ہمارے یہ تجزیہ نگار بھی عجیب
ہیں ۔کچھ کے نزدیک آل پارٹی کانفرنس( APC)کا اعلامیہ امریکی انتظامیہ کو اس
کی حیثیت یاد دلا گیا اور وہ اپنا تھوکا چاٹنے پر مجبور ہو گیا اور کچھ کے
خیال میں باون(52) جماعتوں کی آٹھ ،نو گھنٹے کی پریکٹس محض وقت کا زیاں اور
کارِ بیکار ٹھہری۔دونو اقسام کے تجزیہ نگاروں کی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا
اپنا راگ ۔بیچ میں ہم جیسے ” نو وارد “ او ر ’ ’نوآموز“ اِدھر اُدھر لڑھکتے
پھرتے ہیں کہ دو جانب ہی سقّہ لکھاری اور گھاگ تجزیہ نگار ۔۔۔ سوال دامن
گیر ہے کہ
کسے یاد رکھیں ، کسے بھول جائیں
اور اگر کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر لڑھکنیاں کھانیں لگیں تو لوگ”لوٹا“ بلکہ
”لوٹی“ کہنے لگیں گے اور ہمیں مفت میں لوٹے بننے کا شوق ہر گز نہیں ۔البتہ
اگر کوئی قدر دان مل جائے تو کوئی ہرج بھی نہیں کہ میدانِ صحافت کے کئی
نامی گرامی پہلوان اکھاڑہ بدلنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہیں کرتے ۔چاہوں
تو کئی نام گنوا دوں لیکن جانتی ہوں کہ وہ سب ”سنسر“ کی نظر ہو جائیں گے اس
لئے وہ جو کرتے ہیں ، کرتے پھریں ”سانوں کی “ ۔
پھر یہ بھی عین حقیقت ہے کہ ہر کسی نے اپنا اپنا قبلہ متعین کر رکھا ہے جس
سے وہ سرِ مو انحراف کو بھی تیار نہیں۔کوئی اپنے مخصوص دائرے سے باہر
جھانکنا گوارہ تک نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ کسی کو APC میں کیڑے ہی کیڑے نظر
آتے ہیں تو کوئی اس کو تاریخِ پاکستان کی عظیم ترین کامیابی قرار دے رہا ہے
،حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ بہت سی خوبیوں سے مزیّن APC میں بے شمار خامیاں
بھی موجود ہیں ۔سب سے پہلی بات جو بری طرح محسوس کی گئی وہ بلوچستان کی
نمائندگی نہ ہونا تھی۔بیرونی دنیا میں ایک عام تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ
بلوچستان میں علیٰحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ۔اگر بلوچ رہنماؤں کو
کسی بھی طریقے سے منا کر APC میں شامل کر لیا جاتا تو امریکہ ، جو گوادر پر
نظریں گاڑے بلوچ لبریشن آرمی کا پشتیبان بن کر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل
چاہتا ہے ، اس کے لئے بِلا شبہ یہ ایک بہت بڑا دھماکا ثابت ہوتا۔ضروری تھا
کہ محبِ وطن سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کو بہر صورت منایا جاتا
اور ایسا کرنا جناب ِ آصف زرداری کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کہ روٹھوں کو
منانے میں انہیں مہارتِ تامہ حاصل ہے۔سابق گورنر اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان
نواب اکبر بگٹی مرحوم کے بیٹے طلال بگٹی کو یہ گلہ ہے کہ انہیں سرے سے دعوت
ہی نہیں دی گئی۔کاش کہ بلوچستان کو بھر پور نمائندگی دی جاتی اور یہ آل
