیں۔
جیسے کوئی دروازہ کھٹکھٹائےاور اندر سے خاموشی ہو۔
تعلیم کمزوری نہیں، چابی بن سکتی تھی
بدقسمتی یہ کہ سب سے مضبوط ہتھیار
تعلیم
اسی کمیونٹی کے ہاتھ سے سب سے پہلے چھوٹا۔
کئی بستیوں میں اسکول کی دیوار تک نہیں۔
جواں دل نوجوان یا تو مزدوری کرتے نظر آتے ہیں
یا پسماندگی ان کے خوابوں کو چاٹ گئی ہے۔
تعلیم اگر مضبوط ہوتی
تو شاید تصویر کچھ اور ہوتی۔
سیاست جہاں ان کی آواز دھیمی پڑ گئی
اردو بولنے والے بنگلہ دیش کی سیاست میں موجود تو ہیں،
مگر یوں جیسے کسی بڑے ہال میں ایک چھوٹی سی آواز
سنائی تو دیتی ہے،
مگر وزن نہیں رکھتی۔
کوئی مضبوط پلیٹ فارم نہیں،
کوئی مشترکہ قیادت نہیں،
نہ ہی کوئی ایسا شخص جو یہ بات ریاست کو پوری طاقت سے یاد دلائے
کہ یہ لوگ بھی اسی دھرتی کے ہیں۔
معاشی دباؤ… زندہ رہنے کی جنگ
بنگلہ دیش کے شہروں میں
ہزاروں خاندان آج بھی
چھوٹے موٹے کاموں پر زندگی گزار رہے ہیں۔
مزدوری، دستکاری، ریڑھی
کسی کو بھی نہیں معلوم کہ اگلے مہینے کیا ہوگا۔
اصل تکلیف یہ نہیں کہ روزگار کم ہے،
اصل تکلیف یہ ہے کہ
ہنرمند ہاتھوں کو بھی
صرف شناخت کی بنیاد پر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
مستقبل خوف سے امید تک
یہ بات درست ہے کہ مستقبل
ریاست بھی بناتی ہے
اور قوم بھی۔
اگر اردو اسپیکنگ کمیونٹی
تعلیم، ہنرمندی، اور سماجی ہم آہنگی کو اپنا راستہ بنا لے
اور ریاست بھی
قانون سازی اور سماجی قبولیت پر توجہ دے
تو راستہ صرف صاف نہیں ہوگا،
بلکہ منزل بھی قریب محسوس ہوگی۔
اختتام—کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی
اردو بولنے والوں کا سفر
مشکل ضرور ہے،
لیکن ناممکن نہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے
نصف صدی دباؤ، محرومی اور بےسمتی میں گزار دی،
مگر اپنی شناخت اور اپنی زبان
زندہ رکھی۔
یہ شکست نہیں
یہ مزاحمت ہے۔
اور ہر مزاحمت کے آخر میں
ایک نئی صبح ضرور ہوتی ہے

 

Faiz Khan
About the Author: Faiz Khan Read More Articles by Faiz Khan: 2 Articles with 28 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.