خدا خدا کرکے آخر کار ڈینگئی
وائرس میں کمی آنے لگی ہے ،لیکن کئی گھر اُجڑنے کے بعد،کئی ماﺅں کے لعل ،بہنوں
کے بھائی اور معصوم بچوں کے ماں باپ اس قاتل ڈینگئی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔اسے
اﷲکی طرف سے اپنے بندوں کا امتحان ،حکومت کی کو تاہی یا پھر ہم اپنی ہی
غفلت سمجھ لیں،کیونکہ جو نُقصان ہو ا ہے اُس کا ازالہ نہیں ہو سکتااس لیئے
اب اس پر بحث کرنے سے بہتر ہے کہ مستقبل کے بارے میں سوچیں،سب سے پہلے تو
ہم سب اپنے گُناہوں کی ا ﷲتعالی ٰسے معافی مانگیں ،اپنے اعمالوں کو دُرست
کریں اور اﷲسے ڈرتے رہیںتاکہ اُسکے عذاب سے بچ سکیں۔جہاں تک بات ہے ہماری
غفلت کی تو ہمیں بھی ز مہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے فرائض صیع طریقے سے
انجام دینے ہونگے ۔ایک تحقیق کے مُطابق بتایا گیا ہے کہ قبرستان میں قبروں
کے اوُپر اُگنے والے پودوں اور قبروں کے اُوپرپا نی کے کُھلے برتن رکھنے کی
وجہ سے بھی ڈینگئی وائرس پیداہوتا ہے۔اب ہم پر یہ فر ض ہے کہ ہم اپنے آپ کو
ایک زمہ دار پاکستانی بنائیں اور اپنے اپنے علاقے کے قبرستان کے صفائی کے
عمل کو یقینی بنائیںتاکہ آنے والے وقت میں اس ڈینگئی جیسی بلا سے بچا
جاسکے۔اب اگرہم بات کریں حکومت کی کوتا ہی کی تو وہ تو کبھی بھی اس بات کو
قبول نہیں کریں گے کہ اُن سے کوئی کو تا ہی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی ہم حکو
مت سے گُزارش کرتے ہیں خدا را آنے والے وقت کے لئیے کوئی ایسے اقدامات کریں
کہ دوبارہ ایسی مُصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔25اکتوبر 2011کو وزیر اعلٰی
پنجاب میاں شہباز شریف کی ٹی وی پر ایک انتہائی پُرجوش اور ایکشن سے بھری
تقریر دیکھنے اور سُننے کو ملی جس میں وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے ہم نے
عوام سے جو ڈینگئی وائرس ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ وعدہ پورا کردیااور
جس اعتماد کے ساتھ وہ یہ کہہ رہ تھے اُس وقت مُجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ
شاید سیاستدانوں سے بڑا کوئی ایکٹر دُنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا،یا تو میاں
صاحب اپنے ا ٓپ کو بہت زیادہ سیانا سمجھتے ہیں یا پھر وہ ہم عوام کو اُلو
سمجھتے ہیں کیونکہ شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ پہلے ہی سے محکمہ ِ صحت
پنجاب یہ اعلان کر چُکی تھی کہ جیسے ہی موسم میں تبدیلی آئیگی ڈینگئی وائرس
میں کمی آنا شروع ہو جائیگی اور ویسا ہی ہو رہا ہے اور میا ں صاحب ہیں کہ
اپنی کامیابی پر بغلیں بجا رہے ہیں ہیں وہ اپنے آپ کے لیئے سُرخرو بنیں
ہوئے ہیں۔سیلاب اور ڈینگئی وائرس جیسی قدرتی آفات سے تو اﷲ تعالٰی نے کسی
طرح سے چھٹکا رہ دلا ہی دیا اور پھر یہ مُصیبت چند دنوں یا مہینوں کے لیئے
آئی تھی لیکن سیلاب اور ڈینگئی وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ایک اور مہلک
