یہ عذاب کیسے ٹلیں گے

وطن عزیز پاکستان طرح طرح کی آزمائشوں میں گھرا ہوا ہے۔ایک طرف قدرتی آفات ہیں، سیلاب سے ہونے والی تباہی ہے۔ سندھ کے عوام الناس چاروں طرف پانی میں گھِرے ہوئے ہیں، گھراجڑ چکے ہیں اور امداد کے راستے مسدود ہیں۔ پنجاب (اور خصوصاً لاہور) ڈینگی کے حملے کی زد میں ہے۔ ایک چھوٹے سے کیڑے نے انسانوں کو زیر کر لیا ہے۔ کراچی، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں قتل و غارت (ٹارگٹ کلنگ) بم دھماکوں کی دہشت طاری ہے۔ بلکہ پورا ملک بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔ بجلی اور گیس کی کم یابی کی وجہ سے اشیائے ضرورت بھی عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ مہنگائی نے غریب تو کیا ،متوسط طبقے کی زندگی کو بھی اجیر ن بنا دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور تعلیمی نظام کے ذریعے مغربی تہذیبی یلغار نے حیا اور اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال دیا ہے اور سب سے بڑھ کر کفر کی یلغار ہے، یہودو ہنود کی چیرہ دستیاں ہیں، امریکی ڈرون حملے ہزاروں زندگیاں نگل چکے ہیں۔ بدنصیبی سے قوم کے محافظ اس وقت کافروں کے ساتھی ہیں۔ ان کی آنکھوں پر اپنے مفادات کی پٹی بندھی ہے۔ یہ قوم اور ملت کے خیرخواہ نہیں صرف زر و دولت کے پجاری ہیں۔ ڈالروں کے عوض ملک وملتّ، سب کچھ فروخت کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ایسے محا فظ ہیں کہ گھر کے سارے دروازے انہوں نے دشمنوں کے لیے برائے فروخت لگا دیے ہیں۔ یہ کسی آفت اور بلا سے بچنے کی صلاحیت تو کیا، جذبہ اور خواہش بھی نہیں رکھتے۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
کیا اس سے قبل بھی دنیا میں کسی اور قوم پر ایسے برے حالات آئے؟
ان حالات سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے؟

یقیناً ایک مسلمان اپنے تمام تر مسائل کے حل کے لیے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرتا ہے اور اُسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جو فرد یا قوم، اپنے مسائل کا حل ان کو چھوڑ کر کہیں اور اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ گمراہ ہوتے ہیں اور مزید پریشانیوں میں بھی مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
آئیے دیکھیں قرآن کریم میں اللہ ایسے حالات کے بارے میں کیا فرماتا ہے:
ظھرالفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقہم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون ہ(سورہ الروم 41)

’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کی اپنے ہاتھ کی کمائی سے، تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔‘‘

یقیناً یہ ہمارے ہاتھوں کے اعمال ہیں جن کی پاداش میں ہم آج طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے ہیں، پوری امت ہلا ماری جارہی ہے اور خصوصاً ہماری قوم۔ اللہ تو رحمن والرحیم ہے، ستر ماؤں سے ذیادہ محبت کرنے والا ہے۔ وہ تو کسی قوم پر ظلم نہیں کرتا۔ ہاں تنبیہات کرتا ہے چھوٹے چھوٹے عذابوں اورآزمایشوں میں مبتلا کر کے جھنجھوڑتا ہے کہ لوگ جاگ جا ئیں۔
ولنذ یقنہم من العذ اب الا دنیٰ دون العذاب الاکبرلعلہم یرجعون (سورہ السجدہ 21)

’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزہ چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ اپنی باغیانہ روش سے باز آ جائیں‘‘

یعنی یہ چھوٹے چھوٹے عذاب اس لیے ہو تے ہیں کہ

قوم رجوع الی اللہ کرلے۔
شاید نصیحت اور عبرت حاصل کر لے۔
شاید کہ اس کی غفلت دور ہو جائے۔
کبھی کبھی اللہ تعالٰی اس طرح کے حالات میں مبتلا کر کے بعض ظالموں کو سزا دیتا ہے۔

