الذین یومنون بالغیب(القران)
یونیورسٹی ہاسٹل کے واش روم میں جگ کور کے گرنے نے میری سوچوں کو اک نیا رخ
دیا۔اگر جگ کور ہاتھ سے نہ گرتا تو میں کبھی بھی عقیدہ کو اتنی اچھی طرح
سمجھ نہیں سکتا تھا۔جگ کے اس کور نے نیوٹن کے سیب جیسا کام کیا اور میں
قدرت کے اور قریب ھو گیا۔ مجھے اس دن سمجھ آئی کہ پتھر کے بت کیسے نوازتے
ہیں آگ پر گزرنے سے پاؤں کیوں نہیں جلتے، سانپ کے ڈسنے سے زہر کیوں نہیں
پھیلتا اور یہ کہ ہم اللہ سے کیوں نہیں مانگتے ہمارا عقیدہ کمزور کیوں ہے
جیسا مانگتے ہیں ویسا ملتا کیوں نہیں،کیا ہمارا عقیدہ کمزور ہے؟ یہ بات
مجھے اس دن سمجھ آئی کہ ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتی ہماری دعاؤں میں
اثر کیوں ختم ہو گیا ہے۔ اگر عقیدہ کمزور ہو تو دعائیں کچھ اثر نہیں کرتی۔
مانگنے کے لئے ضروری ہے جس سے مانگا جائے اس پر یقین ابراھیم ہو۔ اقبال نے
یقین ابراھیم کی بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے،
آج بھی ھو جو ابراھیم کا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
اللہ پر عقیدے کو یقین ابراھیم جیسا ہونا چاہیے کہ جو آگ کو گلزار کر دے۔
جگ کے کور نے مجھے وہ ڈاکومینٹری یاد آ گئی غالبا وہ بھارت کا کوئی تہوار
ہے جس میں اس گاؤں کے لوگوں کا عقیدہ ہے اگر کوئی خطرناک سانپ ان کو ڈس لے
تو زہر نہیں پھیلتا اور ان لوگوں کو سانپ نے ڈسا لیکن زہر نے کوئی اثر نہ
کیا۔ اور اسی طرح سندھ میں جن افراد پر کاری کا الزام ہوتا ہے ان کا فیصلہ
کرنے کے لئے ان کو شعلوں پر سے گزارا جاتا ہے جو افراد سچے ہوتے ہیں ان کے
پاؤں نہیں جلتے۔ سانپ کے زہر کا اثر نہ کرنا اور گرم تپتے شعلوں سے پاؤں نہ
جلنا یہ ان کا اپنے عقائد پر پختہ یقین ہے اگر یہی یقین اللہ پر ہو تو یقین
ابراھیم ہے۔ یہ سب باتیں اور یقین ابراھیم کے بارے میں سوچی جب پنجاب
یونیورسٹی ٢٠٠٦ کے ہاسٹل نمبر ١ روم نمبر ١١٠ کا الاٹی تھا جب ہاسٹل کے واش
روم میں پانی بھرتے ہوئے جگ کا کور نیچے گیلے فرش پر گر گیا۔ اب کور کو واش
کرنے کی ضرورت پیش آئی لیکن ڈش واشر کی کبھی ھاسٹل لائف میں ضرورت ھی نہیں
پڑی تھی اس پریشان کن صورتحال میں مجھے بچپن کے وہ دن یاد آ گئے جب بچے گلی
یا حویلی میں کھیلا کرتے تھے اور شرط یہ ہوتی تھی کہ جس بچے کی بال نالی
میں جائے گی وہی نکال کر لائے گا تو جب کسی بچے کی بال نالی میں جاتی وہ
نکالتا اور ہاتھ واش کرتا اور ساتھ کلمہ طیبہ پڑھتا۔ بچپن میں یہ بات یقین
ابراھیم کی طرح ہمارے ذھن میں بیٹھی ہوئی تھی کہ کلمہ طیبہ پڑھ کر پانی سے
ھاتھ واش کرنے سے ہاتھ پاک اور صاف ہو جاتے ہیں لیکن بچپن کیا گزرا ۔ ۔ ۔ ۔
جگ کے کورنے مجھے میرا بچپن والہ یقین ابراھیم لوٹا دیا۔ میں نے یقین
ابراھیم سے سیکھا صرف اسی اللہ سے مانگو جو مانگو تو عطا کرتا ہے اور نہ
مانگو تو خفا ہوتا ہے۔ یقین ابراھیم سے سیکھا کہ اسی سے مانگو جو شہ رگ سے
بھی زیادہ نزدیک ہے۔ یقین ابراھیم سے سیکھا اللہ کے دربار سے مانگو نہ کہ
بندوں کے دربار سے۔ میں نے یہ یقین اک ہندوں میں دیکھا اک سندھی میں دیکھا
اک بچے میں دیکھا۔ اور جس دن ہم نے یقین ابراھیم پا لیا اس دن آگ گلزار ہو
بائے گی۔ |