ایکسپریس گروپ کے زیر اہتمام
گزشتہ ہفتہ(29اکتوبرکو) ایک نشست میں ’نیویارک ٹائمز‘ کے کالم نگار اور تین
مرتبہ کے پلٹزر انعام (Pulitzer Prize)سے سرفراز معروف صحافی تھومس ایل
فرائڈمین نے امریکا کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا طور پر یہ
نشاندہی کی ہے کہ امریکااپنی راہ سے بھٹک گیا ہے ۔ ملک قرض پر پنپنے والے
معیشت کے مالیاتی بحران سے ہی دوچار نہیں ہے بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے وہ
مختلف قسم کے بحرانوں میں مبتلا ہے۔ ‘ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے جو
غلطی کی ہے اس سے بڑی غلطی کسی قوم یا ملک سے سرزد ہونا ممکن نہیں اوروہ یہ
کہ سرد جنگ کے خاتمہ کو اس نے اپنی فتح جانا، حالانکہ یہ آزادی فکر کی فتح
تھی۔‘ اور یہ کہ عالم کاری کے دور میں ہند ، برزیل اور چین کی ترقی پذیر
معیشتوں کے ساتھ دوڑ میں شامل رہنے کے بجائے غلط ترجیحات کا انتخاب کیا، جس
میں 2001میں القاعدہ کے پیچھے پڑ کر مزید پیچیدگیاں پیدا کرلیں۔‘
امریکا کی زوال پذیر حالت پر بیشک یہ ایک جامع تبصرہ ہے ۔ شاید اب امریکا
کوبھی یہ احساس ہونے لگا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعداپنی اقتصادی اور
فوجی طاقت کے زعم میں اس نے جو سفارتی اور عسکری اقدام کئے وہی اس کی تباہی
کا باعث بنے ہیں۔حالیہ مالیاتی بحران اورخلائی پروگرام میں تخفیف کے نتیجہ
میں شاید یہ احساس شدید ہواہے کہ وہ تعمیرو ترقی اور تحقیق کی اس روایت سے
بھٹک گیاہے جس کاآغاز الوا ایڈیسن نے 1879 میں بجلی کے بلب کی ایجاد سے کیا
تھا۔ یہی روایت امریکا کی شوکت و عظمت کا اصل سرچشمہ تھی جس کےلئے اس نے
دنیا بھر سے ذہین لوگوں کو اپنے اندر جذب کرلینے کے دروازے کھول رکھے تھے،
جو ا ب بند ہورہے ہیں۔گلوبلائزیشن کے نئے ماحول میں اقوام عالم میں اتحاد
اور معاونت کو فروغ دینے کے بجائے اس نے’ تہذیبوں کے ٹکراﺅ ‘اور’ کمیونزم
کے بعد سب سے بڑا خطرہ اسلام‘ کے نظریہ کے تحت ’اسلامی دہشت گردی ‘ کا جو
مفروضہ کھڑا کیا اسی نے اس کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا۔ امریکی معاشرہ آج جن
مشکلات سے گزر رہا ہے اور عدم تحفظ کی جس نفسیات کا شکار ہے ،وہ اسی مفروضہ
سے جنگ کا نتیجہ ہے۔چنانچہ کثیر ثقافتی تہذیبوں کے امریکی گلدستہ میں اب
بہت سارے خار نکل آئے ہیں اورامریکیوں کو ہرٹوپی،ہر پگڑی، اسکارف اور حجا ب
میں بم نظر آنے لگے ہیں۔ معززترین افراد کے کپڑے اترواکر تلاشی کو جائز
قرار دیاجانے لگا ہے۔
مگرامریکا کے بھٹکاﺅ کی تاریخ اس سے پرانی ہے۔دنیا بھر میں یورپی
نوآبادیاتی نظام کے زوال سے جو خلا پیدا ہوا، اس کو پر کرنے اور اپنی
چودھراہٹ جمانے کےلئے اس نے عالمی سطح پرعسکری اور سفارتی مہم چھیڑدی تھی
مگر دوسری بڑی عالمی طاقت سوویت یونین اس کی راہ میں مزاحم رہی۔ سردجنگ کا
خاتمہ اس طرح ہوا کہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور یک قطبی دنیا میں
امریکا واحد بڑی طاقت رہ گیا۔ چنانچہ دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کرلینے اور
اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی اس کی ہوس نے اس کو باﺅلا کردیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے 67 شہروں پر اس کی شدید بمباری اوردو
شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر نیوکلیائی حملہ (6اگست 1945 ) اور پھر سنہ
60کی دہائی میں ویتنام پر یلغار میں بھی اس کی یہی ذہنیت کارفرما تھی۔
گزشتہ ایک صدی میں دینا بھر میں برپا ہونے والی شورشوں اور مسلح جھڑپوں یا
جنگوں میں کسی نہ کسی درجہ میں امریکا کا ہاتھ ضروررہا ہے،حالانکہ امریکا
پر کبھی کوئی حملہ نہیں ہوا۔9/11کا واقعہ بھی تحیقق طلب ہے کہ اصل ذہن کس
کا تھا؟
سرد جنگ کے بعد واحد بڑی عالمی طاقت اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے
ناطے اس پر بڑی ذمہ داری عاید ہوتی تھی، لیکن اس ذمہ داری کو نبھانے کے
بجائے اس نے دنیا میں، خصوصا ً عالم اسلام میں اپنی اجارہ داری اور ایک نئی
طرح کی استعماریت قائم کرنے کی جد و جہد شروع کر دی۔ مشرق وسطیٰ کے قلب میں
اسرائیل کا وجود اور اس کا تحفظ، شمال افریقی ممالک اور مشرق وسطٰی
میںبشمول یمن، افغانستان اور پاکستان جو شورشیں برپا ہوئی ہیں، ان سب کےلئے
امریکا کے یہی عزائم ذمہ دار ہیں۔امریکا چاہتا تو پوری دنیا کو اپنی مہارت
اورمعاونت سے گل گلزار بنا سکتا تھا، جو بے پناہ دولت اس نے جنگوں میں
گنوائی ہے اس سے دنیا سے غربت و افلاس، امراض اور ناخواندگی کا خاتمہ
ہوسکتا تھا مگر بدقسمتی سے وہ راہ سے بھٹک گیا اور دنیا کے ایک بڑے خطے کو
جہنم میں تبدیل کردیا۔ لاکھوں افراد کو اپنے جنون جنگ میں موت کے منھ میں
پہنچادیا۔ حد یہ ہے کہ خود امریکا میںمفلسوں کی شرح میں تیز رفتار اضافہ
ہوا ہے۔
مسٹر فرائڈ مین نے اپنے تبصرے میں گزشتہ 20سال کا ذکر کیا ہے۔شاید ان کا
اشارہ اس چنگاری سے ہے جو خلیج کے خطے میں اگست1990 میں کویت پر عراق کے
قبضے سے لگی تھی ۔ اور اس بات کے بین ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں کہ صدر
صدام حسین مرحوم نے یہ نادانی امریکا کے ورغلانے سے ہی کی تھی جس کے بعد
امریکا کو اس خطے میں قدم جمانے اور اپنے مستقل فوجی مستقر قائم کرنے کا
جواز مل گیا۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ یہ دور اس سے دس سال پہلے ستمبر 1980میں
اس وقت شروع ہوگیاتھا جب اس کی شہ اور فوجی سپلائی کے بھروسہ صدر صدام حسین
مرحوم نے ایران کی نوزائدہ اسلامی مملکت پر یلغار کی غلطی کی تھی۔تاہم
امریکا کی سب سے بھیانک غلطی ’انسداددہشت گردی‘ کے نام پر وہ عالمی جنگ ہے
جو اس نے ایک غیر واضح حریف ’القاعدہ ‘ کے خلاف 2001سے چھیڑرکھی ہے۔ اس نے
اجتماعی تباہی کے اسلحہ اور القاعدہ سے تعلق کا جھوٹا بہانا بناکر عراق پر
یلغار کرکے پورے ملک کو کھنڈر میں تبدیل کردیا۔ جنگوں کے اس دور سے پہلے
عراق تعمیر و ترقی کی راہ پر رواں دواں تھا اور ہندستان، پاکستان، بنگلہ
دیش اور سری لنکا وغیرہ کے ہزارہا افرادکو وہاں روزگار کے بہترین مواقع
حاصل تھے، مگر عراق کی تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کےلئے امریکا کی چالوں نے