بیماری ہے جو دن بدن ہمارے مُلک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے وہ ہے ،غُربت ،بھوک
،مُفلسی ،اور بےروزگاری ہے اگر اس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو یہ ڈینگئی
وائرس اور سیلاب سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔انسانی حقوق کے
کمیشن کے ایک سروے کے مطابق اس سال 2011 میں پورے پاکستان میں تقریباً1600
لوگوں نے بھوک غُربت اور بیروزگاری کے سے تنگ آکر خود کُشیاں کی ہیں جو
پاکستان کے لیئے ایک بڑا لمیہ ہے۔جس طرح پاکستان میں روزبروز بیروزگاری میں
اضافہ ہو رہا ہے خد شہ ہے کہ اگلے سال یہ تعداد دُگنی ہوسکتی ہے۔پاکستان
میں اس وقت صورتحال اتنی سنگین ہو چُکی ہے کہ جسکے پاس اچھی تعلیم اور ڈگری
ہے اُس کے پاس نوکری نہیں ہے،جو رکشہ یا ٹیکسی ڈرائیور زہیں ہفتے میں تین
تین دن ،سی ۔این۔جی۔ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اُتنی آمدن نہیں کرپاتے جتنی
اُنکی ضروریات ہیں اور لیبر طبقہ یا دہاڑی دار سارا سارا دن فُٹ پاتھوں پر
بیٹھ کر آجاتے ہیں اُنکو کہیں دہاڑی نہیں ملتی،بجلی نہ ہونے کی وجہ سے
فیکٹریاں بند پڑی ہیں کاریگرلوگ ہُنر ہونے کے باوجود بیر وز گار ہیں۔اسی
سلسلے کی ایک کڑی ،راجہ خان کی بیروزگاری سے تنگ آکر خود سوزی کرناہے ،راجہ
خان کا تعلق سند ھ سے تھا وہ پچھلے دو ،تین مہینوں سے اسلام ٓآباد آیا ہو
اتھا نوکر ی کے سلسلے میں لیکن کہیں سے بھی اُسے جب اُمید کی کوئی کرن
نظرنہیں آئی تو 25 اکتوبر 2011کو راجہ خان نے پارلیمنٹ کے سامنے اپنے آپ کو
آگ لگادی اور موت کو گلے لگا لیا اُ س کی جیب سے ایک خط مِلا جو حکومت کے
نام تھا جس پر لِکھا تھاکہ میں بیروزگاری سے تنگ آکر خود سوزی کر رہا ہوں
میرے مرنے کے بعد حکومت میرے بچوں کی کفالت اپنے زمے لے، راجہ خان کے دو
بچے پہلے تھے اور تیسرا بیٹا اُسی دن پیدا ہو جس دن اُس نے خود سوزی کی۔
ابھی اس درد سے لوگوں کی آنکھیں نم ہی تھیں کہ اگلے ہی روز ایک اور درد نا
ک واقعہ پیش آیا۔پاکستان ریلوے کے ریٹائیرڈ مُلازمین جن کی عُمر70اور75 سال
کے لگ بھگ تھیں جنکو پچھلے دو مہینوں سے پنشن کی ادائیگی نہیں کی گئی تھی،
26اکتوبر کو وہ پنشن لینے کے لیئے رات 2بجے سے ہی نیشنل بینک کے سامنے
لائین بنائے کھڑے تھے تاکہ صبح جلدی باری آجائے اور وہ اپنی پنشن کی رقم
حاصل کرسکیں ،لیکن اُن میں سے ایک بدنصیب ایسا بھی تھا جس کا نام محمود خان
تھا وہ جب پنشن لینے کے لیئے گھر سے نِکلا تو اُس نے اپنے پوتوں اور پوتیوں
کو یہ دلاسہ دیا کہ جب وہ پیسے لیکر واپس آئیگا تو وہ اُن کے لیئے عید کے
کپڑے اور کھلونے وغیرہ لے کر دیگا لیکن محمود خان شاید یہ نہیں جانتا تھا
کہ اب وہ گھر واپس کبھی نہیں آنے والا ہے ،کیونکہ رات سے ہی لائین میں کھڑے
رہنے اور عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے وہ اتنا تھک گیا کہ اُسکے دل کی دھڑکنیں
رُک گئیں وہ بہیوش ہو گیا اور جب اُسے ہسپتال پہنچایا گیا تو دم توڑ گیا ۔کیا
