تحریر : محمداسلم لودھی
مجھے اس سے بحث نہیں کہ عمران خان کے جلسے میں کتنے لوگ تھے اور مسلم لیگ ن
کے جلسے میں کتنے ۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ دونوں کا ٹارگٹ جب ایک ہے تو
الگ الگ رہنے کی بجائے طاقت کو مجتمع کرکے دونوں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے
ہیں وگرنہ ایک دوسرے کا حریف بننا پیپلز پارٹی کی کامیابی کی راہ ہموار
کرنے کے مترادف ہے ۔ جہاں تک عمران خان کے منشور کا تعلق ہے جو اس نے نظام
کی تبدیلی کے حوالے سے پیش کیا ہے وہ واقعی بہت پرکشش اور جاندار ہے حقیقت
تو یہ ہے کہ جو بات عمران خان کہہ رہاہے وہی بات ہر محب پاکستانی کے دل کی
آواز ہے کیونکہ اس وقت وطن عزیز کو کرپٹ ٬ خائن اور بددیانت لوگوںنے کچھ اس
طرح اپنے مضبوط شکنجوں میں جکڑ رکھاہے کہ اس سے نجات کی بظاہر کوئی صورت
دکھائی نہیں دیتی ۔ ملک کو دیوالیہ پن کے ساتھ ساتھ کرپشن اور اقربا پروری
کا گڑھ بنا دیاگیاہے ۔مہنگائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا
جارہا ہے بجلی اور گیس نہ صرف قلت شدت اختیارکرتی جارہی ہے بلکہ بلزکی
زیادتی نے زندہ انسانوں کو نگلنا شروع کردیاہے یہ سلسلہ کہاں رکے گا کچھ
نہیں کہاجاسکتا۔ان حالات میں جبکہ ہر محب وطن پاکستانی حالات سے مایوس
ہوچکا ہے عمران خان اور اس کامنشور امیدکی ایک کرن دکھائی دینے لگا
ہے۔عمران کی یہ بات بالکل سچ ہے کہ پاکستان معدنی دولت سے مالا مال ہے 180
ارب ٹن کے تو صرف کوئلے کے ذخائر ہیں بلکہ بلوچستان ٬ قبائلی علاقوں٬ خیبر
کے پی ٬ پنجاب کے پہاڑی علاقے اور سندھ کے ریگستان تانبا ٬ شیشہ ٬ کوپر ٬
کوئلہ ٬ قدرتی گیس ٬ تیل ٬ جپسم ٬ کرو مائٹ ٬ لوہا ٬ سنگ مرمر ٬ تانبا ٬
نمک ٬ سونے کے وسیع ذخائر جن کی مالیت کھربوں ڈالر سے زائد ہے ٬ سرزمین
پاکستان میں موجود ہیں اگر اس معدنی دولت کو نکالا جائے تو پاکستان معاشی
اعتبار سے دنیا کاامیر ترین ملک بن سکتا ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ
بتانا چاہتا ہوں کہ عمران نہ صرف وطن سے سچی محبت کرنے والا عظیم سرفروش ہے
بلکہ وہ بہترین منتظم اور بروقت فیصلہ کرنے والا کپتا ن بھی ہے ۔ وہ جو
کہتا ہے کر بھی دکھاتا ہے ۔ ورلڈ کپ میں کامیابی اور کینسر ہسپتال کی تعمیر
اس کا ثبوت ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جہاں لوگ پیپلز پارٹی سے نفرت کی حدتک
مایوس ہوچکے ہیں جہاں وہ انتہائی بے رحم احتساب کا تقاضہ کرتے ہیں وہاں بے
روزگاری ٬ غربت افلاس کے خاتمے کی امید بھی عمران سے وابستہ کرچکے ہیں۔
لیکن اس کے برعکس مسلم لیگ ن سے توقعات کم سے کم ہوتی جارہی ہیں اس کی وجہ
شاید یہ ہے کہ جب بھی اسے اقتدار ملتا ہے تو آئی ایم ایف کے غلام سرتاج
عزیز جیسے لوگ نواز شریف سے وہی اقدامات کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو
اس وقت پیپلز پارٹی کررہی ہے ۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کے جتنے بھی ایم این
اے اور ایم پی اے ہیں وہ جیتنے کے بعد اپنے حلقوں میں واپس نہیں جاتے ۔
جیسے انہیں عوام سے ڈر لگتا ہے جبکہ میاں برادران تک پہنچنا اور ان سے بات