اس خطے کو تباہ کرڈالا۔ یہ سب کچھ زرا مختلف طریقے سے اس نے اب لیبیا میں
کیا ہے ۔سچائی یہ ہے کہ بعض خرابیوں کے باوجوداس خطے میں صدام حسین اور
عبدالسلام معمر قذافی ہی دو ایسے حکمراں تھے جو امریکی عزائم کی راہ میں
رکاوٹ بنے۔ افسوس کہ ہماری ملت کو اس خسارے کا احساس نہیں جو ان دونوں کی
موت سے عالم اسلام کو پہنچا ہے۔ بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے۔ امریکا کی سب
سے بڑی شامت تو افغانستان میںآئی ہے ، جس کی تاریخ صدیوں سے یہی رہی ہے کہ
حملہ آور شکست کھاکر ہی لوٹا ہے۔ امریکا اس بری طرح وہاں پھنس گیا ہے کہ اب
نہ اسے نکلتے بن پڑ رہا ہے اور نہ اپنا مکمل فتح کا خواب پورا کرنے کےلئے
مزید فوجی مہم جوئی کی سکت ہے۔
ایک غیر ملکی صحافی نے کابل میں قیام کے دوران اسامہ بن لادن سے پوچھا تھا
کہ آپ جو مہم امریکا کے خلاف چھیڑے ہوئے ہیں تو کیا آپ کا خیال ہے کہ اس
طرح امریکا کو شکست دی جاسکتی ہے تو اسامہ نے کہا تھا،’ہرگز نہیں۔ ہماری تو
حیثیت کیا ہے، دنیا بھر کی فوجی طاقت بھی مل کر امریکا کو شکست نہیں دے
سکتی۔البتہ امریکا کو اقتصادی طور سے کمزور کرکے پست کیا جاسکتا ہے۔‘ اسامہ
نے مزید کہا تھا،’ہمارا جہاں ایک ڈالر خرچ ہوتا ہے، اس کے جواب میں امریکا
جو کاروائی کرتا ہے اس پر ایک لاکھ ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔‘ اب9/11 حملے
کی دسویں سالگرہ کے موقع پر جو اعداد و شمار آئے ہیں وہ اسامہ کے اندازے سے
بھی زیادہ چونکا دینے والے ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا نے اپنی فوجی
مہم پر القاعدہ کے ایک ڈالر کے جواب میں ستر لاکھ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی
ہے۔ اس دس سالہ مہم جوئی پر امریکا نے 3.3ٹرلین ڈالر گنوائے ہیں۔ (ایک
ٹرلین کتنا ہوتا ہے، یہ جاننے کےلئے 1 کی دائیں جانب 12صفر لگالیجئے۔) اس
کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا کی سب سے بڑی معیشت قرض کے جال میں پھنس گئی ہے
اور اس سے نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے۔
اپنی اس فوجی مہم جوئی کے چلتے امریکا کا وقار کس قدر گر گیا ہے اس کا
اندازہ یوں کیجئے کہ 2001میں افغانستان پر فوج کشی سے کچھ دیر قبل نصف رات
میں صدر بش نے پاکستان کے صدر پرویزمشرف کو فون کرکے فوجی کاروائی کےلئے
پاکستان سے سہولتیںفراہم کرنے کی فوری منظوری طلب کی اور دھمکی دی کہ اگر
آنا کانی کی تو پاکستان بھی امریکا کے نشانے پر ہوگا۔بش نے مشرف کو اتنی
مہلت بھی نہیں دی تھی کہ وہ اپنے مشیروں سے بات کرلیں اورپاکستان کو اسی
لمحہ امریکا کے سامنے خود سپردگی کرنی پڑی تھی ۔ چنانچہ امریکا کو سرزمین
پاکستان پر ہر وہ سہولت مل گئی جو افغانستان کو تباہ کرنے کےلئے درکار تھی۔
اب زرا دس سال بعد کا منظر نامہ ملاحظہ فرمائیں۔ گزشتہ دوماہ کے دوران
امریکا نے کم از کم تین بار پاکستان کوحقانی گروپ کے تعلق سے شدید وارننگ
دی۔سرحدی علاقے میں حملے کی دھمکی دی۔ لیکن اسے کیا جواب ملا؟ پاکستان نے
سفارتی ذرائع سے نہیں بلکہ میڈیا کے توسل سے اسے بتادیا کہ وہ حملہ کرکے