اور اگراس کا غصہ زیادہ بھڑک اُٹھے تو ایک قوم کو دوسری قوم سے بدل دینے کے لیے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (معاذ اللہ) جیسے قوم فرعون کو اللہ نے طرح طرح کی آزمایشوں میں مبتلا کیا اس مقصدسے کہ وہ ایمان لے آئیں۔ لیکن جب وہ سرکشی میں بڑھتے چلے گئے تو اللہ نے فرعون سمیت تمام منکرین کو غرق کردیا اور بنی اسرائیل کو غالب کر دیا۔ دیکھیے قرآن پاک میں تبارک و تعالٰی اس کے بارے میں کیا فرماتاہے:
’’ولقد اخذناء ال فرعون با لسین ونقص من الثمرات لعلھم یذکرون ۔ہ ۔۔۔۔ وکانوا عنھا غافلین ہ (سورہ الاعراف :130تا 136 )

’’ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاہد ان کو ہوش آئے۔ مگران کا حال یہ تھا جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں، اور جب برا زمانہ آتا تو موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فال بد ٹھہراتے، حالانکہ درحقیقت ان کی فال بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے۔ ’’انھوں نے موسیٰؑ سے کہا ’’ تم ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں۔ آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، سُرسُریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے اور خون برسایا۔

یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں۔ مگر وہ سرکشی میں بڑھتے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔ ’’جب کبھی ان پر کوئی بلا نازل ہو جاتی تو کہتے اے موسیٰؑ تجھے اپنے رب کی طرف سے منصب حاصل ہے۔ اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر۔ اگر اب کہ تو ہم پر سے یہ بلا ٹلوا دے ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔ مگر جب ہم ان سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہر حال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے، تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان سے بے پروا ہو گئے تھے‘‘

ان آیات پر غور کریں ۔یہ پکار پکار کر جیسے ہمارے ہی حالات بیان کر رہی ہیں:

ہم کئی سال سے مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی کمی میں مبتلا ہیں (اگرچہ پیداوار ہمارے ہاں کم نہیں لیکن برکت اٹھا لی گئی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ہر مسئلے کی جڑ دہشت گردی کو قرار دے دیا جاتا ہے اور ہر فال بد مجاہدین کے ساتھ لگائی جاتی ہے۔ یہ کسی کو نظر نہیں آتا کہ اصل میں تو یہ ہمارے اجتماعی ’ افعال‘ کی سزا ہے۔

یہ بات کوئی نہیں سوچتا کہ اصلاً یہ اللہ کی ناراضگی ہے جس کے ہاتھ میں ساری فالیں ہیں، اچھی ہوں یا بری۔

کتنا سچ فرمایا تھا پیارے نبی ﷺ نے کہ:

جس قوم میں خیانت کا بازار گرم ہوگا اس قوم میں اللہ تعالٰی دشمن کا خوف اوردہشت پھیلا دے گا۔
جس معاشرے میں زنا کی وبا عام ہو گی وہ فنا کے گھاٹ اُتر کر ہی رہے گی۔
جس معاشرے میں ناپ تول میں کمی اور بددیانتی کا رواج عام ہو جائے گا، وہ رزق کی برکت سے محروم ہو جائے گی۔
جس معاشرے میں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں خونریزی لازماً ہو کر رہے گی۔
جس قوم نے بد عہدی کی اُس پر دشمن کا تسلط بہر حال ہو کر رہے گا۔‘‘ (مشکوۃ)

سچ بتائیں!

کیا حکمرانوں سے عوام الناس تک خیانت کا بازار گرم نہیں؟
کیا ایک ریڑھی بان سے لے کر اس ملک کے صدر تک بد دیانتی اور کرپشن کے بادشاہ نہیں؟
یہ بے حیائی اور بد کاری کیا یہ مجاہدین پھیلا رہے ہیں یا اس قوم کی اکثریت مبتلا ہے؟
جس قوم کے اربوں ڈالر چوری کرکے سوئس بنکوں میں جمع کرادیے گئے ہیں۔ اس کے رزق کی برکات کہاں سے ہوں گی۔

سچ بتائیے ہمارے ملک میں عدل و انصاف کی صورتحال کیا ہے؟ جہاں بے گناہ افراد کو پکڑپکڑ کر گوانتاموبے کی اذیت کدوں میں بھجوایا جائے۔ قوم کی حافظہ بیٹی عافیہ صدیقی جھوٹے الزام کے تحت سزا پائے اور ریمنڈڈیوس جیسے سفاک قاتل جہاز میں بٹھا کر باعزت طریقے سے گھر بھجوائے جائیں۔۔۔۔
اے قوم خدا کو گواہ کر کے بتاؤ !