یہی عزت ہے ہمارے مُلک میں ایکsenior citizen کی کہ جو اپنی تمام زندگی جس
محکمہ کی خدمت میں گُزار دیتا ہے اور آخر میں پنشن کے نام پر اُن کو مِلتی
ہے موت اور وہ بھی ایڑھیاں رگڑرگڑ کر ،خدارا یہ کیسا انصاف ہے اور کیسا
قانون؟جب اتنا کچھ ہو گیا تو حکومت بھی خاموش نہ رہ سکئی اور حکومت نے ،
راجہ خان کے گھروالوں کو ایک لاکھ اور محمود خان کے گھر والوں کو پانچ لاکھ
روپے دینے کا اعلان کیا ۔کیا خوب ہوتا اگر حکومت کی آنکھیں پہلے ہی کھل
جاتیں اور راجہ خان کو ایک لاکھ کی بجائے ،دس ہزار روپے کی ایک نوکر ی اور
محمود خان کو پانچ لاکھ کی بجائے ٹائم پر اور عزت کے ساتھ اُسکی پنشن کے
پانچ ہزار ہی اُسے مل جاتے تو شاید یہ دونوں زندگیاں بچ سکتی تھیں ۔ایک وہ
بھی زمانہ تھا جب حُکمران بھیس بدل کر رات کو گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے
یہ دیکھنے کے لیئے کہ عوام کس حال میں کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں یا کوئی
بھوکا تو نہیں رہ گیا اور ایک اب کا دور ہے کہ کوئی تنخواہ نے ملنے کی وجہ
سے پریشان ہے، کسی کو پنشن نہیں مل رہی ،کسی کو نوکری نہیں مل رہی اور کوئی
اپنے آپ کو فقط اس لیئے جلا رہاہے کہ اُس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ جس
سے وہ اپنی اور اپنے بچوں کی پیٹ کی آگ کو بُجھا سکے،غریب عوام ایک وقت کی
روٹی کے لیئے ترس رہی ہے اور حُکمران خود پیٹ بھر کر ایسی مدہوشی کی نیند
سوتے ہیں کہ اُنھیں خبر ہی نہیں رہتی کہ ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں
بھوکے پیٹ ہونے کی وجہ سے نیندتک نہیں آرہی۔آج کے حُکمرانوں سُن لو ! اس
کائینات کا سب سے بڑا بادشاہ وہ اُپر ہے (اﷲ تعالیٰ کی ذات ) اور ایک دن
اُس کے دربار میں سب نے حاضر ہونا ہے وہاں اُس کے سامنے نہ کوئی اور بادشاہ
ہوگا ،نہ کوئی وزیر نہ کوئی فقیر سب برابر ہونگے۔سب کو اپنے اپنے اعمال کا
حساب دینا ہوگا پھر اُس دن راجہ خان اور محمود خان جسیے پتہ نہیں کتنے اور
ہونگے جو تم لوگوں کو گریبانوں سے پکڑ کر پو چھیں گئے ، بتاﺅ ہما را کیا
قصور تھا کہ تمہارے دورِحکومت میں ہمیں بھوک اور غربت نے وقت سے پہلے ہی
ماردیا۔۔۔بس ڈ رئیے اُس دن سے ۔اور بدل لیجیے اپنے آپ کو کیونکہ وہ بہت بڑا
معاف کرنے والا ہے۔۔۔۔صرف ڈینگئی وائرس اور بجلی کی عارضی لوڈشیڈنگ کے
خاتمے سے تمام مسائل حل نہیں ہوجاتے ہیں ،بڑی بڑی بڑھکیں مارنے اور آپس میں
مُقابلہ بازی کرنے سے بہتر ہے کہ سب مل بیٹھ کر سوچیں کہ کس طرح پاکستان کے
عوام کے لیئے روزگارکے مواقعے فراہم کیئے جائیں تاکہ کوئی اور راجہ خان
پھرسے خود سوزی کرنے کے لیئے مجبور نہ ہو۔ جناب وزیراعلیٰ صاحب سے بھی ایک
گُزارش ہے کہ اب ڈینگئی اور ریلیوں سے ذرا ہٹ کر کچھ اور بھی سوچ لیں
کیونکہ ڈینگئی نے جو ظُلم ڈھانا تھا وہ تو ڈھا لیااور کہیں ایسا نہ ہوکے وہ
لوگ ، جو ڈینگئی سے بچ گئے !وہ بھوک اور غُربت سے نہ مر جائیں۔۔۔ |