دیکھے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہہ دیا ،
’پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے امریکا کو دس بار سوچنا ہوگا کیونکہ یہ
افغانستان یا عراق نہیں ہے۔‘ ایسا نہیں ہے کہ جنرل پرویز مشرف بزدل تھے
یاپرویز کیانی زیادہ شیر دل ہیں۔بلکہ اصلیت یہ ہے آج کا امریکا وہ امریکا
نہیں رہاہے جو دس سال پہلے تھا۔
یہ بھی مقام عبرت ہے جو امریکا کل تک مصر تھا کہ نہ القاعدہ سے کوئی بات کی
جائی گی اور نہ حقانی گروپ سے ،بالکہ ان کا پوری طرح صفایا کیا جائے گا، وہ
اب کوشاں ہے کہ کسی طرح ان دونوں گروپوں سے کوئی مفاہمت ہوجائے تاکہ وہ
اپنی عزت بچاکر افغانستان سے نکل جائے۔ چنانچہ ایک خبر یہ آئی ہے کہ اب
امریکا نے اسی پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے جس پر اس نے حقانی گروپ
سے سازش کرکے امریکی فوج پر حملہ کرانے کا الزام لگایا تھا، یہ گزارش کی ہے
کہ وہ ان گروپوں کے ساتھ مفاہمت میں معاونت کرے۔
امریکا کی یہ منطق قرین انصاف نہیں کہ وہ خود تو کسی بھی ملک پر دھاوا بول
دے اور جدید ترین اسلحہ سے بےشمار انسانوں کو، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں،
عورتوں اور بچوں کی بھی ہو، بلا جواز شہید کردے، لیکن اس کی غاصب افواج کے
خلاف کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔ ظاہر ہے جن مزاحمت کاروں کے پاس بمبار طیارے
اور ڈرون میزایل نہیں ہیں وہ چھاپہ مار کاروائی کا ہی سہارا لیں گے۔
افغانستان میں امریکی افواج کو جس طرح کے حملوں کا سامنا ہے، جن سے وہ
بلبلایا ہوا ہے، وہ دراصل ویسے ہی گوریلا حربے ہےں جن سے اسے ویتنام میں
سابقہ پڑا تھا۔ لیکن ان کاروائیوں کو امریکا اور اس کے حلیف ’اسلامی دہشت
گردی‘ قراردیکر عوام کوورغلاتے ہیں اور بلا جواز اسلام اور مسلمانوں کے خلا
ف شر پھیلاتے ہیں۔
ایسی کاروائیوں کو جن میں شہریوں کی جانیں جائیں، چاہے وہ ڈرون حملے ہوں یا
خود کش حملے، ہم ایک ہی طرح کی ظالمانہ ذہنیت کا گناہ تصور کرتے ہیںاور ان
کو ہرگز جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بہر حال اقتدار اور طاقت کی اپنی
فرعونیت ہوتی ہے۔ فطرت انسانی ایسی ہے کہ اختیار ہاتھ میں آجانے کے بعد
انصاف قائم کرنا اور اس کا استعمال انسانیت کی بھلائی کےلئے کرنا بڑا مشکل
ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ صرف اسلام کا دور اول ہی وہ سنہرادور
تھا جس میں حکمرانوں نے اقتدار اور اختیار کو اللہ کی امانت جانا اور اس کا
استعمال عوام کی بہبود کےلئے کیا۔ مسٹر فرائڈ مین کا یہ کہنا بجا ہے امریکا
اپنی ڈگر سے بھٹک گیا ہے۔ اور اسی کے نتیجہ میں امریکا کی مثال ایک بوڑھے
شیر کی سی ہوگئی ہے۔ اگر اس میں کچھ دم خم باقی رہا ہوتا تو عجب نہیں کہ وہ
ابھی عراق میں پنجے گڑائے رہتا اور افغانستان میں بھی جنگ جاری رکھتا۔ شاید
یہ بات اب امریکی پالیسی سازوں کی سمجھ میں آجائے۔ اس کےلئے نجات کی راہ
اسی صورت میں نکل سکتی ہے جب ووہ دنیا بھر میں اپنی فوجی مہم جوئی سے کنارہ
کرلے۔ (ختم)
(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری
ہیں) |