اگر یہ سب کچھ ہے تو پیارے نبیﷺ کے فرمان ہم پر کیونکر پورے نہ ہوں گے؟ بلیک واٹر۔ نیٹو اور ڈرون حملوں کی صورت میں دشمن کیوں نہ مسلّط ہو گا؟ یہ وہ حقائق ہیں اگر قوم ان سے بے علم اور غافل رہے گی تو ان حالات سے نکل نہ پائے گی!

آگے! دیکھیے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:

’’انھوں نے موسیٰؑ سے کہا ’’ تم ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئو ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں۔ آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، سُرسُریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں۔ مگر وہ سر کشی میں بڑھتے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے‘‘ (سورہ الااعراف 132،133 )

قومِ فرعون حضرت موسیٰ ؑ سے کہتی تھی کہ آپ خواہ کوئی نشانی لے آئیں ہم آپ کی بات نہ مانیں گے تو اللہ نے طرح طرح کی آزماشیوں میں انہیں مبتلا کیا، ذرا اپنے حالات پر غور کیجیے۔ ہمارے عوام الناس زبان سے تو ایسی بات نہیں کہہ سکتے، کچھ بھی ہومسلمان تو ہیں لیکن کیا ہم من حیت القوم اپنے عمل سے ایسا پیغام ہی نہیں دے رہے جیسا فرعون کی قوم دے رہی تھی؟ زلزلے آئے، سیلاب آئے، قوم ہلاماری گئی ہم نے متاثرین کو امداد تو پہنچا ئی لیکن توبہ کتنے لوگوں نے کی؟ کیا ہمارے جھوٹ، بد یا نتی، کرپشن، بے حیائی ختم ہو گئی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ میڈیا بھی نہ بدلہ جو یہ سب خبریں جمع کر کے عوام الناس تک پہنچا رہا ہوتا ہے۔ ایک جا نب زلزلے اور سیلاب سے پھیلائی جانے والی تباہی دیکھائی جا رہی ہوتی ہے، تو دوسری جانب ناچ گانا قوم کے ایمان واخلاق کو برباد کر رہا ہوتا ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار کو بے نقاب کرنے والے میڈیا کے کتنے ہی کارندے خود اپنے مفادات کے ہاتھوں بِک کر قوم کے مفادات کا جنازہ نکال رہے ہیں۔

قوم فرعون میں اللہ نے ’’سرسریاں‘‘ پھیلائیں جس کے لیے قرآن نے لفظ ’قمّل‘ استعمال کیا گیا ہے جو مچھر، کھٹمل، مکھی، جوں اور سرسریوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان کے اناج میں کیڑے پڑ گئے، سر میں جوئیں، بستروں میں کھٹمل۔

آج ہماری قوم کو ’’اللہ کے ایک مچھر‘‘ نے بے بس کر دیا ہے۔ ایک ڈینگی وائرس نے کتنے جوانوں کو نگل لیا ہے! یہ اللہ کے لشکر ہیں۔۔۔۔
’’وما یعلم جنود ربک الا ھو‘‘ ’’ تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘ (سورہ المدثر: 31 )

کاش یہ بات کوئی اخباروں کے ’’دانشوروں‘‘کو سمجھا دے۔
کاش ٹی وی کے انیکر پر سنز اور ان کے ٹاک شوز کے مہمان، اس بات کو جان لیں کہ
یہ پانی جوسندھ میں چڑھ دوڑاہے۔
یہ ڈنیگی جس نے لاہور کو مفلوج کر دیا
یہ خون جو کراچی، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں برس رہاہے۔

یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں جو ہمیں کئی سالوں سے دکھائی جا رہی ہیں۔ تاکہ یہ دانشور! قوم کو سمجھا سکیں کہ اے قوم! قوم فرعون سے سبق حاصل کرو، عبرت پکڑو، سرکشی میں بڑھتے نہ چلے جاؤ! ہوش میں آجاؤ تا کہ اللہ اپنے لشکر کو خود سمیٹ لے۔ انہیں واپس لے جائے!
اگلی آیات پر غور کریں:

’’جب کبھی ان پر کوئی بلا نازل ہو جاتی تو کہتے ’’اے موسیٰؑ تجھے اپنے رب کی طرف سے منصب حاصل ہے۔اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر۔ اگر اب کی تو ہم پر سے یہ بلا ٹلوا دی تو ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔ مگرجب ہم ان سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہر حال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے، تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان سے بے پروا ہو گئے تھے‘‘ (سورہ الاعراف134 ,136 )

