اسلامی جمہوریہ پاکستان

اسلامی جمہوریہ پاکستان
1973 کے آئین میں ملک کا پورا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھا ہوا ہے۔ لیکن عملی طور پر پاکستان کا نظام نہ اسلامی ہے اور نہ جمہوری۔ 78 سال سے یہاں نہ جمہوریت مکمل نافذ ہو سکی نہ مکمل اسلام۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہجوم کے طور پر ہم زندگی کا سفرتو کاٹ رہے ہیں لیکن نہ ہم ایک قوم بن سکے اور نہ ہی اپنی منزل کو تعین کر سکے۔
مئی 1947ء دہلی میں قائد اعظم نے رائٹر کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان میں سماجی جمہوریت ہوگی جس میں حکومت کابینہ اور پارلیمنٹ سب عوام کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ عوام پاکستان کے قطعی اور حتمی حاکم ہوں گے۔
قائداعظم نے25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات عدل اور انصاف کا درس دیا ہے۔ کسی کو جمہوریت مساوات اور حریت سے خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہ دیانت کے اعلیٰ ترین معیار پر مبنی ہو اور جمہوریت کی بنیاد ہر شخص کے لئے انصاف اور عدل پر رکھی گئی ہو اور پاکستان میں رہنے والے ہر شہری کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں۔
قائداعظم نے 26 مارچ 1948ء کو چٹاگانگ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے نظام حکومت کے بارے میں تفصیلی اظہار خیال کیا اور فرمایا کہ پاکستان کا نظام حکومت سماجی انصاف اسلامی سوشلزم کے اصولوں کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے گا۔ مادی اور روحانی آزادی حاصل ہوگی۔ ہم اپنی ثقافت اپنی روایات اور مزاج کے مطابق اپنے معاملات چلا سکیں گے اور اپنے مقدر کا فیصلہ خود کریں گے۔
قائد اعظم نے 26 فروری 1948ء کو ریڈیو پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ امیر امیر تر ہو جائے اور چند افراد کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز ہو جائے۔ ہمارا آئیڈیل سرمایادرانہ نہیں بلکہ اسلامک ہے یعنی ایسا نظام جو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ہو۔ تمام مسلمانوں کا مفاد اور فلاح ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے۔
قائداعظم نے کراچی میں سٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام پاکستان کے عوام کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ ہمیں اپنے مقدر کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ ہمارے سیاسی اور معاشی نظام کی بنیاد سماجی انصاف اور مساوات پر ہونی چاہئے۔ ہم دوسروں کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنے معاملات کو اپنے مزاج تاریخ اور ثقافت کی روشنی میں طے کرنا چاہئے۔
آج جب بھی پاکستان میں نظام حکومت کی بات کی جاتی ہے تو صرف جمہوریت کی بات کی جاتی ہے اور اسلام کو نظرانداز کیا جاتا ہے حالانکہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
پاکستان کے آئین، قائداعظم اور علامہ اقبال کے فرامین کے مطابق پاکستان کے لیے ضروری ہے نظام حکومت مکمل جمہوری ہو لیکن اسلام کے تابع ہو۔ کیونکہ اسلام کی مثال ہمارے مخالف ترین لیڈر گاندھی نے ان الفاظ میں دی:
میں رام چند اور کرشن کا حوالہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ تاریخی ہستیاں نہیں تھیں، میں مجبور ہوں کہ سادگی کی مثال کے لیے ابوبکر اور عمر کا نام پیش کروں، وہ بہت بڑی سلطنت کے حاکم تھے مگر انہوں نے فقیروں والی زندگی گزاری۔
پاکستان کا قیام ہی لا الہ الا اللہ کے نعرے پر ہوا ہے اور اس کا مستقبل اسلام اور جمہوریت دونوں میں ہے، ایک بھی نہیں ہو گا تو پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صرف جمہوریت ہو گی تو تعلیم یافتہ لوگوں کی منزل اختیار، پروٹوکول اور حلال و حرام کی تمیز کے بغیر دولت کی کثرت ہی ہو گا۔ لیکن اگر نظام حکومت اسلام کے تابع ہو گا تو حکمران خود بھی قناعت پسند، ایماندار اور سادگی اپنانے والے ہوں گے۔ سود اور فضول اخراجات سے پرہیز ہو گا اور پوری قوم صرف اور صرف اسلام کے ہی نام پر اکٹھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اسلام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ خدمت خلق، اخوت، عدل، سادگی اور قناعت پسندی کا درس دیتا ہے۔ اس لیے اسلام کی نفی کرکے صرف اور صرف جمہوریت کی بات کرنا، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ ساتھ قائداعظم اور علامہ اقبال سے بھی روگردانی ہے۔


 
Khurram Shahzad
About the Author: Khurram Shahzad Read More Articles by Khurram Shahzad: 14 Articles with 7818 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.