ہم کون ہیں کیا ہیں بخدا یاد
نہیں
اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں !
اتنے مصروف دور میں کون یاد رکھتا ہے اسلاف کی ادائیں؟ صلاح الدین ایوبی کے
بارے میں سُنا ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ کسی ملک کو فتح کرنے کے لئے
اتنا کافی ہے کہ اس ملک کی فوج اور عوام کے بیچ نفرت اور دوری پیدا کردی
جائے۔ راجہ انور نے کہا تھا کہ یہ پڑھے لکھے لوگ بھی کتنے بددیانت ہوتے ہیں
جو محسوس کرتے ہیں، وہ کہہ نہیں پاتے۔جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو کرتے
ہیں وہ صرف دھوکہ اور فریب ہوتا ہے۔
پے در پے واقعات لکھنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ خبر سن کر اس پر جب تک نہ لکھوں
تو دل عجیب سی حرکت میں مبتلا کئے رکھتا ہے میں اپنے آپ کو ایویں ہی مصروف
رکھنے کے لئے زندگی کو مشاغل کی نذر کئے رکھتا ہوں تاکہ سب کچھ بھول جاﺅں
مگر ہنگامہ ہائے سوہ زیاں میں بھی مجھے یادیں اور یہ خبریں اور واقعات اداس
رکھتے ہیں۔ اس سے قبل کہ میرا حافظہ مجھے غیر محفوظ ہونے کا احساس دلائے
مجھے لکھنا چاہیے۔ ماضی، حال اور مستقبل وقت کی وسعتوں اور لا محدود
پنہائیوں کو چند منٹ میں سمیٹتا ہے۔ میں محقق نہیں مگر صحافی ہوں اس لئے
مشاہدات، تجربات اور تصورات کا سہارا لینا حق سمجھتا ہوں۔
خیر بات ہورہی تھی اسلاف کی تو صلاح الدین ایوبی کے قول کو آپ پڑھیں پھر آج
کل کے واقعات کو دیکھیں ۔ ایبٹ آباد کا واقعہ ہی لے لیں فوج کے امیج کو
کتنا بڑا دھچکا، فوج کو کتنا بدنام کیا گیا۔ ریاض کی کنگ عبد العزیز
یونیورسٹی سے سول انجینئر کی ڈگری لینے والا عرب شہزادہ اسامہ بن لادن وہاں
تھا یا نہیں یہ الگ موضوع ہے مگر پاک فوج کا امیج یہاں اس واقعے سے بُری
طرح خراب ہوا ہے پھر اس کے بعد پی۔ این ۔ ایس مہران پر حملہ اور طیاروں کی
تباہی، اتنے حساس جگہ پر کاروائی اس سے بھی ہماری فوج اور دیگر عسکری
اداروں کا امیج کس قدر تباہ ہوا یہ عوامی حلقے آپ کو بتائیں گے۔ چیچن
باشندوں پر رینجرز کی فائرنگ اور کراچی میں ایک نہتے شخص پر رینجرز کے
جوانوں کی بے دردی سے ایک مرتبہ جو اعتماد اُٹھا۔ اللہ خود حفاظت فرمائے۔
یکم اور دو مئی سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ با الٓاخر ایک اور ایسی ہی فضا
میں لاکھڑا کرتا ہے جہاں پر حساس ترین ایریا آپ کہہ سکتے ہیں وہاں پر
تعینات حاضر سروس بریگیڈئیر جس کے والد اور چھوٹے بھائی ، خود اس کا بیٹا
اور یہاں تک کہ داماد بھی پاک آرمی سے ہیں کو جی ایچ کیو سے گرفتا ر کرلیا
جاتا ہے۔ اور یہ گرفتاری بھی ایک ایسی کالعدم تنظیم سے رابطوں کی وجہ سے
عمل میں لائی گئی ہے۔ جس پر پرویز مشرف نے اپنی مخالفت کی وجہ سے پابندی
لگائی تھی۔ جبکہ امریکا نے اس تنظیم کو جنگجو اور دہشت گرد قرار نہیں۔ وہاں
ابھی تک لکی وکی میڈیا کی معلومات حزب التحریر کے بارے میں ہو تعارف کرواتی
ہے کہ حزب التحریر اپنے ایجنڈے کے مطابق سیاسی جدوجہد اور مسلم وغیر مسلم
ممالک کے مسلمانوں کو متحد کرکے ایک ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ حزب التحریر
کا اس وقت سب سے مضبوط نیٹ ورک خود برطانیہ میں ہے۔ پرویز مشرف نے اس وقت
برطانیہ کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی پابندی لگانے پر لیکن ناکامی ہوئی۔
بریگیڈئیر علی خان کے کیس کا معاملہ عجیب صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے۔
مگرپاک فوج کو اس وقت اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو برقرار رکھنے یا مزید روز
بروز تنزلی کی طرف جانے سے روکنے کے لئے بہت سوچنے اور جدو جہد کی ضرورت
ہے۔ ورنہ دشمن اس صورت حال میں فائدہ ہی اٹھا سکتا ہے۔ یکم مئی سے 20جون کے
پے درپے واقعات کا تجزیہ کرلیا جائے صورت حال سب سامنے آجائے گی۔
خیر بریگیڈئیر علی خان کا معاملہ فی الحال چلے گا۔ حقیقت سامنے آجائے گی۔
مگر ضرورت اس وقت یہ ہے پاک فوج اور عوام کے بیچ کا یہ خلا جو یقینا صورت
حال کے ادراک میں تو مایوس کن ہے اس میں جنرل کیانی بہترین رول ادا کرتے
ہوئے اس مایوسی کی فضا کو دور کریں۔ اور اس کا ممکنہ حل ایک ہی ہے کہ ملکی
سالمیت پر مزید ڈرون حملے بند کروائیں۔ تب یہ مایوسی کی صورت حال ختم
ہوسکتی ہے۔ جنرل کیانی کے ایسے اقدام سے قوم کو یہ پیغام ملے گا کہ
میرے وطن کے اداس لوگوں نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی تم سے حساب مانگے، خوشیوں کی کتاب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو کہ اُٹھ کر کہے یہ تم سے
وفائیں اپنی ہمیں لوٹادو، وطن کو اپنے ہمیں تھمادو
اُٹھو ! اور اُٹھ کر بتادو ان کو کہ ہم ہیں اہل ایمان سارے
نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے۔ ہمارے دل میں تو اک خدا ہے۔
یقین جانئیے اگر آپ ڈرون حملے رکوادیتے ہیں، یہ مایوسی کی دلدل میں پھنسی
قوم آپ کے شانہ بشانہ ہوگی۔ یہ اقدام غیرت کا عملی مظہر بھی ہوگا اور خود
اعتمادی کی فضا کو خوب خوشگوار بھی کرے گا۔ |