حضرت موسیٰؑ قوم فرعون کے کہنے پراللہ سے دعا کرتے تو عذاب ہٹ جاتا، لیکن وہ پھر عہد سے پھر جاتے اور بار بار وعدہ خلافی کی وجہ سے اللہ ان سے سخت ناراض ہو گیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا۔

اس قوم پر اتنا سخت عذاب کیوں آیا؟
اللہ کے رسول کی دعوت ردّ کردی۔
باربار وعدہ خلافی کی۔
اللہ کی بار باتنبیہات کو نظر انداز کر دیا اور وہ غافل قوم تھی۔

دوسری جگہ بھی قوم فرعون کے غرق ہونے کی وجہ اللہ تعالٰیٰ یہ بیان فرماتے ہیں:
فعصوا رسول ربھم فاخذھم اخذۃ رابیۃ ہ (سورہ الحاقہ10)

’’ان سب نے اپنے ربّ کے رسول کی بات نہ مانی تو اس نے ان کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑا۔‘‘

غور کریں۔ آج ہماری قوم اللہ اور اس کے رسول کی کتنی فرمابردار ہے؟ ہماری وعدہ خلافیوں کا کیا حال ہے؟ ایک وعدہ کلمہ پڑھتے ہوئے کرتے ہیں۔

ایک وعدہ پاکستان بناتے وقت کیا تھا! (آج اس وعدہ کو ہی غلط ثابت کرنے پر سیکولر دانشور سارا زور لگا رہے ہیں) اللہ کے نام پر ملک حاصل کیا، امریکہ کے پاس گروی رکھ دیا! تو اللہ امریکہ اور نیٹو کو ہمارے اوپر مسلّط کیوں نہ کرے گا۔ کون ہمیں ان حملوں سے بچا سکتا ہے جب اللہ ہی اپنی پناہ اٹھا لے؟ یہ درست ہے کہ ہر عمل کی مادّی توجیہا ت بھی ہوتی ہیں اورانہیں ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ انسان بذات خود بھی مادّہ اور رُوح کا مرکب ہے۔ اس دنیا کے تمام عوامل بھی مادی اور روحانی پہلو رکھتے ہیں، لہذا دونوں پر بیک وقت نظر رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اللہ اور اسکی تدابیر(یعنی روحانی پہلو) بہرحا ل ہر چیز پہ غا لب ہے۔ کو ئی ما نے یا نہ مانے ا س سے کوئی فرق نہیں حقیقت کو پڑتا البتہ نہ مانے و الے ہی گھا ٹے میں ر ہتے ہیں۔

ایک چلتا ہو ا ا نسا ن کسی پتھر سے ٹھو کر کھا کر گرتا ہے چو ٹ لگتی ہے۔ وجہ صر ف یہ نہیں ہوتی کہ ر ا ستے میں پتھر مو جو د تھا۔ وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کو نظر نہ آیا۔ نظر کم تھی، اند ھیرا تھا، دھیان کہیں اور تھا یا غافل تھا۔ اسکی آنکھیں کُھلی نہ تھیں۔ وہ راستے کے پیچ وخم سے بے خبر تھا! اس کو صاف راستے کا علم نہ تھا۔

قوم اللہ کی نشانیوں سے غافل رہے گی! سوچ کی سمت درست نہ کر ے گی، اللہ ورسول ﷺ کے بتائے ہو ئے صاف اور سیدھے راستے سے بے خبر رہے گی تو ٹھوکریں کھاتی رہے گی، گرتی رہے گی! اس کے دانشور پتھروں سے باخبرکریں گے تو گڑھے اس کے آگے آجائیں گے۔ وہ زلزلے سے نمٹنے کے آلات بنالیں گے تو سیلاب آجائیں گے۔ وہ ٹی بی اور پولیو کو ختم کرنے کی مہمات چلا چکیں گے تو ڈینگی آجائے گا!
خدارا سنیں اللہ کیا سنارہا ہے!
’’قل ھوالقادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم اومن تحت ار جلکم اویلبسکم شیعاو یذیق بعضکم باس بعضط انظر کیف نصرف الا یت لعلھم یفقھون‘‘

’’ کہو وہ اللہ اس پر قادر ہے کہ یہ عذاب اوپر سے نازل کردے۔ یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزاچکھوائے‘‘ دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں‘‘ (سورہ انعام 65)

اللہ نے کھول کھول کر مضامین بیان کیے۔
واضح ہدایات دیں۔
روشن دلائل دیے۔
قرآن کو تاریخ سے بھر دیا۔

کہیں سخت انداز میں ڈرایا، کہیں پیار سے سمجھایا۔ ہر وہ طریقہ انسان کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جو اس پراثر انداز ہوسکتا تھا۔ لیکن بد نصیب انسان بڑاہی جھگڑالو واقع ہوا!