کرنا ناممکنات میں شامل ہوچکاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت نہ صرف ووٹر بلکہ
مسلم لیگی کارکن بھی تحریک انصاف میں دھڑا دھڑشامل ہورہے ہیں ۔جو لوگ یہ
کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے ووٹر نہیں ٹوٹتے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں
۔ پھر یہ بات بھی بطور خاص نوٹ کی گئی ہے کہ عمران کے جلسے میں سب سے زیادہ
تعدادپرجوش نوجوانوں کی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نوجوان نسل اپنے مسائل
کے حل کے لیے عمران کاہر اول دستہ بننے کے لیے تیار ہے۔ ایک اندازے کے
مطابق پاکستان کی 65 فیصد آبادی 13 سے 35 سال تک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
عمران کو کندھوں پر اٹھانے والے لوگ بھی زیادہ تر اسی عمر کے ہیں ۔میری نظر
میں وہ لوگ جو عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہوکر اس پر تنقید کررہے ہیں وہ
خود پیپلز پارٹی کی کامیابی کا راستہ ہموار کررہے ہیں ۔ اب جبکہ ماہرین
سیاست کے نزدیک عمران خان پاکستان میں تبدیلی کی علامت بن کر سامنے آچکا ہے
امریکہ سمیت کئی بین الاقوامی طاقتیں بھی اس کی مقبولیت سے اس لیے خائف
دکھائی دیتی ہیں کہ وہ امریکہ کا غلام نہیں بلکہ سچا اورکھرا پاکستانی ہے
جو امریکی غلامی قبول کرنے کو ہرگزتیار نہیں اور نہ ہی وہ بار بار فوجی
آپریشنوں کے حق میں ہے جن کی وجہ سے 35 ہزار بے گناہ پاکستانی جام شہادت
نوش کرچکے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں ہر محب وطن پاکستانی بھی عمران کی طرح ہی
سوچتا ہے ۔ عمران کی مقبولیت میں حد درجہ اضافے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ نہ
صرف سوئس بینکوں میں پاکستانی قوم کے 100 ارب ڈالر واپس لانا چاہتا ہے بلکہ
نااہل انتظامیہ کو فعال بناتے ہوئے پٹواری اور پولیس آفیسر تک کو انتخابی
عمل گزارنا چاہتے ہیں یہی وہ بنیادی اکائیاں ہیں جو معاشرے میں تمام مسائل
کی جڑ بن چکی ہیں۔عمران کے لیے میراصائب مشورہ یہی ہے کہ اسے صرف پنجاب تک
محدود نہیں رہنا چاہیئے بلکہ دوسرے صوبوں بالخصوص قبائلی علاقوں میں جاکر
اپنا منشور اور پیغام عوام تک بھی پہنچانا چاہیئے ۔ جہاں میں میاں نواز
شریف سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پیپلز پارٹی کی کرپٹ ترین حکومت سے نجات کے
لیے عمران خاں ٬ جماعت اسلامی سمیت دیگر تمام مذہبی جماعتوں کو اپنے ساتھ
ملائیں وہاں عمران خان اور امیر جماعت اسلامی سید منور حسن سے بھی گزارش
کروں گا کہ اپنے ووٹروں کوتقسیم سے بچانے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد کی
طرح ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیں جو بلدیاتی اور قومی الیکشن میں بھی حصہ لے
اور دور حاضر میں گو زرداری گو مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھی
مشترکہ جدوجہد کریں تو کامیابی ان کے قدم چومے گی۔اگر نوازشریف عمران اور
سید منور حسن اپنے اپنے خول میں بند رہے تو کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم
کرنے والی پیپلز پارٹی ٬ ایم کیو ایم اے این پی اور ق لیگ کے اشتراک سے ایک
بار پھر الیکشن جیتنے کے لیے پھر تیار کھڑی ہے ۔ |