پارٹی کانفرنس ، آل پاکستان کانفرنس کاروپ دھار کر سامنے آتی۔اس کے علاوہ
بھی کئی رجسٹرڈ پارٹیوں کو مدعو نہیں کیا گیا جبکہ کانفرنس میں ایسے چہرے
بھی موجود تھے جنہیں شاید یہ قوم پہلی دفعہ ٹی۔وی سکرین پردیکھ رہی ہو۔مزید
یہ کہ یہ کانفرنس قومی یکجہتی کے لئے بلائی گئی تھی لیکن آٹھ ، نو گھنٹے کی
تگ و دو کے بعد بھی اپنا وہ تاثر قائم نہیں کر سکی جو تقاضا ئے وقت تھا
۔اگر اس کے مزید تین چار سیشن ہو جاتے تو ہرج ہی کیا تھا؟۔ شاید راہبرانِ
قوم اندر بیٹھے تلملا رہے ہوں کہ کب جان چھوٹے اور وہ کب باہر جا کر اپنی
پرانی ڈگر پہ آ سکیں۔دیکھ لیجئے کانفرنس کے متفقہ اور مشترکہ اعلامیہ کے
اگلے ہی دن ایک دفعہ پھر جوتیوں میں دال بٹنے لگی اور ہم یہ سوچنے پر مجبور
ہو گئے کہ ” یہ کبھی نہیں سدھریں گے“ ۔
جو لکھاری یہ کہتے ہیں کہ کانفرنس کے ” متفقہ اعلامیے “ میں کچھ نہیں تھا
ان کی نظر تو خیر کمزور ہو گی ہی لیکن بصد ادب ان کے فہم وتدبر میں بھی کمی
ہے۔یہ کانفرنس سلطان راہی مرحوم کی طرح ”بڑھکیں “ مارنے کے لئے نہیں بلائی
گئی تھی (حالانکہ پہلے میرا بھی یہی خیال تھا) بلکہ امریکہ کے ساتھ ہی ساتھ
اقوامِ عالم کو بھی ایک پیغام دینا مقصود تھا جو میری ناقص رائے میں کما
حقہ پہنچا دیا گیا ۔امریکہ جو ہماری نظریاتی اور جغرا فیائی سرحدوں کی
محافظ آئی۔ایس۔آئی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا تھا ، اسے یہ پیغام پہنچ گیا
کہ نہ صرف جناب زرداری اور گیلانی صا حب بلکہ تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں
فوج اور آئی۔ایس۔آئی کی پشت پر پوری استقامت کے ساتھ کھڑی ہیں۔میاں نواز
شریف کے یہ الفاظ کہ انہیں جنرل کیانی سے محبّت ہے کیونکہ وہ جمہوریت کی
بقا کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں ، وائٹ ہاؤس کے لئے واضح اشارہ تھا کہ اگر
قوم پر کڑا وقت آیا تو ہم سب ایک ہیں۔امریکہ کو واضح پیغام نہ پہنچانے کی
دہائی دینے والے افلاطونی لکھاریوں سے سوال ہے کہ کیا یہ امریکہ کے منہ پر
تھپڑ نہیں کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن لینے کے لئے طرح طرح کی
دھمکیاں دے رہا ہے اور ہمارا اعلامیہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے انہیں
قومی دھارے میں لانے پر زور دے رہا ہے۔کیا یہ واضح اشارہ نہیں کہ ”مسٹر ڈو
مور“ اب ”نومور“ ؟۔ ۔۔۔ چلتے چلتے یہ بھی بتلاتی چلوں کہ بعد از خرابی ¿
بسیار ہی سہی لیکن ”مولوی“ بہرحال جیت ہی گئے کہ وہ روزِ اوّل سے ہی فوجی
ایکشن کی بجائے مذاکرات پر زور دے رہے تھے اور عمران خان بھی ۔تحقیق کہ اسی
سے امن کی راہ نکلتی ہے اور یہی دینِ مبین کا سبق بھی ہے ۔آخر میں بس یہی
دُعا کہ اس ”اعلامیے“ کا بھی وہی حشر نہ ہو جو اس سے پہلے اعلامیوں کا ہو
چُکا ہے۔ |