’’ولقد صرفنا فی ھذاالقرء ان للناس من کل مثل وکان الا نسان اکثر شی ء جدلا ہ وما منع الناس ان یو منوااذ جا ء ھم الھدی ویستغفر واربھم الا ان تا تیھم سنۃ الا ولین اویاتیھم العذاب قبلا‘‘

’’ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑا لو واقع ہوا ہے۔ ان سب کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے رب کے حضور معافی چاہنے سے آخر ان کو جس چیز نے روک دیا؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو، جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہو چکا ہے، یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں‘‘ (سورہ الکھف54 ،55 )

ہم نے اس قرآن کو چھوڑ کر ہدایت اور علم آکسفورڑ، ہارورڈ سے حاصل کرنا شروع کر دیا۔ ہم دنیا کے ہی بن کررہ گئے (بے شک علم مومن کی میرا ث ہے، چاہے آکسفورڑ میں یا چین میں لیکن قرآن کی روشنی میں) لہٰذا اگر آج اگر ہم اللہ کے مسلّط کردہ عذابوں سے نجات چاہتے ہیں تو اس کا یہی حل ہے جو اللہ بتاتا ہے:
’’وانیبو الیٰ ربکم واسلمو لہ ٗمن قبل ان یا تیکم ا لعذاب ثم لا تنصرون ہ‘‘ (الزمر:54)

’’پلٹ آو اپنے ربّ کی طرف اور اس کے مطیع بن جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر تمہیں کہیں مدد نہ مل سکے۔‘‘

( یہ پلٹنا کیا ہے؟) اپنی غلطیوں، کوتاہیوں، وعدہ خلافیوں کا اعتراف کرنا اور اللہ سے استغفار کرنا۔ اللہ کا اعلان ہے کہ:
’’وما کان اللہ لیعذ بھم و انت فیھم ط و ما کان اﷲ معذّبھم و ھم یستغفرون ‘‘ ہ
’’اس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے‘‘ (الاانفال33 )

قوم یونس نے استغفار کیا تو اللہ نے آیا ہوا عذاب ٹال دیا اور اس قوم کو مہلت دے دی۔ اس قوم نے تو اپنے نبی کو علی الاعلان جھٹلا دیا تھا۔ پھر بھی اللہ نے معاف کر دیا۔
ہم تو اپنے نبی ﷺ پر جانیں قربان کرنے والی قوم ہیں۔ یہاں تو قرآن وسنت کی تعلیم باقاعدہ طور پر دی جا رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کتنے لوگ لبیک کہتے ہیں۔
ہماری قوم میں ابھی بہت سارا خیر موجود ہے۔الحمد للہ
اس وقت ضروری ہے کہ قوم کا سمجھ دار طبقہ متحرک ہو جائے اور اپنا فرض ادا کرے۔ تمام مادی اسباب کا بند وبست کرنے پر متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ۔
قوم کو استغفار کی طرف مائل کرے اور رجوع الی للہ پر ابھارے۔
قرآن وسنت کے ساتھ جوڑنے کی سعی کرے۔ جیسے تمام انبیاء نے ایسے حالات میں کی۔ انہوں نے اپنی اپنی قوم کوگن گن کراس کی غلطیاں اور گناہ بتائے پھر انہیں ایمان ،تقویٰ اور توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ اپنی پیروی کی نصحیت کی۔

’’ان اعبداللہ واتقوہ و اطیعون ‘‘
’’اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘(سورہ نوح3:)
پھر جس نے یہ دعوت قبول کر لی وہ کامران ہوا۔اور جس نے ردّ کر دی وہ عذاب کا شکار ہوا۔

آج ہماری قوم بھی غور کرے کہ کون کون سے گناہوں کی مرتکب ہو رہی ہے اور ان سے بچنے کا عہد کر ے۔ دور نگی اور منافقت ترک کر دے۔ جس قرآن پر ایمان لائی ہے اس کو نظام زندگی بنانے کی جدوجہد کرے۔ اس کو غالب کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہو۔ جس پاک رسول ﷺ پر جان قربان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کی سنت پاک کو اپنے عمل میں ڈھالنے، گھروں، سکولوں، عدالتوں بنکوں اور ایوان حکومت میں جاری وساری کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ کے عذاب ٹل نہ جائیں۔ اللہ کی رحمیتں نازل نہ ہوں۔ اللہ نے نبی ﷺ سے فرمایا کہ قوم سے کہہ دیجے:
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنوبکم ط واللہ غفوررحیم ہ

’’اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘ ( آل عمران 31 )

ہاں مالک جن پر راضی ہوتا ہے۔ انعامات کی بارش کرتا ہے اور جن سے ناراض ہوتا ہے ان پر اپنے لشکر مسلّط کردیتا ہے! اے قوم آؤ مل کر اپنے مالک کے حضور جھک جائیں، توبہ کرلیں اسے راضی کر لیں۔ قرآن کوسینے سے لگا لیں۔ عمل کی کتاب مان لیں، رسول ﷺ سے محبت کا عملی ثبوت دے دیں۔ ان کے دین کو غالب کرنے کے لیے تن من دھن لگا نے کا عہد کر لیں اور بد عہدی نہیں، عہد وفا کرنے والی قوم بن جائیں (ان شاء اللہ !) تو سارے عذاب ٹل جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ
خدمت اور مدد اور باہمی تعاون
خدمت ومدد کی روایت کو زندہ رکھنا ضروری ہے زندہ قومیں باہمی تعاون سے بڑے بڑے معرکے سر کر لیتی ہیں اور بڑی بڑی آزمائشوں سے سرخرو ہو کر
نکلتی ہیں۔ ہم بھی آپس کے اختلاف بھلا کر ایک قوم بن جائیں، قدرتی آفات اوردشمنانِ دین کے حملوں کا شکار بہن بھائیوں کی ہر طرح سے مدد و خدمت کرنا ہمارا دینی فرائض میں شامل ہے۔ فنڈ جمع کرنا، پہنچانا، دیگر ہر طرح سے امداد کرنا ضروری ہے۔

صفائی نصف ایمان ہے
آج ہماری گلیاں، محلّے کوڑے کرکٹ کا ڈھیر بن چکی ہیں من حیث القوم ہم صفائی کا سبق بھول چکے ہیں۔ (اوریہ بھی ایمان ہی کی کمزوری کی علامت ہے) جہاں جہاں ممکن ہے، صاف گھر، صاف گلی، صاف ادارے کا تصور عام کرنا چاہیے۔

حلقہ دروس میں اس کو عنوان بنایا جائے۔
سکولوں، کالجوں اور دیگر اداروں میں اس کی یادہانی کرائی جائے۔
بچوں، بڑوں اور سب کو صفائی کا سبق یاد کرایا جائے۔
محب وطن اور دینی تنظمیں صفائی کی مہم چلائیں اور ہمیں چاہیے کہ اس معاملے میں حکومت کو تعاون فراہم کریں نیز حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست کیا جائے۔
جہاں جہاں عوام الناس کے لیے ممکن ہے کھڑے پانی کو حتم کریں۔ اس میں مٹی ڈالیں اور گڑھے بھر دیں۔

دیگر احتیاطی تدابیر تو میڈیا پربتائی جا رہی ہیں۔ ان پر عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ اس وبا کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

دعا
ان تمام کوششوں کے ساتھ ساتھ دعا ؤں کی اشد ضرورت ہے۔
سورۃالبقرہ کا آخری رکوع بکثرت پڑھا جائے۔
وباؤں اور امراض سے بچنے کے لیے مخصوص دعائیں پڑھی جائیں مثلاً
’’اعوذ بکمات اﷲ تآمۃ من کل شیطان و ھآمۃ‘‘
کرپٹ اور بد کردار حکمرانوں سے بچنے کے لیے قنوت نازلہ پڑھی جائے۔
سچے دل استغفار کے ساتھ ہم یہ سارے کام کریں گے تو یقیناً رب راضی ہو گا اور اس قوم پر سے عذاب ٹل جائیں گے ان شاء اللہ۔
JI South Karachi
About the Author: JI South Karachi Read More Articles by JI South Karachi: 4 Articles with 4887 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.